5
4
Wednesday 24 Jun 2020 18:39

کورونا زدہ عالمی معاشرے میں سوشل سائنسز کا کردار

کورونا زدہ عالمی معاشرے میں سوشل سائنسز کا کردار
تحریر: رضا ثاقب بلوچ

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ہنگامی بنیادوں پر کورونا ویکسین کی ضرورت ہے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کورونا زدہ اذہان اور کورونا زدہ معاشرے کو بھی کسی ویکسین کی ضرورت ہے۔؟ کورونا وائرس نے دنیا کو بے یقینی کی وادی بنا دیا ہے اور تقریباً زندگی کے تمام پہلوؤں میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، ہر طرف موت ناچ رہی ہے، وحشت کا دور دورہ ہے، ابن آدم کے لبوں سے مسکراہٹ رخصت ہوچکی ہے۔ شاپنگ سنٹرز، سینما، کلب، پارک و باغات جیسے تفریحی مقامات کی رونقیں ختم ہوچکیں۔ گلیوں اور بازاروں میں ویرانی ہے، وہ شوروغل، وہ قہقہے، وہ محلفلیں ماضی کی حسین یادوں کا حصہ بن چکی ہیں۔ کورونا کے مظالم فقط ہماری رونقوں، خوشیوں تک محدود نہیں رہے بلکہ کورونا لاکھوں انسانی جانیں بھی نگل گیا اور ستم یہ کہ پیاروں سے لاشیں بھی چھین لیں۔ ایک طرف کورونا کے مظالم جاری ہیں تو دوسری طرف غربت، مہنگائی، بےروزگاری، کاروبار کی بندش نے انسان کی بے بسی میں اضافہ کر دیا ہے۔

سوشل آئسولیشن، میڈیا پر ہر وقت نظر آتے کورونا کیسز کے بڑھتے اعداد و شمار اور ماہرین کی بدلتی آراء نے ذہنی امراض کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ خودکشی کے کیسز میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بے چینی کی وجہ سے گھریلو ناچاقی اور طلاق کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس سب صورتحال میں ہمیں معاشرتی ویکسین، جی ہاں معاشرتی ویکسین کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ حالیہ بحران سے تمام سائنسز کا گہرا ربط ہے اور تمام سائنسز مل کر ہی انسانیت کو اس مشکل وقت سے نکال سکتی ہیں، لیکن راہ حل اور پالیسی سوشل سائنسز ہی دیں گی، کیونکہ درحقیقت نیچرل سائنسز سوشل سائنسز کی خدمت گزار ہیں۔ بے شک نیچرل سائنسز نے ناقابل یقین حد تک ترقی کرلی ہے، خلاء کو تسخیر کر لیا ہے، تاریک راتوں کو روشن کر دیا ہے، فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے، دوریوں کا احساس ختم کر دیا ہے، لیکن یہ سب کچھ کس کے لیے ہے۔؟ انسان کے لیے!

خود انسان کیا ہے۔؟ اس کی ضروریات کیا ہیں۔؟ انسان کے اہداف کیا ہیں۔؟ اس کو کون بیان کرے گا۔؟ اس کو سوشل سائنسز بیان کریں گی۔ انسان سوشل سائنسز کا موضوع ہے، پس پہلے سوشل سائنسز انسان اور معاشرے کی ضرویات و اہداف کا تعین کریں گی۔ پھر خادم آکر مخدوم کی خدمت کرے گا، اس کی ضروریات پوری کرے گا۔ نیچرل سائنسز اگر زندگی آسان، سہل اور پرآسائش بناتی ہیں تو سوشل سائنسز بہتر، تہذیب یافتہ اقوام اور معاشرے تشکیل دیتی ہیں۔ جیسے نیچرل سائنسز سے ہم اپنی پسند کا پراڈکٹ تیار کرسکتے ہیں، جیسے ایک انجنیئر اپنی پسند کی گاڑی تیار کرسکتا، بالکل اسی طرح ایک سوشل سائنٹسٹ اپنی پسند کا معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ نیچرل سائنسز کی ترقی ہمیشہ سوشل سائنسز کی محتاج رہی ہے اور رہے گی۔ نیچرل سائنسز کی ترقی سے پیدا ہونے والے معاشرتی، معاشی اور اخلاقی مسائل کا حل صرف سوشل سائنسز کے پاس ہے۔ نیچرل سائنسز کی جدت سامنے توہم پرستی و جہالت کا علاج سوشل سائنسز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس جدت کو معاشرے میں قبولیت سوشل سائنسز کے ٹولز کے ذریعے دلائی جاتی ہے۔ نیچرل سائنسز کو اپنی منصوبہ بندی کے اجراء کے لیے سوشل انجئیرنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

دراصل سوشل سائنسز ہی دنیا میں نفوذ، فکر کو ارتقاء اور تخیل کو پرواز عطا کرتی ہیں۔ سوشل سائنسز کی برتری کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ آج تک اقوام عالم میں برپا ہونے والے تمام عظیم انقلابات سماجی مفکرین و ماہرین کے مرہون منت ہیں۔ کورونا وائرس کے ساتھ نیچرل سائنسز ایک معین و محدود محاذ پر مصروف عمل ہیں، جبکہ سوشل سائنسز کی جنگ ہمہ جہتی ہے۔ کورونا وائرس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو کیسے گزارنی ہے۔؟ معاشرے میں نظم و ضبط برقرار رکھنا، احتیاطی تدابیر سے آگاہی، لوگوں کے ذہنوں سے خوف کو ختم کرنا، دکھی انسانیت کو امید دلا کر خوشحال زندگی کی طرف واپس لانا، اس رکی دنیا کو بحال کرنا، ویران گلیوں اور بازاروں کی رونقیں پلٹانا، مرجھائے چہروں پر پھر مسکراہٹیں بکھیرنا، معیشت کی بحالی، بند صنعتوں کو رواں دواں کرنا، رکے ترقیاتی کاموں کو جاری کرنا، تعلیمی سرگرمیوں کو پھر سے رواں دواں کرنا، معاشرے کی رگوں میں پھر سے خون دوڑانا، سماج کی سانسوں کو معمول پر لانا۔ الغرض تمام امور کی بحالی کے لیے پالیسی وضع کرنا اور اس کا اطلاق سوشل سائنسز کے لیے چیلنج ہے۔

کورونا وائرس نے ہمارے معاشرے کو یکسر بدل دیا ہے۔ ہمارے رویئے، ہمارا سوچنے کا انداز، کام کرنے کی نوعیت بدل کر رکھ دی ہے۔ ہمارے روایتی انداز کو موت کا فرشتہ بنا کر ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ہماری ثقافت، اقدار و روایات، رسم و رواج بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ ہماری تقریبات ہماری ذات تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ کورونا ہماری خوشیاں نگل گیا۔ شادی بیاہ پر وہ ڈھولک، وہ مہندی، وہ ناچ گانا، وہ گلے ملنا شاید اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ماوں کی گودوں میں موجود نسل کی ہم کیسے سوشالائزیشن (socialization) کر رہے ہیں۔؟ ہماری آئندہ نسلیں کیسی ہوں گی۔؟ ان کی سماجی زندگی کیسی ہوگی۔؟ وہ رشتے کیسے نبھائیں گے۔؟ وہ خوشیاں کیسے منائیں گے۔؟ وہ دکھ کیسے بانٹیں گے۔؟ وہ جذبات و احساسات کا اظہار کیسے کریں گے۔؟ یا وہ جذبات و احساسات سے عاری روبوٹس ہوں گے۔؟

آہ ماسک پہنے وہ کورونا جنریشن!
کورونا وائرس سے بچاو کی سب سے اہم احتیاطی تدبیر سوشل ڈسٹیسنگ ہے، یعنی غیر ضروری میل جول سے سے پرہیز کرنا اور لوگوں سے سماجی فاصلہ اختیار کرنا۔ سوشل ڈسٹیسنگ نے ہمارے معاشرے کے سب سے اہم عنصر مذہب پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مذہب اور وجود خدا زیر سوال آچکا ہے۔ مذہبی مقامات و مقدسات جو مرکز شفاء تصور کیے جاتے تھے، کورونا نے انھیں موت کے مراکز میں بدل دیا۔ بلاتفریق تمام مذاہب کا کورونا ٹیسٹ مثبت آچکا ہے۔ مذہب جو کہ فرد کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اخلاق و اقدار کا خالق ہوتا ہے، معاشرے میں پیار، ہمدردی، عزت، یکجہتی اور اجتماعیت جیسی خصوصیات پیدا کرتا ہے، کورونا نے اس مذہب کو قرنطینہ میں منتقل کر دیا ہے۔ تمام عبادات و رسومات کی روح ایس او پیز نے قبض کر لی ہے۔ کورونا کے بارے میں مذہبی حلقوں میں مختلف خیالات و آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض مذہبی حلقے اسے عذاب خداوندی خیال کر رہے ہیں، جبکہ کچھ حلقے اسے سائنس کی ناکامی، ہدایت کا سامان اور خدا سے قربت کا وسیلہ قرار دے رہے ہیں۔

کورونا نے مذاہب سے متعلق بہت سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ روحانیت کیا ہے، کیا واقعی روحانیت و روحانی طاقتیں وجود رکھتی ہیں۔؟ کیا سائنس اور مذہب میں ٹکراو ہے۔؟ مذہب کا معاشرے میں کیا کردار ہے۔؟ کورونا کے بعد معاشرے میں مذہب کی نوعیت کیا ہوگی۔؟ اگر معاشرہ سے مذہب کا وجود ختم ہو جاتا تو معاشرے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی۔؟ اس کے انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی پر کیا اثرات ہوں گے۔؟ کیا معاشرہ مذہب کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا۔؟ کیا مذہب کے بغیر انسانی زندگی میں کوئی ہدف و مقصد باقی رہتا۔؟ مذاہب معاشرے میں اپنا مقام بحال کرنے کے لیے کیا اقدامات کریں گے۔؟ مختلف مذہبی مناسبتوں و تقریبات کے سبب مختلف مذہبی طبقات اور حکومتوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا تجزیہ کرنا اور پالیسی وضع کرنا سوشل سائنسز کی ذمہ داری ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز کا ایک متوازن ربط قائم کیا جائے اور سوشل سائنسز کو معاشرے و اداروں میں ان کا جائز مقام دیا جائے۔ جیسے نکولس اے کرسٹاکیس نے کہا ہے کہ "سوشل سائنسز بھی نیچرل سائنسز کی طرح یکساں انسانی فلاح و بہبود کا وعدہ کرتی ہیں، ہماری انفرادی اور اجتماعی طرز عمل کی گہری سمجھ بوجھ سے ہماری زندگیوں میں بہت بہتری آسکتی ہے، لیکن نیچرل سائنسز کی طرح سوشل سائنسز کو بھی اپنے ادارہ جاتی ڈھانچے کو آج کے دانشورانہ چیلنجز سے ملانے کی ضرورت ہے۔" اگرچہ سوشل سائنسز کورونا وائرس کی ویکسین دریافت نہیں کرسکتیں، مگر کورونا اور اس جیسے آئندہ آنے والے عالمگیر بحرانوں سے نمٹنے اور بچاو کی حکمت عملی ضرور دے سکتی ہیں۔ اقوام عالم بالخصوص اسلامی حکومتوں کے لیے کورونا وائرس ایک عبرت و درس ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور نجات دہندہ علوم کا دامن تھام لیں، کیونکہ اب دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ سوشل سائنسز کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 870632
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
ما شاء اللہ بھت اچھا، خدا قوت
کاشف خان
Europe
بہت اہم موضوع پر لکھا یے، ما شاء ﷲ۔
Pakistan
اچھی کاوش
مرتجز حسین
Pakistan
ما شاء اللہ سیر حاصل و جچی تلی گفتگو فرمائی ہے، خدا معاشرے کو ایسے سپوتوں سے مالا مال فرمائے۔
Pakistan
Mashallah bahut khob ❤️❤️❤️
ہماری پیشکش