0
Sunday 1 Nov 2020 01:06

ملکی سیاسی منظرنامہ، عوام کس طرف جائیں؟

ملکی سیاسی منظرنامہ، عوام کس طرف جائیں؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

عام انتخابات 2018ء سے قبل اور آج کے پاکستانی شہری کی سوچ اور امید میں زمین و آسمان کا فرق نظر آرہا ہے، گذشتہ جنرل الیکشن سے قبل موجودہ وزیراعظم عمران خان نے جس بھرپور انداز میں اپنی انتخانی مہم چلائی اور سابقہ حکومتوں کے ادوار کو دیکھتے ہوئے قوی امید تھی کہ عمران خان ہی ملک کے نئے وزیراعظم ہوں گے اور ہوا بھی یوں ہی۔ بلاشبہ عمران خان نے ایک مایوس اور مشکلات میں گھری قوم کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی، ایک عام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ پاکستان بھی مسائل و مشکلات سے نکل کر ایک ترقی یافتہ اور باوقار ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے۔ ہم ایک قوم بن سکتے ہیں، لوٹ مار اور کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ عمران خان کے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد مسائل کا بتدریج خاتمہ سنجیدہ حلقوں کی نظروں میں تھا۔ لیکن عمران خان جس طرح اپنی انتخابی مہم میں وعدے کرچکے تھے، اتنی تیزی سے معاملات کی بہتری کی امیدیں عوام کیلئے کچھ عرصہ بعد قدرے مایوسی کی صورت میں سامنے آئیں۔

اگر موجودہ ملکی صورتحال کی بات کی جائے تو مہنگائی اور بے روزگاری بظاہر ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نظر آرہا ہے، یہ وہ مسئلہ ہے، جس نے براہ راست غریب و متوسط طبقہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان مسائل کے پس پردہ محرکات سے قطع نظر موجودہ حکومت کی مقبولیت کے گراف کو تیزی سے گرانے میں مہنگائی اور بے روزگاری صف اول ہیں۔ حکومت کیلئے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ صرف اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ ہر چیز کی قیمتیں ملکی تاریخ میں سب سے تیزی سے بڑھی ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ٹیکسز کی بھرمار کیوجہ سے عام عوام کو زندگی کے تمام شعبوں میں اضافی پیسے ادا کرنے پڑ رہے ہیں اور آمدنی میں اضافے کے ذرائع میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی۔ ماہرین معیشت کا یہ کہنا ہے کہ اگر کسی مخصوص شے کی قیمت میں اضافہ ہو تو حکومت سبڈی دیکر، درآمد کرکے یا پھر ذخیرہ اندوزی کو روک کر اس پر قابو پاسکتی ہے، تاہم جب صورتحال یہ ہو کہ عام انسان کی آمدنی وہاں کی وہاں موجود ہو اور مہنگائی ہر چیز کے حوالے سے بڑھ رہی ہو تو ایسے میں غیر معمولی اور فوری اقدامات اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

حکومت نے بنیادی عوامی مسائل کو حل کرنے سے زیادہ احتساب پر توجہ مرکوز رکھی، جس کا نتیجہ پی ڈی ایم کی صورت میں نکل آیا۔ مسلم لیگ نون شریف برادران سمیت کئی پارٹی رہنماوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے اور احتساب سے بچنے کیلئے پہلے ہی حکومت کو دباو میں لانے کا ہر حربہ استعمال کرچکی تھی، اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال پیپلزپارٹی کی تھی، تاہم سندھ میں حکمرانی ہونے کیوجہ سے پی پی کو قدرے اطمینان تھا۔ مولانا فضل الرحمان پارلیمنٹ سے باہر ہونے کا سارا غصہ آزادی مارچ سمیت دیگر دستیاب آپشنز استعمال کرنے کی صورت میں نکال چکے تھے۔ تاہم مہنگائی اور ملکی معاشی صورتحال نے اپوزیشن کی ان تین اہم سیاسی جماعتوں سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان (اویس نورانی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی وغیرہ کو حکومت کیخالف پی ڈی ایم کی چھتری تلے یکجا ہونے کا موقع فراہم کر دیا۔

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس سے قبل بھی اے پی سیز بلائی گئیں، مشترکہ احتجاجات و مارچ ہوئے، تاہم تمام اپوزیشن جماعتیں محض اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی تھیں، تاہم پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کی تشکیل کے بعد ہونے والے مشترکہ جلسوں نے یقینی طور پر حکومتی ایوانوں کو پریشان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کا مقصد اس وقت ملکی مسائل کا حل نہیں، بلکہ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ ہے، کوئی جماعت سیاسی دباو کے ذریعے احتساب رکوانا چاہتی ہے، کوئی حکومت گرانے کی خواہاں ہے، کوئی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل پر عمل پیرا ہے اور کسی کا مقصد بلیک میلنگ کے ذریعے اقتدار کا حصہ بننا ہے۔ یہ صورتحال جہاں حکومت کیلئے پریشان کن ہے، وہیں ایک عام پاکستانی اس وقت عجیب دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی مشکلات تو دوسری جانب اپوزیشن کا ’’ملکی حالات بدلنے‘‘ کا لالچ۔ موجودہ حکومت بھی عوام کو وہ کچھ ڈیلیور نہیں کرسکی، جسکی عمران خان سے عوام کو توقع تھی، اور دوسری طرف وہ ہی ’’چلے ہوئے کارتوس۔‘‘

جب تک حالات پر قابو نہیں پایا جاتا تبدیلی کے نعرے محض مذاق اور دھوکہ ثابت ہوں گے، ’’ایماندار وزیراعظم، ماضی کے مسائل، حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا‘‘ جیسے بہانوں سے زیادہ دیر تک کام نہیں چل سکتا۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں تمام تر شکوے و شکایات کے باوجود عوام کی نظریں اس وقت بھی عمران خان کی جانب ہیں، گو کہ احتساب ضروری ہے، تاکہ ملک کو کرپشن جیسے ناسور سے پاک کیا جائے، تاہم حکومت کا یہ صرف یک نکاتی ایجنڈا نہیں ہونا چاہیئے۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے حکومت کو ایمرجنسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ آپریشن ضرب عضب و ردالفساد کی طرح معاشی بہتری کیلئے بھی آپریشن لانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے محض تسلیوں اور وعدوں سے کچھ ہونے والا نہیں۔ اگر چند ماہ مزید ایسے ہی گزرے تو پی ڈی ایم اس صورتحال کا سیاسی فائدہ ضرور اٹھا سکتی ہے اور پھر شائد عوام تمام تر حقائق کو جانتے ہوئے بھی اپوزیشن کو سپورٹ کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 895253
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش