0
Wednesday 9 Dec 2020 16:54

اسلام نظام نہ کم نہ زیادہ

اسلام نظام نہ کم نہ زیادہ
اداریہ
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے پر بچت و مباحثہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ فریقین کے درمیان بعض اصطلاحوں اور الفاظ پر کھینچا تانی جاری ہے۔ مثال کے طور پر طالبان کا مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان کے لیے سیاسی نظام کے طور پر صرف اسلامی نظام کی اصطلاح استعمال کریں گے، حالانکہ یہی طالبان مذاکرات سے پہلے افغانستان کے لیے امارات اسلامی کا نام دینے پر بضد تھے۔ طالبان آئندہ کے محکمہ تعلیم کے لیے بھی اسلامی تعلیمات کی اصطلاح استعمال کرنے پر بضد ہیں۔ بچوں، خواتین اور دیگر شہری اور سماجی آزادیوں کے حوالے سے بھی طالبان کا طرز فکر اور نام رکھنے کا انداز مکمل الگ ہے۔

طالبان اس کو اپنی شریعت کے قوانین کے دائرے کے اندر محدود کرنے کے قائل ہیں۔ یوں تو کافی ساری اصطلاحات پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اختلاف ہے، لیکن ملک کا نام رکھنے کے حوالے سے ملک کے تمام سیاسی گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اسلامی نظام رکھنا ہے یا اسلامی نظام کو نام میں ضرور استعمال کرنا ہے تو اس کے ساتھ کم سے کم جمہوریہ ہی لگا دو، لیکن طالبان لفظ جمہوریت کے اضافے کو بھی مسترد کر رہے ہیں۔ طالبان کے اس اصرار سے افغانستان کے مختلف سیاسی گروہوں کو یہ خدشہ لاحق ہے۔

یہ طالبان افغانستان میں کسی جمہوری قدر کو نافذ نہیں کرنا چاہتے ہیں اور عوام پر اپنی مرضی کا ایسا نظام لاگو کرنا چاہتے ہیں، جس میں عوام اور جمہور کی رائے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ طالبان کہتے ہیں نہ ہمیں اسلامی جمہوری نظام قبول ہے، نہ اسلامک ڈیموکریٹک نظام۔ بین الافغان مذاکرات میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں اختلافات اتنے گہرے نظر آرہے ہیں کہ اکثر تجزیہ کار ان مذاکرات کے نتائج سے ناامید ہوگئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والے مختلف سروسز میں افغان عوام کی اکثریت نے ان مذاکرات کی کامیابی کو ایک مشکل امر قرار دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 902666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش