1
Saturday 16 May 2020 03:11

افغانستان میں امریکی جنگ کا نیا داعشی چہرہ

افغانستان میں امریکی جنگ کا نیا داعشی چہرہ
تحریر: سید عباس حسینی

منگل 12 مئی کے دن افغانستان میں دو افسوسناک اور جان لیوا دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے۔ ان حملوں نے دنیا بھر کے انسانوں کی روح کو تڑپا دیا۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ایک دہشت گردانہ حملہ کابل کے مغربی حصے میں واقع دشت برچی اسپتال میں رونما ہوا جبکہ دوسرا حملہ صوبہ ننگرہار میں ایک تشیع جنازہ کے دوران ہوا۔ کابل کا مغربی حصہ کافی عرصے سے طالبان اور داعش کے دہشت گردانہ حملوں کے نشانے پر ہے۔ اس افسوسناک واقعے میں تین داعشی دہشت گردوں نے ایک زچہ بچہ اسپتال کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کئی حاملہ خواتین اور حتی نوزاد بچے شہید ہو گئے۔ یاد رہے کابل کے مغرب میں واقع دشت برچی علاقہ ایک شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں مقیم افراد کی اکثریت ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے بھی تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اس علاقے میں دینی، ثقافتی، علمی اور کھیل کے مراکز نیز مساجد، امام بارگاہوں اور عوامی اجتماعات کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اب ایک اسپتال کو نشانہ بنا کر انہوں نے اپنے غیر انسانی اور وحشیانہ اقدامات کی تکمیل کر دی ہے۔

اگرچہ ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے لیکن افغانستان کے ایک سابق حکومتی عہدیدار نے ٹویٹر پیغام کے ذریعے سب کو ایک اور حقیقت کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے چیف سیکرٹری کریم خرم نے اپنے پیغام میں لکھا: "امریکہ اپنے خودساختہ اعلانات اپنے زیر سرپرستی میڈیا کے ذریعے نشر کر رہا ہے جن میں مسلسل داعش کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں مستقبل قریب میں آج جیسے مزید وحشت ناک حملوں کا منتظر رہنا چاہئے۔ افغانستان میں امریکی جنگ کا نیا مرحلہ اور جدید چہرہ۔" گذشتہ ایک عرصے سے واضح تھا کہ امریکہ افغانستان میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی دوبارہ جان پکڑنے میں ملوث ہے اور اس قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کی منصوبہ بندی کا مقصد افغانستان میں قومی اور مذہبی جنگ کو فروغ دینا ہے۔ کریم خرم کا اشارہ افغانستان کے دو بڑے نیوز چینلز میں نشر ہونے والے اس مشکوک اور فساد انگیز اشتہار کی جانب ہے جس میں ایک جانب داعش کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور دوسری طرف داعش اور فاطمیون کے پرچم ایک ساتھ دکھا کر مخصوص شیطانی اہداف حاصل کرنے کی کوشش انجام پائی ہے۔

اگرچہ ماضی میں بھی ایسی فساد انگیز کوششیں انجام پائی ہیں اور شکست سے روبرو ہوئی ہیں کیونکہ اہل افغانستان نے ہمیشہ قومی اور مذہبی فسادات کو فروغ دینے کیلئے انجام پانے والی سازشوں کا انتہائی بصیرت سے مقابلہ کیا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے افغان دشمن قوتیں اپنی شیطانی سازشوں سے باز نہیں آ رہیں۔ افغانستان کے مختلف حلقوں میں اس اشتہار کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک طرف داعش نامی خونخوار تکفیری گروہ ہے جبکہ دوسری طرف فاطمیون بریگیڈ ہے جو اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مزارات کی حفاظت کیلئے شام اور عراق میں انہی تکفیری قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش اور فاطمیون کو ایک پیج پر دکھانے اور ان دونوں کو ایک جیسا ظاہر کرنے میں افغانستان میں کس ملک کے مفادات پوشیدہ ہیں؟ کیونکہ جن میڈیا چینلز میں یہ اشتہار دکھایا گیا وہ امریکہ سے وابستہ ہیں اور حتی اسرائیل سے بھی ان کی وابستگی کا امکان پایا جاتا ہے لہذا اس اقدام کے پیچھے چھپے اہداف کو کافی حد تک جانا جا سکتا ہے۔ یہ شیطانی سازش ایسے وقت سامنے آئی ہے جب افغانستان میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیاں تو سب پر واضح ہیں لیکن اب تک کسی قسم کی مشکوک سرگرمی میں فاطمیون کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔

اس وقت تک افغانستان کے اندر فاطمیون کی فعالیت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ بلکہ خود افغانستان کے اہل تشیع بھی ملک میں فاطمیون کی فعالیت نہیں چاہتے اور اب تک اہل تشیع نے طالبان اور داعش کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی مسلح افواج میں شامل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ گذشتہ بیس برس کے دوران افغانستان کے شیعہ شہریوں نے ملک کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز میں شمولیت اختیار کی ہے اور علاقائی ملیشیا تشکیل دینے سے گریز کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے طالبان سے امن معاہدہ کر کے افغانستان سے اپنے فوجی انخلاء کا راستہ ہموار کر لیا ہے اور اب اپنے مذموم مقاصد خاص طور پر خطے کے ممالک پر کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے اس ملک میں ایک نیا بحران جنم دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گذشتہ چند برس میں مختلف ذرائع ابلاغ پر ایسی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان کے بعض علاقوں میں داعش سے وابستہ دہشت گرد کمانڈرز کو ان کے اہلخانہ سمیت منتقل کرتے رہے ہیں۔ طالبان کے زیادہ تر اہداف علاقائی اور قومی دائرے تک محدود تھے لیکن اب امریکہ ایک ایسا خونخوار گروہ افغانستان میں مسلط کرنے کے درپے ہے جو بین الاقوامی اہداف کا حامل ہو۔ اور یہ افغانستان میں امریکی جنگ کا داعشی چہرہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 862941
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش