0
Sunday 23 Aug 2020 04:25

کربلائے وقت اور درس آزادی و حریت

کربلائے وقت اور درس آزادی و حریت
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں محرم الحرام کا آغاز ہوگیا، گویا نواسہ رسول کے غم کا موسم آن پہنچا، گویا غم و اندوہ کی داستان، ظلم و ستم سے ٹکرانے کی داستان، حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی کی داستان، قربانی و ایثار کے نغمے گنگنانے کی داستان، حریت و آزادی کے ان مٹ نقوش تاریخ کے اوراق پر نقش کرنے کی داستان، دین کی خاطر سب کچھ لٹانے کی داستان، بچوں، بڑوں،ب وڑھوں، جوانوں، اپنوں، دوستوں، انصار اور اصحاب کے فدا ہونے اور نبی زادیوں کے مقنعہ و چادر لٹ جانے کی داستان، وفا کے آسمان پہ بلندیوں کو چھو جانے اور پانی پہ علم گاڑنے کی داستان کا موسم آن پہنچا۔ ہم سال بھر ان ایام کا انتظار بے قراری سے کرتے ہیں، تاکہ کربلا کے تپتے صحرا میں برپا کی جانے والی اس بے مثل قربانی اور فاجعہ عظیم سے درس لے سکیں، کیسا درس۔؟ وہی درس جو امام عالی مقام فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے سمیت بہتر ساتھیوں کی عظیم قربانی کا ہدف قرار دیا۔ چودہ صدیاں گزریں، اس ہدف اور مقصد کو ہر دور کے باغیرت اور باشرف انسانوں نے اپنے تئیں پانے کی کوششیں کیں اور اپنے اپنے ادوار کے یزیدان سے ٹکراتے رہے، اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے، اپنے جوانوں کی جوانیاں لٹاتے رہے اور آج بھی لٹا رہے ہیں۔

ذرا فلسطین چلو جہاں ہر روز کربلا برپا ہوتی ہے، معصوم، بے گناہ بچوں اور جوانوں کو خون میں لت پت کیا جاتا ہے، خواتین کی عصمت دری معمول بن چکا ہے، بے گناہوں کی اسارتوں سے زندان بھر گئے ہیں، ایک قوم، ایک ملت کو نابود کیا جا رہا ہے اور ان کی کوئی سننے والا بھی نہیں، کوئی آواز بھی بلند کرنے والا نہیں، ظالم و جارح اور قابض اسرائیل جو یزید وقت کا کردار ادا کر رہا ہے، روز بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر جشن برپا کرتا ہے، اسی طرح ہمارے پیارے جنت ارضی کشمیر چلو، جہاں جنت نظیر وادی کو خون آشامیوں سے سرخ کر دیا گیا ہے، کشمیر کی خوبصورت جھیلیں بے گناہ مسلمان کشمیریوں کے خون سے سرخ ہوچکی ہیں، ایک سال سے زائد عرصہ ہوا کہ ان کو کرفیو لگا کر محصور کر رکھا ہے، انسانی حقوق کے ادارے، بچوں کے حقوق کے ادارے، جانوروں کے حقوق کے ادارے، مہذب دنیا، جمہوری مملکتیں اور نام نہاد امت مسلمہ جسے او آئی سی اور عرب لیگ کا نام دیا جاتا ہے، کے کانوں پہ آج تک جوں تک نہیں رینگی۔

مسلمان قیادت اسقدر خائن ہے کہ ظالم و جابر مودی کو ایوارڈوں سے نوازا جاتا ہے، وہ مودی جو ہندوستان میں مساجد گرا کر مندر بنا رہا ہے، اس کے لئے مسلمان ملکوں میں حکومتی خرچ پر مندر بنائے جا رہے ہیں اور پوجا پاٹ کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کو زبردستی گائو موتر پلایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں تو اہل کشمیر کی صدائے استغاثہ کربلا میں گونجنے والی صدائے استغاثہ کا ہی تسلسل ہے۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے اپنے وقت کے ظالم، جابر، فاسق کی بیعت نہ کرکے اپنا سر کٹوانا قبول کیا ہے تو اہل کشمیر نے بھی کربلا سے درس حریت لے کے ظالم و قابض کے خلاف صدائے استغاثہ بلند کی ہے، ان کا علم جہاد بھی لہرا رہا ہے، جس پر لبیک کہنے کی ضرورت تھی، مگر کیا کریں کہ ہم مسلمانوں کی تاریخ یہی ہے کہ ہم اپنے رسولۖ کے نواسہ اور نبی زادیوں کو فاسق و فاجر یزیدی افواج کے سپرد کرکے انعام لینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں، ہم ان خیموں کو آگ لگانے سے بھی نہیں چوکتے، جن میں ہمارے آخری پیغمبر کی آل و اولاد اور مخدرات عصمت و طہارت موجود ہوتی ہیں، ہم تو شش ماہے علی اصغر اور کم سن سکینہ بنت الحسین کو بھی ظلم کا شکار کرنے پر شرمندہ نہیں ہوتے۔

ایسی تاریخ رکھنے والوں اور ایسے کردار وں کو اپنا آئیڈیل قرار دینے والوں سے کیسی امید کہ وہ اہل کشمیر کو بنیے کے ظلم سے نجات دلانے کیلئے میدان میں کودیں گے، ایسے بے حمیت اور بے غیرت حکمرانوں سے کیا امید کہ وہ اہل فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو آزادی کی نوید سنانے کیلئے اپنے مفادات اور اقتدار کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوسکیں، یہ تو اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرکے فخر کر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دے رہے ہیں، جبکہ اسرائیل نامی کوئی ملک اس دنیا کے نقشے پر موجود نہیں ہے، ملک ہوتے ہیں تو ان کی سرحدیں ہوتی ہیں، اسرائیل نے ابھی تک اپنی سرحدیں مشخص نہیں کیں، یہ روز فلسطینیوں کی بستیوں کو تاراج کرکے اور انہیں ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرکے قبضہ کرتا ہے اور اپنے وجود کو وسعت دیتا ہے، اس کا علاج فقط کربلا کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط غیرت کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط حمیت کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط قربانی کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط جہاد کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط اتحاد کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط آگے بڑھ کے علی اکبر، عون و محمد اور قاسم ابن الحسن علیھم السلام کی طرح ان سے ٹکرانے کا راستہ ہے، اس کا علاج فقط کربلائی راستہ ہے، جسے کربلا والے ہی نبھائیں گے۔

کربلا ہر دور اور وقت میں اپنے پیروان کو دعوت فکر و عمل دیتی آرہی ہے، کربلا ہر دور کے یزیدان کو للکارتی آرہی ہے، کربلا والوں کو کبھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ کتنے ہیں، ہاں ان کا خلوص، ان کی دیانت، ان کا ایمان، ان کا کی عبادت، ان کی صداقت، ان کا جذبہ، ان کا ایثار ہر طاقت مادی پر بھاری پڑ جاتا ہے، پھر یہ بہتر ہو کر بھی تاریخ میں چودہ صدیوں تک زندہ رہتے ہیں اور اسوہ و عمل کے لائق سمجھے جاتے ہیں جبکہ یزیدان اپنے ہزاروں حامیوں اور فوجیوں کے ہوتے، دولت و اقتدار کے گھمنڈ اور خوف و ہراس پھیلا کر لالچ دے کر بھی اپنے ساتھ ملانے والوں سمیت اپنا منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اگر ہم آج کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو حقیقت کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ ایک طرف امریکہ ہے، جس نے ایران پر بیالیس برس سے پابندیاں لگا رکھی ہیں، ان کا محاصرہ کر رکھا ہے، ان کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے، اس کے اسلحہ کی طاقت کے سامنے پابندیوں زدہ ایران کچھ بھی نہیں، مگر اپنے تمام کر و فر اور دجل و سازشوں کے باوجود ایران کو جھکانے سے قاصر دکھتا ہے۔ اس کے پس پردہ اگر کوئی طاقت و قوت ہے تو وہی کربلائی جذبہ اور حکمت عملی ہے، جس سے ایران سر اٹھا کر، سینہ تان کر وقت کے یزید کو للکارتا ہے۔

امریکہ بیالس سال سے اس کی کوشش ہے کہ ایران اس کی بیعت میں آجائے، جیسے باقی مسلمان آئے ہوئے ہیں، مگر ایران کے سامنے کربلا ہے، ان کے پاس کربلائی ہیں، ان کے پاس وقت کے کربلائی کردار ہیں، جن کی ہیبت یزید کی نیندیں حرام کرچکی ہے، اگر ہم فقط سید حسن نصر اللہ کا ہی نام لیں تو امریکہ و اسرائیل کی نیندیں حرام کرنے کیلئے کافی ہے، جبکہ میدان کربلا میں بہتر کے بہتر اپنا الگ الگ اور منفرد خصوصیات کا حامل کردار رکھتے تھے، ایسے ہی نجانے وقت کے یزیدان سے ٹکرانے کیلئے کتنے کردار موجود ہیں، جو اپنی رزمگاہ میں جانے کیلئے ہر دم بے قرار رہتے ہیں۔ کربلا سے واقعی اگر کسی نے درس حریت لیا ہے تو اہل ایران، اہل لبنان، اہل عراق ہیں، جنہوں نے اپنے ممالک اور ریاستوں میں یزیدان سے ٹکر لی ہوئی ہے اور شہادت و قربانی کے ذریعے اکسٹھ ہجری کی کربلا کو اس زمانے میں بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں، کربلا کو درسگاہ قرار دینے والے ناامید ہرگز نہیں، ہم شہادتوں، اسارتوں، گرفتاریوں، مشکلات کے پہاڑوں سے کبھی نہیں گھبراتے، یہ اگر نہ ہوں تو پھر کربلا نہیں ہوتی، ہاں ہم ہر صورت میں ظالم و ظلم سے ٹکراتے رہینگے، جب تک کہ یہ دنیا احادیث مبارکہ و متفقہ کے مطابق ظلم و جور سے بھر کر عدل کے قیام اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کو حکمرانی و اقتدار نہیں مل جاتا، یہ اللہ کا وعدہ ہے، جو ہو کر رہے گا، ہم اس دن کے منتظر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 881958
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش