2
Saturday 27 Jun 2020 11:40

پاکستان میں تشیع ایک بار پھر نشانے پر۔۔؟؟؟

پاکستان میں تشیع ایک بار پھر نشانے پر۔۔؟؟؟
تحریر: ابو فجر لاہوری
 
پاکستان میں فرقہ واریت کو ایک بار پھر شہ دی جا رہی ہے۔ اس بار میدان تو وہی پرانا ہے، البتہ گھوڑے تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ پہلے ایک گروہ کو منظم کیا گیا، جس نے مخالف فرقے کیخلاف "کافر کافر" کی ایسی گردان جپی کہ اِسے ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیا گیا۔ اس گروہ کے سربراہ کا انجام وہی ہوا، جو ہمیشہ استعمال ہونیوالوں کا ہوتا ہے۔ اُسے جھنگ میں قتل کر دیا گیا۔ اُن کے بعد جو جانشین بنا، وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوا۔ تیسرے کو بھی گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد گروہ میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور پتہ چلا کہ مذکورہ بالا تینوں رہنماوں کو "اپنوں" نے ہی انجام تک پہنچایا، مگر اس کا الزام مخالف فرقے کے سر تھونپ کر اس پر بھی قتل و غارت کی گئی۔

تاریخ بڑی ظالم ہے، سچ کو چھپنے نہیں دیتی۔ کچھ عرصے بعد واضح ہوگیا کہ مذکورہ شدت پسند گروہ کے پیچھے بھی "ہم وطن" ہی تھے اور گروہ استعمال ہو رہا تھا۔ کس لئے؟، انقلاب اسلامی ایران کے اثرات روکنے کیلئے۔ مگر، ایران کا انقلاب، کوئی ایرانی انقلاب نہیں تھا، بلکہ وہ ایک فکری انقلاب تھا، جو مظلوم کا حامی اور ظالم کی مخالفت میں معرض وجود میں آیا۔ اس انقلاب نے دنیا میں ایک حقیقی تبدیلی دکھائی۔ چالیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، انقلاب کا پانی رکنے کا نام نہیں لے رہا، بلکہ یہ پانی ایسے بہہ رہا ہے کہ راستہ خود بخود نکلتا جا رہا ہے۔ اس انقلاب کے اثرات پوری دنیا میں دکھائی دے رہے ہیں۔ فلسطین کے مجاہدین سے کشمیر کے مظلومین تک، شام سے یمن تک، نائیجریا سے وینزویلا تک، جنوبی افریقہ سے امریکہ تک، ہر جگہ خمینیؒ و قاسم سلیمانیؒ دکھائی دے رہے ہیں۔

استعمار اور اس کے گماشتے پریشان ہیں کہ کریں بھی تو کیا؟ روکیں بھی تو کیسے؟ مگر ناکامی ہر جگہ ان کا مقدر بنتی جا رہی ہے اور تشیع ایک طاقت کے طور پر دنیا میں سامنے آرہی ہے۔ دراصل تشیع ہی اصل اسلام ہے، جس میں سمجھوتہ نام کی کوئی چیز نہیں، اہم ہے تو صرف اور صرف اسلام اور اسلام کیلئے ہر قربانی دی جا سکتی ہے۔ امام خمینی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اسلام کی بقا کیلئے اگر ایران کو بھی قربان ہونا پڑا تو کر دیں گے۔ حمیت کی یہ تحریک تہران سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ کا سرچشمہ کربلا ہے، 61 ھ میں شروع ہونیوالی اس تحریک نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا اور ظالم و مظلوم کے درمیان ایک حدِ فاصل کھینچ دی۔ تب سے لے کر اب تک، جس نے بھی کربلا سے درس لیا، اس نے دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ امام خمینیِؒ بھی انقلابِ اسلامی کو کربلا کی عطاء ہی قرار دیتے تھے۔

اب اس فکر کے سامنے بند باندھنے کا نیا طریقہ نکالا گیا ہے۔ پہلے پاکستان کے کار زار میں شیعہ کو دیوبندیوں سے لڑایا گیا، مگر اب گھوڑے تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ اب ایسے لگ رہا ہے کہ شیعہ کے مقابلے میں بریلویوں اور نصیریوں کو لایا جا رہا ہے۔ تحریک لبیک کے ایک دھڑے کے سربراہ مولانا آصف اشرف جلالی کو میدان میں اُتارا گیا ہے، جس سے دختر رسول، سیدہ کائناب کی شان میں گستاخی کروائی گئی، تاکہ اس کا شدید ردعمل سامنے آئے اور ماحول خراب ہو۔ اس گستاخی کی گونج صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھی سنائی دی۔ اس کی مذمت میں قراردادیں پیش ہوئیں۔ مگر میڈیا کو اشرف جلالی کیخلاف ہونیوالے مقدمے کے حوالے سے کوئی بھی خبر چلانے سے روک دیا گیا۔ پیمرا کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں ٹی وی چینلز کو ہدایت کی گئی کہ وہ اشرف جلالی کیخلاف درج مقدمے کے حوالے سے کوئی خبر یا ٹکرز نہ چلائیں۔ جس کے بعد معاملہ بظاہر ٹھپ ہوگیا ہے، لیکن کہتے ہیں کہ جس معاملے کو دبا دیا جائے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ شدت کیساتھ سامنے آتا ہے۔

اس حوالے سے کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ اشرف جلالی کو سپاہ صحابہ کے متبادل کے طور پر میدان میں اُتارا گیا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ نصیریت کے فتنے کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سال جولائی میں لاہور میں ایک کنونشن ہوا، جس میں اس فتنے کی بنیاد رکھی گئی۔ اب اس گروہ کے کرتا دھرتاوں نے دوبارہ 6 جولائی کو لاہور میں کنونشن کا اعلان کر دیا ہے۔ اس گروہ نے گذشتہ ہفتے لاہور کے سول سیکرٹریٹ کے باہر اشرف جلالی کیخلاف ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اشرف جلالی نے توہین رسالت کی ہے، اس کیخلاف 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا  جائے، جبکہ اس گروہ کے سرغنہ نے 6 جولائی تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اگر اشرف جلالی کیخلاف 295 سی کے تحت مقدمہ درج نہ کیا گیا تو وہ 6 جولائی کو نیا لائحہ عمل دیں گے۔

اسی مظاہرے میں مذکورہ رہنماء نے اہل تشیع کے رہنماوں، علماء اور مجتہدین کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس تنقید کا مقصد اہل تشیع کے اندر انتشار کو فروغ دینا ہے۔ یہ نصیری ٹولہ خود کو اہل تشیع ہی ظاہر کرتے ہیں، جبکہ اہل تشیع کے جید علمائے کرام نے ان سے اور ان کے عقائد سے اعلان لاتعلقی کیا۔ یہ گروہ حضرت علیؑ کو رب کہتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ یہ مجتہدین کو بھی نہیں مانتے، دوسرے لفظوں میں یہ نظام ولایت فقیہ کی مخالفت کیلئے میدان میں اُترے ہیں اور کھل کر اس نظام کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ان کی اس پالیسی سے واضح ہوتا ہے کہ ان کو صرف نظام ولایت فقیہ کیخلاف تیار کیا گیا ہے اور اس کیلئے ہی ان سے کام لیا جا رہا ہے۔ ان کے قیام کا مقصد بھی تشیع میں پھوٹ ڈالنا اور ملی قوت کو کمزور کرنا ہے۔ اس گروہ میں کوئی بھی پڑھا لکھا یا باشعود فرد شامل نہیں، یہ محض چند اوبالی افراد کا ایک گروہ ہے۔

اس گروہ کے مخالفین یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ گروہ برطانوی ایم آئی سکس کے پے رول پر ہے اور ایم آئی سکس ہی نظام ولایت فقیہ کو ناکام کرنے کیلئے یہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دوسری جانب اہل تشیع کی اکثریت نے اس گروہ کو مسترد کیا ہے۔ عوامی سطح پر بھی علماء سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس گروہ سے واضح طور پر اعلان برات کیا جائے، یہ غلط عقائد پھیلا کر تشیع کو بدنام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ایک حوصلہ افزاء بات سامنے آئی ہے کہ تمام اہل تشیع جماعتیں "اتحاد امت فورم" کے پلیٹ فارم پر متحد ہو رہی ہیں۔ اس فورم کے متعدد اجلاس بھی ہوچکے ہیں اور مزید بھی مستقبل میں تشیع کی بقاء کیلئے مل کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے، یہ ایک مثبت قدم ہے۔ اس سے استعماری قوتوں کی سازشیں بھی ناکام ہوں گی اور تشیع کے اندر وحدت کو بھی فروغ ملے گا۔
خبر کا کوڈ : 871136
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش