1
Wednesday 27 May 2020 21:49

چین کی لداخ میں پیشقدمی

چین کی لداخ میں پیشقدمی
تحریر: سید اسد عباس

بھارت اور چین کا سرحدی تنازع قدیم ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ یہ سرحد جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے اور اس سرحد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی سیکٹر یعنی جموں و کشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ اور مشرقی سیکٹر یعنی سکم اور اروناچل پردیش۔ دونوں ممالک کے مابین سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اور جس ملک کا جس علاقے پر قبضہ ہے، اسے ایل اے سی کہا گیا ہے، تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، جو کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔ انڈیا مغربی سیکٹر میں اکسائی چین پر اپنا دعویٰ کرتا ہے، لیکن یہ خطہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ سنہ 1962ء کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری جانب چین مشرقی سیکٹر میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے۔ چین تبت اور اروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کو بھی قبول نہیں کرتا ہے۔

سابق سفیر اور انڈین اور چینی امور کے ماہر پی سٹوبدان نے انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ تازہ کشیدگی کو صرف ایل اے سی کی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ جب انڈیا نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹایا تھا اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا تھا تو چین نے اس پر سخت تنقید کی تھی اور اسے ناقابل قبول اور چین کی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا تھا، یہاں تک کہ اس نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھی اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور انڈیا اور چین کے روابط پر کئی کتابوں کے مصنف کیشو مشرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پر سب سے پہلے 1996ء میں دیو گوڑا حکومت نے چیانگ زیمن کے ساتھ ایک لیگل فریم ورک پر اتفاق کیا تھا، جس کے تحت ایل اے سی پر زیادہ سے زیادہ پر امن رہنے اور کشیدگی کو کم کرنے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی باتیں سامنے آئی تھیں اور اس سے قبل راجیو گاندھی بھی جب چین کے دورے پر گئے تھے تو اس وقت بھی سرحدی تنازع ہی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ قرار پایا تھا۔

کیشو مشرا کے مطابق 2010ء کے بعد سے سرحدی تنازعے میں اضافہ دیکھا گیا اور انڈیا نے جب سے سرحد کے قریب سڑک کی تعمیرات کا کام تیز کیا ہے، اس پر چین کی گہری نظر ہے۔ چین اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی کی وجہ گلوان وادی میں انڈیا کی غیر قانونی تعمیرات اور علاقے کی حیثیت کو بدلنے کی کوشش بتائی جا رہی ہے۔ پانچ اور چھ مئی کو مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کے نزدیک چینی اور انڈین فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی۔ اس ہاتھا پائی میں دونوں ممالک کے تقریباً اڑھائی سو فوجی زخمی بھی ہوئے تھے۔ چین کی لداخ میں حالیہ پیش قدمی کے بعد بھارتی اور چینی فوجی گلوان وادی، پینگ گانگ، تسو، ڈیمچک اور دولت بیگ اولڈی کے مقامات پر آمنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔ لداخ میں کشیدگی کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کو اپنے قومی سکیورٹی کے مشیر اجیت دوول اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات میں تبادلہ خیال کیا ہے۔

سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اس وقت علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرین موجودہ کشیدگی کو کرگل کے بعد کی سب سے بڑی کشیدگی قرار دے رہے ہیں، تاہم کرونا کی فضا میں دونوں ممالک کس حد تک جاتے ہیں، کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی طیارے اور ہیلی کاپٹرز لداخ پہنچ گئے جبکہ چین نے ماؤنٹ ایورسٹ پر فوجیں اتار دی ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہےکہ ‏گیلون ندی (لداخ) سمیت تین مختلف مقامات پر چینی فوج 4-5 کلومیٹر تک LAC سے آگے مورچہ بند ہونا شروع ہوگئی ہے۔ بصرف گلون ندی کے مقام پر چین نے 100 کے قریب ٹینٹ لگا دیئے ہیں، چین کے پانچ ہزار کے قریب فوجی بھارتی قبضے کے علاقے لداخ میں داخل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ‏لداخ میں بھارت کو شکست کا سامنا ہے، اس کے متعدد فوجی گرفتار ہیں، اکثر نے بھاگ کر جان بچائی ہے۔ بھارت کے سابق جرنیل جرنل بخشی نے اس شکست سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی ایک طرف کی مونچھیں کٹوا دیں، جو اس وقت میڈیا میں کافی گرم خبر ہے۔ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھارتی فوجیوں کو لاتوں گھونسوں کی ویڈیوز بھی عام ہیں۔

یہاں یہ ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھارت اور چین میں ایک معاہدے کے تحت ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے پاس فرنٹ لائن پر کوئی ہتھیار نہیں ہوتے ہیں، دونوں ممالک کے فوجی جن کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں، ان کی بیرل کا رخ زمین کی جانب رہتا ہے، لڑائی کے دوران فوجی ایک دوسرے کو دھکا دے سکتے ہیں، تاہم کسی کو تھپڑ مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی اور بھارتی فوجیوں کے مابین جھڑپیں کشتی کی مانند ہوتی ہیں، جس میں ہاتھوں کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے۔ 2017ء کی ایک جھڑپ میں نوبت پتھراو تک گئی تھی، جو دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین صبر کے خاتمے کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔ خطے کی موجودہ صورتحال پر اپنے ردعمل میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان کو بھارت سے فالس فلیگ آپریشن کا خطرہ ہے، جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی ہمسایہ ممالک کی جانب جارحانہ پالیسی خطے کے امن و استحکام کو خطرہ قرار دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نازیوں کی لیبینزورم (لیونگ سپیس) کی طرح ہندوتوا کے خمیر سے جنم لینے والی مودی سرکارکی توسیع پسندانہ پالیسیاں بھارت کے ہمسایوں کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔

میری نظر میں کرونا کا شکار بھارت اس وقت چین کے ساتھ کسی بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہے، کرونا کے خلاف جنگ میں اپنی شکست، بگڑتی ہوئی معیشت اور داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ پاکستان، چین، نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات کو چھیڑ رہا ہے۔ ممکن ہے اسرائیل کے مانند بھارتی افواج کے ذہن میں ہو کہ اس وقت جبکہ دنیا کرونا سے جنگ میں مصروف ہے تو ہم بھی کچھ ایسا کریں، جو ہم عام حالات میں نہیں کرسکتے، تاہم اس کا تنیجہ چینی افواج کے لداخ پر قبضے کی صورت میں ظاہر ہوگا، بھارتی افواج نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ چین کی لداخ میں پیشرفت اور بھارتی افواج کی مرمت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ بھارتی ذہنت کا علاج گوشمالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چین کے ہاتھوں ہونے والی اس شکست سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت ایل او سی پر حملوں میں تیزی لا سکتا ہے، اگرچہ یہ دانشمندی نہیں ہوگی، تاہم جو ایک بے وقوفی کرسکتا ہے، اس سے دوسری کی بھی توقع رکھنی چاہیئے۔ حملے کی صورت میں ہمارا جواب بھی چین سے مختلف یا کمتر نہیں ہونا چاہیئے۔ کہاوت ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، یہ ہندوستانی فوجی اور سیاستدان وہی بھوت ہیں۔
خبر کا کوڈ : 865130
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش