0
Friday 5 Jun 2020 16:03

مقبوضہ کشمیر، ڈومسائل قانون نئی آزمائش

مقبوضہ کشمیر، ڈومسائل قانون نئی آزمائش
رپورٹ: جے اے رضوی

4 جون کو مقبوضہ جموں و کشمیر کٹھ پتلی انتظامیہ کے عمومی انتظامی محکمہ کی جانب سے حالیہ اعلان شدہ 10 ہزار درجہ چہارم اسامیوں کی خصوصی بھرتی مہم کے لئے جو قواعد و ضوابط جاری کئے گئے ہیں، اُن کے سرسری مشاہدہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمل میں سنجیدگی اور خلوص کا فقدان ہے۔ پڑھنے میں تو شاید یہ نوٹیفکیشن کوئی عام سا اعلامیہ لگتا ہو، لیکن قانونی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ کہاں کون سی خامی رکھی گئی ہے۔ زیادہ بحث میں جائے بغیر مذکورہ ضوابط میں موجود چند خامیوں کو اجاگر کرنا لازمی ہے، تاکہ اصلاح احوال سے کام لیا جاسکے۔ اول تو آج تک درجہ چہارم اسامیاں سروسز سلیکشن بورڈ کے ذریعے پُر نہیں ہوتی تھیں بلکہ یہ محکمانہ سطحوں پر ہی پُر کی جاتی تھیں اور یوں خواہ مخواہ سب سے کم درجہ کی سرکاری اسامیوں کو نان گزیٹیڈ اسامیوں کی بھرتی کے ذمہ دار بھرتی بورڈ کے سپرد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید کوئی انقلاب ہی آنے والا ہے۔

دوم ان قواعد و ضوبط میں گویا کہ یونین ٹیرٹری، صوبائی اور ضلعی کیڈر اسامیوں کو سالم حالت میں رکھا گیا ہے، لیکن جس طرح قواعد بنائے گئے ہیں، اُس نے ضلعی اور صوبائی کیڈر اسامیوں کے لئے پورے یونین ٹیرٹری کے امیدواروں کی جانب سے درخواستیں دینے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ غرض یہ ہے کہ عملی طور اب ضلعی اور صوبائی سطح کی اسامیاں مخصوص ضلع یا صوبہ کے امیدواروں کے لئے مختص نہیں رکھی گئی ہے بلکہ جموں و کشمیر کے سبھی خواہشمند امیدوار کسی بھی ضلع یا صوبہ میں بھرتی کے لئے درخواستیں دے سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آبائی صوبہ یا اضلاع کے امیدواروں کے لئے بالترتیب 5 اور 10 نمبرات مخصوص رکھے گئے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پسماندہ اضلاع کے امیدوار ان دس نمبرات کا کیا کریں گے، جب ان کا مقابلہ تعلیمی طور بہت آگے نکل چکے اضلاع کے امیدواروں سے ہوگا۔ یہ شق کسی بھی طور قرینِ انصاف قرار نہیں دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح اس نوٹیفکیشن میں بھرتی مہم کے آخری مرحلہ میں ڈومیسائل سند کی فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی انتظامی کم و سیاسی زیادہ لگتا ہے اور اس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دس ہزار اسامیاں جو جموں و کشمیر میں بیروزگاری کی شرح کو دیکھتے ہوئے اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہیں، کے بھرتی عمل کی آڑ میں اصل ہدف ڈومیسائل اسناد کی اجرائی کے چلن کو عام بنانا ہے۔ گویا کہ ابھی یہ اسامیاں مشتہر نہیں ہوئی ہیں، لیکن صوبہ جموں میں تحصیلدار دفاتر کے باہر ڈومیسائل اسناد کے حصول کے خواہشمند امیدواروں کی لائنیں لگنا شروع ہوچکی ہیں۔ فی الوقت سارے امیدوار درخواستیں دے سکتے ہیں، کیونکہ ابتدائی مرحلہ پر ان اسناد کو لازمی قرار نہیں دیا گیا اور یوں اُن لوگوں کو معقول وقت دیا گیا ہے، جن کے پاس پشتینی باشندگی اسناد نہیں تھیں اور جو غیر مقامی تھے کہ وہ اس دوران ڈومیسائل اسناد بنائیں اور جب بھرتی عمل حتمی مرحلہ میں ہو تو وہ اپنی اسناد پیش کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

جموں میں کالونیوں کی کالونیاں ایسے غیر مقامی لوگوں (ہندوؤں) سے بھری پڑی ہیں، جو برسہا برس سے یہاں رہ رہے ہیں، لیکن جموں و کشمیر کے باشندے نہیں کہلاتے تھے۔ اسی طرح پورے یونین ٹیرٹری میں عرصہ دراز سے کام کر رہے ترکھان، مستری، نائی وغیرہ بھی ڈومیسائل بن گئے اور ان کے بچے بھی اب ان اسامیوں پر بھرتی ہوسکتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایک فلڈ گیٹ کُھل چکا ہے، جس کے طویل مدتی نتائج کیا ہوں گے، سمجھ سے بالاتر نہیں ہے۔ ایک بڑی ناانصافی یہ ہے کہ دفعہ 370 ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کے آئین کو ختم کیا گیا اور بھارت کا آئین مکمل صورت میں جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا، لیکن جب اپنے مفاد کی بات ہو تو متروک شدہ جموں و کشمیر کے آئین سے قوانین اور قانونی دفعات لائی جا رہی ہے اور ان کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان بھرتی قواعد میں بھی وہی کیا گیا ہے۔ SRO-202 کی شقوں کو شامل کرکے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ نئے بھرتی شدہ ملازمین کے لئے پروبیشن کی مدت پانچ سال رہے جبکہ پورے ملک میں یہ مدت صرف دو سال ہی ہے۔

بھرتی ضوابط کے مطابق یہاں پانچ سال برقرار رہیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس دوران سروس مراعات بھی نہیں ملیں گی، جو فطری انصاف کے تقاضوں کے عین برعکس ہے۔ اگر آپ جموں و کشمیر کو باقی ملک کے ہم پلہ لانے کے دعوے کر رہے ہیں تو یہاں یہ ناانصافی کیوں۔؟ ویسے بھی بھارتی لاء کمیشن نے اس ’’ایس آر او‘‘ کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن چونکہ یہاں اپنا مالی فائدہ ہے تو اس کا اطلاق کیا۔ اس نوٹیفکیشن میں ایک تیر سے یوں کئی شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایک شکار وہ ہزاروں قسمت کے مارے اور حکومت کے ستائے پڑھے لکھے نوجوان بھی ہیں، جو برسہا برس سے عارضی بنیادوں پر سرکاری محکموں میں کوڑیوں کے عوض کام کر رہے ہیں۔ انہیں عمر کی بالائی حد میں پانچ سال کی چھوٹ دی گئی ہے اور پانچ نمبرات بھی ان کے لئے مخصوص رکھے گئے، لیکن کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

دہائیوں سے آپ نے اُن سے کام لیا اور اب آپ انہیں مسابقتی امتحان سے گزار رہے ہیں۔ نہ تو عمر کی بالائی حد میں چھوٹ اور نہ ہی نمبرات کی یہ نمائشی خیرات ان کا بھلا کرسکتی ہے، کیونکہ اُن کے ذہن مفلوج ہوچکے ہیں اور وہ اس بھرتی عمل کے تحریری امتحان میں یک لخت باہر ہو جائیں گے۔ خدا را خوش نما لفظوں اور دلفریب نعروں سے بہلانے کا سلسلہ ترک کریں۔ اب کشمیری عوام اتنی نادان نہیں ہے کہ وہ سمجھ نہ سکے کہ کس کے کیا ارادے ہیں۔ اگر آپ واقعی انصاف کے خواہاں اور لوگوں کے غم خوار ہیں تو ان کے حقوق کا سوچیں۔ غرض یہ کہ یہ بھرتی قواعد ناقص ہیں اور سراسر ناانصافی پر مبنی ہیں۔ ان میں ترمیم کی جائے۔ جموں و کشمیر کے نوجوانوں نے اتنا انتظار کیا ہے، وہ کچھ وقت کے لئے مزید انتظار کرسکتے ہیں، لیکن کُند چھرے سے اُن پر یوں وار نہ کیا جائے۔ اربابِ بست و کشاد سمجھ لیں کہ یہ قواعد پہلے سے ہی پریشان نوجوانوں کو پُرسکون کرنے کی بجائے انہیں مزید مشتعل کرسکتے ہیں، جو کوئی اچھا قدم نہیں ہوگا۔ اس لئے اصلاح احوال ناگزیر ہے۔
خبر کا کوڈ : 866782
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش