0
Wednesday 9 Sep 2020 01:08

ایشیا میں امریکہ کے مبینہ اور پس پردہ اہداف

ایشیا میں امریکہ کے مبینہ اور پس پردہ اہداف
تحریر: عبدالحمید بیاتی

گذشتہ کئی سالوں سے امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد مشرقی ایشیا میں بڑے پیمانے پر موجودگی پر استوار کر رکھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی حکمرانوں کی جانب سے چین اور روس کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ کو بھانپ لینا ہے۔ سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ امریکہ نے بھی چین اور روس کو کنٹرول کرنے کیلئے ایشیا کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ ایشیائی ممالک سے سیاسی، فوجی اور دفاعی معاہدے انجام دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایک طرف جاپان اور جنوبی کوریا سے فوجی تعلقات کو فروغ دینا، آسٹریلیا اور انڈیا سے تعلقات میں بہتری لانا، چین کے سمندر میں تنازعات کو ہوا دینا، چین کے مقابلے میں تائیوان، ہانگ کانگ اور تبت میں بودائی مذہب کے پیروکاروں کی حمایت اور دوسری طرف سے نیٹو کو مشرق کی جانب وسعت دینے کی کوشش اور مخملی انقلابوں کی حمایت وہ اہم اقدامات ہیں جن کی انجام دہی کے ذریعے امریکہ چین اور روس کو کنٹرول کرنے کے درپے ہے۔
 
حال ہی میں امریکہ کے نائب وزیر خارجہ اسٹیفن بیگن نے ایک نیا انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ واشنگٹن ایک "ایشیائی نیٹو" تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یوں ایشیا میں امریکہ کے اہداف کچھ حد تک عیاں ہو چکے ہیں۔ اسٹیفن بیگن نے یہ بات "انڈیا امریکہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ" نامی سوسائٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ان دو بحروں پر مشتمل علاقہ (بحر ہند اور بحر اوقیانوس) امریکہ کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے لہذا اس خطے میں نیٹو طرز کا فوجی اتحاد تشکیل دینا ضروری ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کے بقول ایشیائی نیٹو پہلے مرحلے پر امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا جیسے ممالک پر مشتمل ہو سکتا ہے جبکہ اگلے مراحل میں جنوبی کوریا، ویت نام اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیفن بیگن نے کہا کہ امریکی سفارتکار مذکورہ بالا ممالک سے اس بارے میں گفتگو اور مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ انہیں اعتماد میں لیا جا سکے۔
 
سابق امریکی صدر براک اوباما کے زمانے سے ہی امریکہ کی سیاست خارجہ میں براعظم ایشیا مرکزی اہمیت کا حامل خطہ بن چکا تھا۔ براک اوباما نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھتے ہی اپنی سیاست خارجہ میں ایک اہم اور بنیادی رکن کو "ایشیا کی مرکزیت میں سیاست" قرار دیا تھا۔ اس نئی پالیسی کے تحت امریکہ نے مشرقی ایشیائی ممالک اور بحر اوقیانوس پر مشتمل خطے کو اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی، سیاسی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنا ڈالا۔ لیکن اس حکمت عملی میں امریکہ علاقائی اتحادیوں کی حمایت، ابھر کر سامنے آنے والی نئی طاقتوں سے تعلقات استوار کرنے، اقتصادی پالیسیوں، خطے میں فوجی موجودگی میں اضافہ اور خطے میں امریکی اقدار کی ترویج کے علاوہ بھی کچھ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ امریکی تھنک ٹینک سی ایف آر یا کاونسل فار فارن ریلیشنز کے سینیئر رکن پروفیسر جان مرشائمر شکاگو یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہیں۔ انہوں نے جارحانہ حقیقت پسندی نامی نظریہ بھی پیش کیا ہے۔ تین سال پہلے انہوں نے تہران یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور لاء کے اساتید اور طلبہ کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اس بارے میں کچھ وضاحت پیش کی تھی۔
 
پروفیسر جان مرشائمر نے کہا تھا کہ دنیا کی تین بڑی طاقتوں یعنی امریکہ، چین اور روس کے درمیان جاری دوڑ میں دو عناصر بہت زیادہ موثر ہیں جو دولت اور آبادی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 2050ء تک امریکہ کی آبادی اور دولت میں اضافہ ہو گا جبکہ روس معیشت اور آبادی دونوں لحاظ سے زوال کی جانب گامزن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ چین کی معیشت اور آبادی ایک سیدھی لائن کی صورت میں ہے لیکن 2050ء تک چین دولت اور آبادی دونوں لحاظ سے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چین، امریکہ کیلئے روس سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔ جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ امریکہ کیوں علاقائی سطح پر کسی ملک کو طاقت بن کر سامنے آنے کی اجازت نہیں دیتا؟ تو انہوں نے کہا: "یاد رکھیں امریکہ ہر گز کسی ملک کو کسی خطے پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ میں خاص طور پر مشرقی ایشیا اور خلیج فارس کی بات کر رہا ہوں۔ امریکہ ہر گز ایسی صورتحال برداشت نہیں کرے گا جس میں جاپان، روس یا چین مشرقی ایشیا پر قابض ہو جائیں۔ امریکہ کبھی بھی ایران کو خلیج فارس پر مسلط ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔"
 
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایشیا میں امریکہ کیلئے سب سے اہم ہدف چین کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہ ایسا ہدف ہے جو وائٹ ہاوس میں نیا صدر آنے کے باوجود امریکہ کی خارجہ سیاست میں برقرار رہا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد چین مخالف پالیسیوں میں مزید شدت لائی ہے۔ گذشتہ دو سالوں کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان جاری اقتصادی جنگ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاو کے بعد بھی امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں شدید تناو پیدا ہوا ہے۔ امریکی اور چینی حکام کرونا وائرس کے پھیلاو کا الزام ایکدوسرے پر عائد کرتے آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ بازی صرف اسی حد تک محدود نہیں رہی اور تجارتی امور سے عبور کر چکی ہے۔ اس وقت چین اور امریکہ مختلف سمندروں میں ایکدوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان طاقت کی رسہ کشی جیوپولیٹیکل سطح تک پہنچ چکی ہے۔ چین کی جانب سے مشرقی ایشیا تک آگے بڑھ آنے کے ردعمل میں امریکہ نے براک اوباما (2009ء سے 2017ء تک) کے دور میں پیسفک کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دے دیا تھا۔
 
امریکہ کی خارجہ سیاست میں اس بنیادی تبدیلی کے بعد سے ہی دنیا کے تجارتی اور جیوپولیٹیکل خدوخال واضح ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سب یہ جان گئے تھے کہ مغربی ایشیا میں جاری بحرانی صورتحال جاری رہنے کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا بھی عالمی سطح پر بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی کا مرکز بننے والا ہے۔ البتہ جنوری 2017ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس تعریف میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور انہوں نے اسی سال نومبر میں اپنے ایشیا دورے کے دوران کئی بار صرف "ییسیفک" کی بجائے "انڈوپیسیفک" کی اصطلاح استعمال کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر بحر اوقیانوس کے ساتھ ساتھ بحر ہند پر بھی مرکوز ہے۔ اس خطے میں امریکہ کا اصلی مقصد چین کے اسٹریٹجک دائرہ اختیار کی صورتحال گھمبیر بنانا تھا اور یہ کام امریکہ نے چین کے طاقتور حریف انڈیا کو اپنے ساتھ ملا کر اور اسے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ فوجی تعاون کی ترغیب دلا کر انجام دیا ہے۔ جب ہم اس منظرنامے سے بحر اوقیانوس اور بحر ہند پر نگاہ ڈالتے ہیں تو کئی حقائق کھل کر سامنے آتے ہیں۔
 
چین کے جنوبی سمندر سے متعلق امریکہ اور ایشینز کے بعض رکن ممالک کے مطالبات، چین کے مشرقی سمندر سے متعلق جاپان کے مطالبات اور آخرکار دہلی کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ اقتصادی منصوبے کے بارے میں پریشانی کا اظہار وہ کڑیاں ہیں جو چین کو کنٹرول کرنے کی غرض سے تشکیل پانے والے واحد محاذ پر جا کر آپس میں ملتی ہیں۔ مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں امریکی حکام کی جانب سے "ایشیائی نیٹو" کی تشکیل کے اعلان سے مدنظر اہداف کچھ حد تک واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ منصوبہ ایک طرف ان دو سمندروں کے ساتھ واقع ممالک کو چین کے خلاف متحد کرنے کے مقصد سے شروع کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف روس کے خلاف ایک نیا اتحاد تشکیل دینا بھی مقصود ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں امریکہ یہ اتحاد تشکیل دینے کی خاطر انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا سے بہت امیدیں وابستہ کر چکا ہے۔ البتہ اس بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ کیا یہ ممالک بھی خطے سے متعلق امریکی پالیسیوں میں اس سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں؟
 
اس بارے میں امریکہ کے نائب وزیر خارجہ اسٹیفن بیگن نے اعلان کیا ہے کہ امریکی سفارتکار مذکورہ بالا ممالک سے بات چیت کرنے میں مصروف ہیں۔ اس بات چیت کا مقصد ان ممالک کے ممکنہ تحفظات دور کرنا ہے۔ انڈیا کے میگزین اسٹریٹجک انڈیا سے وابستہ سیاسی ماہر ونڈی شوکولا اس منصوبے میں انڈیا کی جانب سے امریکہ سے تعاون کے بارے میں کہتے ہیں: "انڈیا چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا شدید مخالف ہے اور بیجنگ کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ امریکہ چین اور انڈیا کے سرحدی علاقوں میں پیش آنے والی جھڑپوں کے سائے میں اپنی پالیسیاں آگے بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔" اسی طرح روس اور انڈیا کے درمیان تعلقات کے بارے میں بعض ماہرین کا کہنا ہے: "انڈیا ایشیائی نیٹو میں شامل نہیں ہو گا کیونکہ اب تک امریکہ نے کبھی بھی سخت حالات میں انڈیا کی مدد نہیں کی ہے۔ دوسری طرف روس اس وقت انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔" ماسکو میں انٹرنیشنل ریلیشنز فاونڈیشن کے ماہر سرگے لونوف اس بارے میں کہتے ہیں: "امریکہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کو متنازعہ بنانے کے درپے ہے۔ انڈیا کی جانب سے ایشیائی نیٹو میں شمولیت کا مطلب دہلی ماسکو تعلقات پر کاری ضرب لگانا ہے۔" لونوف جاپان اور آسٹریلیا کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دو ملک چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود ایشیائی نیٹو میں شامل ہو کر بیجنگ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات داو پر نہیں لگائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 885120
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش