0
Monday 10 Aug 2020 17:16

نتن یاہو استعفیٰ دو۔۔۔۔۔!

نتن یاہو استعفیٰ دو۔۔۔۔۔!
تحریر: عظمت علی
rascov205@gmail.com

کورونا جب عالم طفلی میں تھا تو لوگ مذاق تصور کر رہے تھے۔ اب جوانی کی دہلیز پر ہے تو اس نے پورے عالم کا استہزا بنا کر رکھا ہے۔ آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور دنیا کے عظیم تخلیق کار اور سائنس داں اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔ یہ وبا تو سب کے لیے وبال جان بن کر آئی ہے، اس لیے سبھی پریشان ہیں۔ نو ملین پر مشتمل مقبوضہ اسرائیل میں حالات کچھ زیادہ ہی خراب نظر آرہے ہیں۔ سال رواں، ماہ فروری کی 21 تاریخ کو پہلا مریض سامنے آیا۔ اس کے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے آرہے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے احتیاطی تدایبر بھی اپنائیں۔ سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک وغیرہ جیسی احتیاطی دوا کو لازمی قرار دیا۔ لاک ڈاؤن بھی لگایا گیا، لیکن ان سب کے باوجود اب تک وہاں مریضوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت(10 اگست) 83002 فعال کیسز، 57533 صحت یافتہ اور 600 کی موت ہوچکی ہے۔ روزانہ دو ہزار کا اوسط معیار بتایا جا رہا ہے۔

نوے لاکھ کی آبادی کے لیے کورونا کا پھیلاؤ بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے، جس کے باعث یہ چھوٹا سا ملک غربت کی نچلی سطح پر آپہنچا ہے۔ اس لیے وہاں کے عوام ملکی انتظامیہ سے شدید ناراض ہیں اور احتجاجی صورت میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے حالات کچھ زیادہ ہی مکدر ہوچکے ہیں۔ آٹھ اگست کا ہفتگی احتجاج اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس سے قبل یکم اگست کی شب میں بھی احتجاج ہوا تھا۔ یہ احتجاج چند دنوں کے فاصلہ سے پرامن احتجاج تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ماہ رواں کی آٹھویں تاریخ کو رات دو بجے یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف ان کی رہائش گاہ کے سامنے ہزاروں لوگ اکٹھا ہوئے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی تعداد پندرہ ہزار کے قریب تھی۔ مظاہرین سیاہ اور اسرائیلی پرچم لیے آئے تھے۔

پلے کارڈ پر بنجمن نتن یاہو کے خلاف مذمتی کلمات تحریر کئے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا "کرائم منسٹر" اور "نتن یاہو استعفیٰ دو" لکھا ہوا تھا۔ ان کا مطالبہ وزیراعظم کا استعفیٰ تھا۔ وزیراعظم کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے نتن یاہو کی کرپشن اور فراڈ کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک وزیراعظم کو عدالت سے صفائی نہ مل جائے، یہ ملکی نظام سنبھالنے کے لائق نہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ برس 21 نومبر کو صیہونی عدالت نے مالی بدعنوانیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت ملک کے وزیراعظم نتن یاہو پر باضابطہ فرد جرم عائد کر دیا تھا اور اس وقت کورونا کی وجہ سے ملکی بدعنوانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس لیے عوام مجبوری ہوئے کہ آواز بلند کی جائے۔ یہ ایک پرامن احتجاج تھا، جسے پولیس نے پرتشدد بنا کر مظاہرین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے علاوہ تل ابیب میں ساحل سمندر پر واقع وزیراعظم ہاؤس کے باہر بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔ ساتھ ہی ملک کے مختلف علاقوں اور چوراہوں پر احتجاجی مظاہرے ہوئے، لیکن سب سے بڑی تعداد کا اجتماع یروشلم میں بتایا گیا۔

یہ احتجاجات دراصل دو باتوں کی جانب واضح اشارہ کر رہے ہیں۔ عوام کی شدید ناراضگی "نتن یاہو" کا بدعنوان اور مجرم ہونا ہے۔ نتن یاہو سب سے زیادہ عرصہ سے ملکی انتظام سنبھالنے والے ورزیراعظم تسلیم کئے جاتے ہیں، مگر جب ان کی بدعنوانی ثابت ہوچکی تو ملک کے عوام کا رویہ بدل گیا اور کورونا کی آمد نے اس نفرت کو مزید تقویت پہنچا دی۔ چونکہ کورونا کے سلسلے میں وزیراعظم کی واضح ناکامی نے ملک کی کمر توڑ دی ہے۔ اس وقت شرح غربت 20 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔ لوگ اپنے پیٹ بھرنے سے معذور ہو رہے ہیں، اس لیے انہوں نے ملکی نظام میں سدھار لانے کے لیے بنجمن نتن یاہو کے استعفیٰ کی مانگ کی ہے۔

2011ء کے بعد سے اب تک کا یہ سب سے بڑی احتجاج اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اب ملکی حالت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ عوام الناس کو اپنی ضروریات فراہم کرنے کا سامان نہیں حاصل ہو رہا ہے۔ انہیں ایسے وزیراعظم کی ضرورت نہیں ہے، جو ملک کا مال لوٹ گھسوٹ کھائے اور عوام الناس اپنا پیٹ پالنے سے بھی عاجز رہیں۔ اس لیے جمہوری حکومت میں اپنا اختیار ثابت کرنا بہرحال ضروری ہوچکا تھا۔ ماہرین کی مانیں تو مزید احتجاجات متوقع ہیں۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔؟ لیکن وزیراعظم کے سر پر ایک کالی گھٹا چھائی نظر آرہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 879462
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش