1
Wednesday 24 Jun 2020 18:31

انصاراللہ یمن کی جوابی کارروائی، کیا سعودی عرب مزید جارحیت سے باز آجائیگا؟

انصاراللہ یمن کی جوابی کارروائی، کیا سعودی عرب مزید جارحیت سے باز آجائیگا؟
تحریر: رضا میرابیان

کل منگل بروز 23 جون یمن کی مسلح افواج کے ترجمان یحیی سریع نے ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبر دی کہ یمنی فورسز نے "چوتھا ڈیٹرنس آپریشن" کے عنوان سے سعودی عرب کی وزارت دفاع اور انٹیلی جنس کی عمارتوں، ملک سلمان ایئربیس اور ریاض، جیزان اور نجران میں واقع بعض دیگر فوجی تنصیبات کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے سعودی حکومت کو خبردار بھی کیا کہ اگر یمن کا ظالمانہ محاصرہ ختم اور یمن پر انجام پانے والے ہوائی حملوں کو روکا نہ گیا تو مستقبل قریب میں زیادہ شدید حملے انجام دیے جائیں گے۔ دوسری طرف آل سعود رژیم نے بھی گذشتہ رات اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دارالحکومت ریاض کے شمال اور ملک کے جنوبی حصوں میں یمنی فورسز کی جانب سے فائر کئے گئے میزائل اور خودکش ڈرون اپنے نشانوں پر لگے ہیں۔ سعودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس حملے میں 8 خودکش ڈرون اور 3 بیلسٹک میزائل فائر کئے گئے تھے۔ انصاراللہ یمن نے دعوی کیا ہے کہ اس نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کو چار بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے جن کی تفصیلات بعد میں بیان کی جائیں گی۔

یمنی فورسز کی جانب سے سعودی عرب کے دارالحکومت اور چند فوجی مراکز کو ڈرون طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا جانا ایک اہم اقدام ہے۔ یہ اقدام درحقیقت آل سعود رژیم کی جانب سے دشمنانہ اور منافقانہ رویے کا ردعمل ہے۔ سعودی حکومت بظاہر تو امن مذاکرات کی دعوت دیتی ہے لیکن بدستور یمن کی شہری آبادیوں کو شدید ہوائی حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران سعودی عرب کی جارح فضائیہ نے بارہا یمن کے شہروں اور سویلین مراکز کو بمباری کا نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ انصاراللہ یمن نے اس جارحیت کا محدود پیمانے پر جواب دینے کی کوشش کی ہے تاکہ ایسا تصور پیدا نہ ہو کہ یہ تنظیم یمن میں امن و امان نہیں چاہتی۔ انصاراللہ یمن کی جانب سے حالیہ جوابی کاروائی درحقیقت آل سعود رژیم کی مسلسل جارحیت اور ہوائی حملوں کا ردعمل ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انصاراللہ یمن حالیہ جوابی کاروائی تک محدود نہیں رہے گی اور اگر سعودی حکومت کی جانب سے مزید جارحیت انجام پائی تو مستقبل قریب میں مزید جوابی کاروائیاں انجام دی جائیں گی۔

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یمنی فورسز کی جانب سے سعودی عرب کے مرکز کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنانا عرب اتحاد کیلئے کیا پیغام لئے ہوئے ہے؟ یمنی فورسز نے سعودی عرب کے جنوب میں واقع جیزان اور نجران کے علاقوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ دارالحکومت ریاض کو بھی بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ یہ آل سعود رژیم کیلئے ایک اہم پیغام کا حامل ہے اور وہ یہ کہ اگر سعودی حکمران یمن کے خلاف جارحیت جاری رکھیں گے تو حالیہ جوابی کاروائی مستقبل قریب میں ایک بڑی کاروائی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں انجام پانے والی ممکنہ کاروائی زیادہ شدید اور زیادہ وسیع ہو گی۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن کی جانب سے انجام پانے والی یہ جوابی کاروائی اس تنظیم کی فوجی صلاحیتیں بھی عیاں کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو یہ پیغام بھی پہنچا ہے کہ انصاراللہ یمن ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور شجاعت بھی۔ انصاراللہ یمن کی اس جوابی کاروائی کے نتیجے میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کی شان و شوکت کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔

گذشتہ پانچ برس سے جاری سعودی جارحیت کے دوران انصاراللہ یمن نے نہ صرف جوابی کاروائی کی صلاحیت برقرار رکھی ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا ہے۔ انصاراللہ یمن نے اس مدت میں ثابت کیا ہے کہ وہ جب چاہے سعودی عرب میں ہر نقطے کو نشانہ بنانے پر قادر ہے۔ یہ امر درحقیقت فوجی میدان میں انصاراللہ یمن کی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ سعودی حکمران بظاہر اعلان کرتے ہیں کہ وہ انصاراللہ یمن سے امن مذاکرات کے خواہاں ہیں لیکن اب تک انہوں نے یہ مذاکرات منعقد کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد نے محض جنگ بندی کی بات کی ہے جبکہ خود بھی اس کی پابندی نہیں کرتا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن کی نظر میں اب جنگ بندی پہلی ترجیح نہیں رہی بلکہ وہ یمن کا زمینی، ہوائی اور سمندری محاصرہ ختم کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ریاض فی الحال یہ محاصرہ ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انصاراللہ یمن حالیہ میزائل حملوں کی طرح اپنی جوابی کاروائی کا سلسلہ جاری رکھے اور اس میں مزید شدت لے آئے تو سعودی عرب کی جانب سے انصاراللہ یمن کے مطالبات قبول کر لینا خارج از امکان نہیں ہے۔ البتہ شاید اس کام میں کچھ عرصہ درکار ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 870625
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش