0
Saturday 12 Sep 2020 10:39

مسئلہ کشمیر کا پسِ منظر اور حکمت عملی

مسئلہ کشمیر کا پسِ منظر اور حکمت عملی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370A کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، اس خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارتی جنتا پارٹی کے منشور کا حصہ تھا۔ مسٹر مودی نے جبراً 370A اور 35A کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ رہنے کا آئینی جواز ہی ختم کر دیا ہے۔ آنے والے حالات کشمیریوں کیلئے نئے امتحانات لے کر آئیں گے۔ اس وقت ضروری ہے کہ کشمیر، پاکستان اور ہندوستان کے عوام حقائق کو انسانی حقوق، تاریخ، بین الاقوامی قوانین اور منطقے کے امن و امان کے تناظر میں اچھی طرح سمجھیں۔ کسی بھی مسئلے کا حل منطقی بات چیت، سنجیدہ مکالمے اور انسانی حقوق کے احترام کے ساتھ نکالا جا سکتا ہے۔ اس حکمتِ عملی کی مختلف شکلیں اور متعدد زاویئے ہوسکتے ہیں۔ ایک درست اور ٹھوس حکمتِ عملی تک پہنچنے کیلئے ہمیں تمام مجوزہ تجاویز کو سامنے رکھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے تمام اطراف و جوانب اور عمل و ردعمل کا تخمینہ لگانا بھی ضروری ہے۔

اہمیتِ تحقیق
کشمیر کو سب پانا چاہتے ہیں، لیکن کشمیر کے پانے کیلئے کس کو کیا کھونا پڑے گا، اب اس پر سنجیدگی سے سوچنے کا وقت آچکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگوں میں مسئلہ کشمیر کو اساسی حیثیت حاصل رہی، عموماً اس مسئلے میں چین کا نام ایک خاموش فریق کی حیثیت سے لیا جاتا رہا، لیکن اب وہ خاموش فریق بھی اس ریاست کے ایک بڑے رقبے پر اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے۔ سی پیک کے منصوبے اور ایران و چین اور روس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات نے اس مسئلے کو پھر سے ایک نئی زندگی بخش دی ہے۔ اب علاقائی ریاستوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اس مسئلے کو حل کئے بغیر کسی کا بھی مستقبل محفوظ نہیں۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اب اس سے پہلے کہ دیگر اقوام کشمیر کا حل سوچیں، کشمیریوں کو خود اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی منطقی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیق اسی حکمتِ عملی کی طرف ایک قدم ہے۔

جغرافیہ
کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ اس کی سرحدیں پاکستان، بھارت، چین اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ تاریخی طور پر کشمیر وہ وادی ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔ وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ پاکستانی کشمیر کے علاقے پونچھ، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔ اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے، جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر موجود ہے۔

انتظامی ڈھانچہ
اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر بھارت قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 مربع کلومیٹر پر قانونی طور پر انتظامات کو سنبھالے ہوئے ہے اور اور چین 37،555 مربع کلومیٹر پر زبردستی قابض ہے۔ آزاد کشمیر کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی علاقہ جات کا رقبہ 72971 مربع کلومیٹر ہے، جو گلگت اور بلتستان پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر ریاست کا کل رقبہ 84 ہزار 471 مربع میل بتایا جاتا ہے۔  

آبادی
مقبوضہ جموں و کشمیر
2011ء کی مردم شماری کے مطابق جموں ڈویژن کی آبادی 5,350,811 کشمیر ڈویژن کی آبادی 6,907,623 اور لداخ ڈویژن کی آبادی 290,492 نفوس پر مشتمل ہے۔
آزاد کشمیر
آزاد کشمیر کی آبادی تقریباً چالیس لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر (5،135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 19 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ گلگت و بلتستان تین ڈویژنز بلتستان، دیامیر اور گلگت پر مشتمل ہے۔ شمالی علاقہ جات کی آبادی 81 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

ادیان و مذاہب
آزاد کشمیر كى 98 فيصد آبادی اور شمالی علاقہ جات کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ بلتستان میں 85 فیصد اثناء عشری شیعہ مسلمان جبکہ گلگت میں شیعہ اثناء عشری 45 فی صد، 30 فيصد اسماعیلی شیعہ اور اہل سنت 25 فی صد آباد ہیں۔ آزاد کشمیر میں مسلم اکثریت 98% فیصد ہے اور کل مسلمان آبادی کا 70 فیصد سنی ہیں۔ بھارت کے زير انتظام کشمیر میں بھارتی ذرائع کے مطابق 70 فیصد آبادی مسلمان ہے (2001ء)۔ بقیہ آبادی بدھ، ہندو، سکھ، مرزائی اور دیگر مذاہب پر مشتمل ہے۔ بھارتی وزارتِ داخلہ کے رجسٹرار آف سنسس کی طرف سے 2011ء میں کرائی گئی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق جموں کا خطہ جو انتظامی لحاظ سے ایک ڈویژن ہے، دراصل تین خطوں یعنی جموں (توی ریجن)، پیر پنجال اور وادیٔ چناب میں منقسم ہے۔ اوّل الذکر خطہ، یعنی جموں توی ریجن میں مختلف ہندو ذاتوں کی اکثریت ہے، جبکہ دیگر دونوں خطوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

جموں توی کے پانچ اضلاع ادھم پور، سانبھا، ریاسی، جموں اور کٹھوعہ کی آبادی 23 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس خطے کے بھی ریاسی ضلع میں ہندو اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً برابر ہے: جموں اور کشمیر کی مردم شماری 2011ء کْل آبادی: ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302 مسلمان 85,67,485 68.31% ہندو 35,66,674 28.43% سکھ 2,34,848 1.87% بودھ 1,12,584 0.89% پیر پنجال اور وادی چناب کے خطے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ پیر پنجال کا خطہ، راجوری اور پونچھ کے دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلمانوں کا تناسب 75 فی صد ہے۔ اسی طرح ایک اور خطہ ہے وادی چناب، جو دریائے چناب کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ اس خطے کو بھی انتظامی اعتبار سے جموں ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔

 اس کے تین اضلاع ہیں: کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ۔ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی ہیں۔ اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب 60 فی صد ہے۔ لداخ خطے کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ یہ بودھ اکثریتی علاقہ ہے، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ اس خطے میں دو اضلاع لیہ اور کرگل ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے بودھ 39.65 فی صد اور مسلمان 46 فی صد ہیں۔ اس طرح مردم شماری کے یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ لداخ کے صرف ضلع لیہہ میں بودھ آبادی کا تناسب 66 فی صد ہے، جبکہ مسلمان 14 فی صد ہیں۔ اس ضلع کی آبادی لیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یعنی خطے کی مجموعی آبادی میں 2 لاکھ 74 ہزار 2سو 89 میں سے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 28 ہزار ہے، جبکہ بودھوں کی ایک لاکھ 8 ہزار ہے۔ وادی کشمیر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہاں مسلم آبادی کا تناسب 96 فی صد ہے۔ ریاست کی جملہ آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار سے کچھ زیادہ ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 86 لاکھ ہے، جبکہ ہندوئوں کی 35 لاکھ سے زیادہ اور سکھوں کی تقریباً اڑھائی لاکھ اور بودھ مت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ۔

کشمیر میں اسلام کا داخلہ
ایک سروے کے مطابق کشمیر میں اسلام چودہویں صدی کے شروع میں ترکستان سے صوفی بلبل شاہ قلندر اور ان کے ایک ہزار مریدوں کے ساتھ پہنچے۔ بودھ راجا رنچن نے دینی افکار سے متاثر ہو کر بلبل شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یوں راجا رنچن سلطان صدر الدین کے نام سے کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔ بعد ازاں ایک ایرانی صوفی میر سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں، ہنرمندوں اور فن کاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا، جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔ انہوں نے ہزاروں ہندوؤں کو اسلام میں داخل کیا۔

دورِ غلامی کا آغاز
کشمیریوں کی تاریخ کا آغاز آزادی سے ہوتا ہے۔ آپ شاید یہ جان کر حیران ہونگے کہ کشمیر کی موجودہ غلامی کچھ ملاوں کی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ 1583ء کی بات ہے کہ جب یوسف شاہ چک کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ کشمیریوں کی باہمی فرقہ وارانہ جنگ کے نتیجے میں کشمیر کو اکبر بادشاہ کی غلامی قبول کرنی پڑی۔ اس کے بعد کشمیر آج تک  غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا چلا آرہا ہے۔ اکبر وہ پہلا بادشاہ تھا جسے کشمیر کے کچھ غدار صفت مولویوں نے حملے کی دعوت دی تھی اور اُس نے کشمیر  کے بادشاہ یوسف شاہ چک کو بطورِ مہمان دعوت دینے کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ پھر 1753ء میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو مغلوں سے چھین لیا  اور یوں کشمیری، مغلوں کے بعد افغانیوں کے غلام بن گئے، پھر 1818ء میں لاہور کے مہاراجے رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ افغانیوں سے چھینا اور پھر کشمیری رنجیت سنگھ کے غلام بن گئے۔

1818ء سے 1846ء تک یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔ 9 مارچ 1846ء کو عہد نامہ لاہور کی دفعہ چہار کے تحت جنگی اخراجات کی مد میں سکھوں نے کشمیر انگریزوں کے حوالے کیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی انگریزوں نے کشمیر کی ریاست گلاب سنگھ کو نیلام کر دی۔ کشمیر کی غلامی کی  ابتداء فرقہ واریت کے باعث 1583 ۱۵۸۳؁     سے ہوئی اور غلامی کی موجودہ داستان 1947ء سے رقم ہوتی ہے۔ اس پوری غلامی کی تاریخ میں کشمیری مسلسل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے، جس پر روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں۔ راقم الحروف کی معلومات کے مطابق 1846ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاستِ کشمیر معاہدہ امرتسر کی رو سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی۔ تاریخی اعتبار سے اس وقت شمالی عالاقہ جات کا علاقہ کشمیر کا حصہ نہ تھا بلکہ  متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں  مثلاً نگر، ہنزہ، کھرمنگ، خپلو، شگر، دیامر، خذر، سکردو، استوار اور گانچھے راجواڑے وغیرہ میں منقسم تھا۔ 1846ء میں گلاب سنگھ نے ان چھوٹی موٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر کشمیر میں شامل کیا۔

کشمیر ڈے کی ابتدا
14 اگست 1931ء پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔ اکتوبر 1931ء میں علامہ اقبال کی سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیراعظم ہری کرشن کول سے مذاکرات کے لیے ملا، مذاکرات ناکام ہوئے، اس طرح 1846ء کے بعد 1947ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی نسل اور باقیات ہی حکمران رہی۔

کشمیر کا جدید دورِ غلامی
الف۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کی آمد
1947ء میں ہندوستان میں ہندوستانیوں کی طرف سے برطانیہ کے خلاف ایک بہت بڑی  فوجی بغاوت متوقع تھی۔ یعنی برطانیہ کے خلاف ہندوستان میں سو سال کے اندر دوسری بڑی فوجی بغاوت ہونے والی تھی، اس سے پہلے بھی برطانوی حکومت 1857ء کی فوجی بغاوت کا مزہ چکھ چکی تھی، لہذا حکومت کوشش کر رہی تھی کہ اسے مزید کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس متوقع فوجی بغاوت کو ٹالنے کے لئے 22 مارچ 1947ء کو لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔ 18 مئی 1947ء کو لارڈ بیٹن اپنی رپورٹ مرتب کرکے واپس لندن روانہ ہوگئے۔ لندن میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ پر سیر حاصل بحث ہوئی، جس کے بعد انہیں 30 مئی 1947ء کو پھر ہندوستان بھیج دیا گیا۔

ب۔ جون تھری پلان
2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کی سیاسی شخصیات کے درمیان ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں لارڈ نے مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنی رپورٹ اور تجاویز سے آگاہ کیا۔ 3 جون کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا، جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس تقریر میں انہوں نے تسلیم کیا کہ مسئلہ ہندوستان کا حل تقسیم ہندوستان ہی ہے۔ 3 جون کی شام کو ہی برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنماء متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے، لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ یوں 3 جون 1947ء کو پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ دیا گیا۔ "جون تھری پلان‘‘ کی رو سے ہندوستان میں واقع برطانیہ کے زیرانتظام تمام ریاستیں ہندو یا مسلمان ہونے کے ناطے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔ موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ مسٹر نہرو کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسراے بنوانے میں ان کا کلیدی رول تھا اور بعد ازاں ان کی ماونٹ بیٹن سے دوستی رنگ لائی اور کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔

ج۔ ریڈ کلف کی لاعلمی
تقسیم ہند کے وقت حکومت برطانیہ کی طرف سے سرحد کمیشن کا چیئرمین ریڈ کلف کو منتخب کیا گیا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے زمانہ طالب علمی کے کالج کے ساتھی ریڈ کلف کو مسٹر نہرو کی منصوبہ بندی کے مطابق مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ یاد رہے کہ ریڈ کلف اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا اور ہندوستان کے بارے میں اس کی معلومات فقط سننے سنانے کی حد تک تھیں۔ چنانچہ وہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی ہدایات پر ہی عمل کرنے پر مجبور تھا۔

د۔ مسٹر نہرو کا کردار
اگرچہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے وائسرائے مقرر کروانے سے مسٹر نہرو تقسیم ہند کو تو نہیں رکوا سکے، البتہ انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں بھارت میں شامل کرانے میں ضرور کامیابی حاصل کی، جس کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجوں کی مداخلت ممکن ہوگئی۔ بلاشبہ اگر تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا تو بھارت، پاکستان کے خلاف کشمیر میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر نہرو، لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کو سنکیانگ تک پھیلانا چاہتے تھے۔ ان کی اس کوشش کو شمالی علاقہ جات کی غیور عوام نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح ریڈ کلف کی طرف سے ضلع مالدہ، مرشدآباد، کریم گنج اور حیدر آباد کی طرح متعدد مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو ہدیئے میں دے دیئے گئے۔

ر۔ مہاراجہ ہری سنگھ ڈوگرہ
24 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے آخری مہاراجے ہری سنگھ نے بھارت سے فوج منگوائی اور 27 اکتوبر کو انڈین آرمی کی ایک سکھ بٹالین طیاروں کے ذریعے بھارت سے سرینگر پہنچی۔ اس صورتحال میں کشمیریوں نے مایوسی کے بجائے تحریک آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ مہاراجے کے تسلط سے آزاد ہوگیا، جسے ہم آزاد کشمیر کے نام سے جانتے ہیں اور باقی حصے میں تحریک آزادی ہنوز چل رہی ہے۔

کشمیر کی جدید غلامی کے ذمہ دار!؟
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر پر قبضہ کرنا گاندھی جی کی خواہش نہیں تھی بلکہ پنڈت نہرو اور مہاراجہ ہری سنگھ کا خواب تھا۔ پنڈت نہرو چونکہ خود کشمیری برہمن تھے، لہذا برہمن ہونے کے ناطے ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کا آبائی وطن ہندوستان میں شامل ہو۔ اسی طرح پاکستان میں شامل ہونے کی صورت میں مہاراجے کو اپنے اقتدار کے باقی رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی،  چنانچہ اس نے بھی اپنا مفاد اسی میں دیکھا کہ ہندوستان کو حملے کی دعوت دی جائے۔ المختصر یہ کہ دونوں مذکورہ کرداروں نے اپنے اپنے مفاد کے لئے ہندوستان کو استعمال کیا اور ہندوستانی فوجوں کو کشمیر میں لاکر پھنسایا۔

سلامتی کونسل اور مسئلہ کشمیر
 دسمبر 1947ء کے آخر میں ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں پر رائے شماری کی قرارداد منظور کی۔ 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا تو یہاں کا انتظام لوکل اتھارٹیز سنبھالیں گی اور کمیشن ان کو سپروائز کرے گا۔ لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ بھارت کو یہاں ساری فوج رکھنے کی اجازت ہوگی، بلکہ قرار پایا کہ اس کے بعد بھارت بھی اپنی فوج کا بڑا حصہ "Bulk of its forces" یہاں سے نکال لے گا اور اسے صرف اتنے فوجی رکھنے کی اجازت ہوگی، جو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے لوکل اتھارٹیز کی مدد کے لیے ضروری ہوں۔ جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پلان مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات کر دیئے۔ ایک یہ کہ اسے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف مکمل غیر مسلح کر دیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے۔

بھارت نے 3 جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واویلا مچایا کہ کشمیر میں جاری بغاوتیں پاکستان کی ایما پر کی جا رہی ہیں، چنانچہ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔ پھر اس کے بعد وہ پانچ ماہ ابھی تک نہیں آئے۔
30 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کرکے کہا کہ تین ماہ میں فوج کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہوسکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ فرینک صاحب نے چھ تجاویز دیں، بھارت نے تمام تجاویز رد کر دیں۔ خانہ پری کے لیے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ کشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جبکہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج نکال لے، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں۔

گراہم نے اس میں کچھ رد و بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں۔ بعد میں بھارت اس سے بھی مکر گیا۔ سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز دی کہ ’’ آربٹریشن‘‘ کروا لیتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ انخلاء کے معاملے میں کون سا ملک تعاون نہیں کر رہا۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہوگیا، بھارت نے یہ تجویز بھی ردکر دی۔ المختصر یہ کہ مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل نے پہلی قرارداد نمبر انتالیس 20 جنوری 1948ء کو منظور کی، جس کے تحت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔ اکیس اپریل انیس سو اڑتالیس کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر سنتالیس منظور کی، جس کے تحت سابقہ قرارداد میں تجویز کردہ کمیشن کے ممبران کی تعداد کو بڑھایا گیا۔ اس قرارداد میں پیش کردہ تجاویز کے تحت مسئلہ کشمیر کا تین مراحل پر مشتمل حل پیش کیا گیا۔ کمیشن کا امن و امان بحال کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں استصواب رائے کرانے کا حکم دیا گیا۔ تین جون انیس سو اڑتالیس کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر اکیاون کے ذریعے پچھلی قراردادوں میں بنائے گئے کمیشن کو مقبوضہ علاقے کا دورہ کرنے کا حکم دیا۔

چودہ مارچ انیس سو پچاس کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد نمبر اسی میں پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے خطے سے فوجیں ہٹانے کا کہا گیا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان ساری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس مسئلے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور اس کے علاوہ 72 سال کی طولانی مدت بھی بیت چکی ہے، اس کے باوجود  کسی قسم کی بہتری آنے کے بجائے 2019ء میں بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔ یہ کشمیر کی غلامی کی ابتداء سے لے کر اب تک کا مختصر پسِ منظر ہے، اس پسِ منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت ہم تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کے لیے کچھ اصول بیان کر رہے ہیں۔

کامیابی کے اصول
اس سے پہلے کہ ہم تحریکِ آزادی کشمیر کے حوالے سے ایک تفصیلی حکمتِ عملی تجویز کریں، بطورِ خلاصہ یہ بیان کرتے چلیں کہ ایک دانش مند کے بقول کسی بھی تحریک کی کامیابی کے پانچ بنیادی اصول ہیں۔
•  تحریک کی قیادت مقامی ہونی چاہیئے، باہر سے قیادت کو مسلط نہیں کیا جانا چاہیئے۔
• تحریک کے ساتھ باقی مسلمانوں کے روابط کسی بھی قسم کے اقتصادی یا دیگر منافع و مفادات کے بجائے اسلامی اخوت و بھائی چارے پر استوار ہونے چاہیئے۔
• اگر آپ کسی اسلامی تحریک کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا ماتحت، کمتر یا اپنا محتاج نہ سمجھیں اور ان پر کوئی احسان نہ جتلائیں بلکہ اپنی دینی ذمہ داری سمجھ کر محترمانہ رویئے کے ساتھ اُن کی مدد کریں۔
• آپ اُن کی مدد ایسے کریں کہ اُن کی کمزوری، اُن کی طاقت میں بدل جائے اور اُس کے بعد وہ کسی کے محتاج نہ رہیں، اُنہیں اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
• اُن پر آپ اپنا حکم نہ چلائیں، اُنہیں آپ مشورے ضرور دیں، لیکن اپنے فیصلے کرنے میں اُنہیں آزاد چھوڑ دیں اور ان پر اپنی پسند و ناپسند کو نہ تھوپیں۔ کامیابی کے اصول بیان کرنے کے بعد اب آیئے ہم اس مسئلے کی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہیں۔ ہماری تجویز کردہ حکمتِ عملی دو حصوں میں تقسیم ہے، کچھ ایسے کام ہیں جو مقبوضہ کشمیر و  آزاد کشمیر نیز پاکستان کی سیاسی قیادت، علماء، ادباء، صحافیوں اور دانشوروں کو ملک میں اندرونی طور پر انجام دینے چاہیئے اور کچھ سفارتی و سیاسی امور ایسے ہیں، جو مل کر عالمی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز اور دیگر ممالک میں  انجام پانے چاہیئے۔

حکمتِ عملی:
اندرونی حکمتِ عملی
حکومتی سرگرمیاں

۱۔ کشمیر دراصل مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا ہے، قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کا حکم دیا ہے، اگر ابتداء میں اہلیان کشمیر فرقہ پرستی کی بھینٹ نہ چڑھتے اور کشمیر مغلوں کی غلامی میں نہ جاتا تو نوبت یہانتک نہ پہنچتی۔ آج بھی اگر کشمیری غلامی سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں فرقہ واریت سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔ فرقہ وارانہ سوچ کشمیریوں کو کمزور تو کرسکتی ہے لیکن مضبوط نہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ  پاکستان و آزاد کشمیر میں شدت پسند عناصر کی حوصلہ شکنی کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔
۲۔ آزادی ہر انسان کافطری اور جمہوری حق ہے، دنیا کی تمام باشعور اقوام اور ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں، لہذا کشمیریوں کو اپنی تحریک آزادی کی نظریاتی بنیادوں کو کھل کر بطریقِ احسن بیان کرنا چاہیئے، اس مقصد کیلئے حکومت ملک میں مختلف فورم قائم کرے اور ہر فورم سے آواز اٹھائے۔

۳۔ اذہان کو کنٹرول کرنے میں میڈیا اور نصابِ تعلیم کی طاقت سب پر بھاری ہے، حکومت کو چاہیئے کہ ملک کے اندر تمام چینلز اور تعلیمی نصاب کی پہلی ترجیح کشمیر کو قرار دے۔
۴۔ مسئلہ کشمیر ایک قانونی اور سیاسی مسئلہ ہے، جو ریڈکلف سمیت چند خواص کی خیانت کی وجہ سے پیش آیا، لہذا اسے قانونی اور سیاسی طور پر ہی حل ہونا چاہیئے۔ شدت پسندی، بداخلاقی، بے احترامی، دہشت گردی اور خون خرابے کو ہر انسان ناپسند کرتا ہے۔ لہذا تحریکِ آزادی کشمیر کو کسی طور بھی دہشت گرد ٹولوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیئے۔ حکومتِ پاکستان کو یہ جنگ سیاسی اور قانونی بنیادوں پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑی جانی چاہیئے۔

عوامی سرگرمیاں
۱۔ عوامی فورمز، سوشل میڈیا اور سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی اوّلین ترجیح مسئلہ کشمیر کا حل ہونا چاہیئے۔ پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ہندوستانی تنظیموں، سیاسی پارٹیوں، دانشمندوں اور مختلف مذاہب و مسالک کے رہنماوں تک اپنے اس پیغام کو بطریقِ احسن پہنچانا چاہیئے کہ کشمیری، ہندوستان کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کر رہے بلکہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے کوشاں ہیں۔ اس حقیقت کو خود ہندوستانیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ خود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہے۔ خصوصاً اس مسئلے کو ٹھوس شواہد کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ گاندھی جی کا نہیں تھا اور نہ ہی ہندوستان اپنی فوجیں زبردستی کشمیر میں داخل کرنے کا خواہاں تھا۔ یہ سارا کھیل پنڈت نہرو اور مہاراجے کا تھا اور یہ دونوں خود کشمیری تھے۔ ان کے بلانے پر ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں اور پھر وہاں پھنس گئیں، لہذا ہندوستان کی طرف سے اس مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر طول دینا اور ڈٹ جانا کسی طور بھی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔

۳۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی  کاغذی قراردادیں اب کشمیریوں کے کام آنے والی نہیں۔ اب اہلیانِ پاکستان و کشمیر کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیئے کہ فیصلے حکومتیں نہیں بلکہ ملتیں کرتی ہیں، یہ جمہوری دور ہے، عوامی طاقت ہی اصل طاقت ہے، مسئلہ کشمیر کو ہر ممکنہ طریقے سے دیگر ملتوں تک مسلسل پہنچایا جانا چاہیئے اور ان سے مدد کی درخواست کی جانی چاہیئے۔ ضروری ہے کہ دنیا کے اطراف و کنار میں انسانی حقوق کی بنیاد پر اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھایا جائے۔ی عنی پاکستان کے اندر سے عوام کی طرف سے عالمی برادری کے ساتھ مکالمے کا آغاز کیا جائے۔

۵۔ دنیا میں ہر جگہ شدت پسند اور دہشت گرد ٹولے پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا چاہیئے اور سارے اہلیانِ کشمیر کو دہشت گرد نہیں سمجھنا چاہیئے اور نہ ہی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر ملت کشمیر کو ہندوستان کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہیئے۔ ہمیں جہاں کشمیریوں کی حمایت کرنی ہے، وہیں دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت اور حوصلہ شکنی کی بھی ضرورت ہے۔

۶۔ جو قوم فکری طور پر شکست قبول کر لیتی ہے، اسے عملی میدان میں شکست دینا آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو ہندی فلموں کے ثقافتی اثرات سے محفوظ بنائیں، انہیں چاہیئے کہ اہلیانِ کشمیر کو اسلامی شناخت اور عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیات سے جوڑے رکھیں۔ خصوصاً قیامِ پاکستان کی تاریخ، فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی تاریخ اور کامیابیوں سے کشمیریوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ بلند رہے۔
۷۔ کشمیری اپنی غلامی کے ابتدائی دور سے ہی غلامی پر رضامند نہیں ہوئے، سو آزادی کی جنگ وہ مسلسل نسل در نسل لڑتے چلے آرہے ہیں۔ آزادی کی اس شمع کو جلائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو  فنون لطیفہ، شعر و شاعری اور ناول و افسانے کے ذریعے بھی نسل در نسل آگے منتقل کیا جائے۔

بیرونی حکمتِ عملی
حکومتی سرگرمیاں

۱۔ تمام اسلامی مناسبتوں خصوصاً ایامِ حج کے موقع پر پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک خصوصاً مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں آزادی کشمیر کے لئے سیمینارز اور اجلاس منعقد کئے جائیں اور کشمیر کے مسئلے کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے مکے اور مدینے میں حج کی خاطر جمع ہونے والی عالمی اسلامی برادری تک پہنچایا جائے۔
۲۔ تمام ممالک میں پاکستانی سفارت خانے مختلف زبانوں میں ہفتہ وار یا ماہانہ  کشمیری نیوز بلیٹن نکالیں، جس میں کشمیر میں ہونے والے تازہ مظالم کو ہر ملک کی قومی و سرکاری زبان میں دیگر اقوام تک پہنچائیں۔
۳۔ تمام پاکستانی سفارتخانوں میں باقاعدہ کشمیر ڈیسک قائم کرکے مطلوبہ فعالیت انجام دی جائے اور مختلف ممالک میں کشمیر کی حمایت کیلئے فورمز تشکیل دیئے جائیں۔

عوامی سرگرمیاں
۱۔ مختلف ممالک میں موجود بااثر پاکستانی دیگر ممالک کے موصلاتی چینلز پر کشمیر کے حوالے سے گفتگو کریں اور عالمی برادری نیز اقوام متحدہ کو ان کا وعدہ یاد دلائیں۔
۴۔ پاکستانی عوام مختلف ممالک میں اپنے طور پر شہداء کی برسیاں، یومِ یکجہتی کشمیر اور کشمیر کی دیگر مناسبتوں کو منانے کا بندوبست کریں۔
۵۔ پاکستانی عوام کو کشمیریوں کی مدد و حمایت کیلئے عوامی فورمز تشکیل دے کر اپنی آواز ہر ملک میں اُٹھانی چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
اس تحقیق میں مندرجہ ذیل منابع سے استفادہ کیا گیا۔
۱۔ تحریک آزادی کشمیر از پروفیسر خورشید احمد   
۲۔ کشمیر اینڈ پارٹیشن آف انڈیا، ڈاکٹر شبیر چوہدری انگلش ایڈیشن
۳۔ ششماہی سنگر مال تحقیقی مجلہ پنجاب یونیورسٹی لاہور
۴۔ مطالعہ کشمیر از پروفیسر نذیر احمد
۵۔ تاریخ کشمیر یعنی گلدستہ کشمیر از پنڈت ہرگوپال خستہ[آن لائن]
۶۔ A brief history of the Kashmir conflict

http://www.telegraph.co.uk/news/1399992/A-brief-history-of-the-Kashmir-conflict.html
۷۔ Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace
by Sumantra Bose
۸۔ The Challenge in Kashmir: Democracy, Self-Determination and a Just Peace
by Sumantra Bose
۹۔ مشن ودماؤنٹ بیٹن از کیمل جانسن
۱۰۔ اقبال اور تحریک آزادی کشمیر از غلام نبی خیال
۱۱۔ تاریخ اقوامِ کشمیر، محمددین فوق
۱۲۔ سردار شمس خان ملایال شہید از محمد صدیق خان چغتائی
۱۳۔ انٹرویو از علامہ ناصر عباس جعفری، سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان
خبر کا کوڈ : 885787
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش