2
Saturday 16 Jan 2021 16:33

حضرت فاطمہ (س) آج کی خواتين کیلئے مكمل نمونہ عمل

حضرت فاطمہ (س) آج کی خواتين کیلئے مكمل نمونہ عمل
تحریر: محمد علی شريفی

تاريخ ميں عورتوں کی داستان دردناک ہے، جسمانی اعتبار سے وه  مرد سے كمزور ہونے کی وجہ سے ظالم و جابر طاقتیں ہميشہ يہ چاہتی  تهیں كہ اس کی شخصيت كو پامال كریں۔ اس سلسلے ميں كيا كيا مظالم ڈهائے گئے خاص طور پر عرب كے اس گھٹا ٹوپ ماحول ميں عورت کی شخصيت كو كس طرح كچلا گيا، وه مال کی مانند عورتوں کی خريد و فروخت كرتے تهے اور ان كے لئے ميراث كے بهی قائل نہيں تهے، لڑكی كی پيدائش كو ذلت اور باعث شرم و حیا تصور كرتے تهے اور تاريخ شاہد ہے اپنے ہی جگر گوشوں كو زنده در گور كركے  بھی كوئی خفت محسوس نہيں كرتے تهے، اس سلسلے میں قانون فطرت كا بهی كوئی خيال نہيں كيا كرتے تهے ليكن جب اسلام نے انسانی اقدار كو زنده كرنے كےلئے ميدان ميں قدم ركها تو اسلام نے اسی جاہل نظريہ كی سخت مخالفت كردی اور  عورت كی پامال شده شخصيت كو زنده كيا۔ 

ہجرت كے 5ويں سال عورت کی شخصيت كو  نئی زندگی دينے اور اس کی اہميت كی مزيد تائيد كے لئے سوره احزاب کی 35ویں آيہ نازل ہوئی، "اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا"۔ یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔(1)

يہ آيہ جو تمام اقدار كو بيان كرنے والی ہے جس ميں عورت اور مرد كی  اقدار كو يكساں بياں كيا گيا ہے اور خداوند عالم نے مزيد عورت کی شخصيت كو انسانی معاشرے ميں اجاگر كرنے كے لئے اپنے حبيب كو ايک ايسی بيٹی عطا کی کہ جس كے ساتھ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا رھن سہن اور اس سيده كونين كی عملی زندگی ديكھ كر اسلامی اور انسانی معاشره ان سے درس لے اور ان كو اپنی زندگی كے لئے نمونہ عمل قرار ديں۔ حضرت فاطمه زہرا (ع) کی زندگی كا ہر پہلو الٰہی اقدار سے عبارت تها اور اسلامی تعليمات كا ایک مجسمہ زہرا (ع) کی شكل ميں خدا نے عطا کی۔ حضرت زہرا (ع) علم و دانش، حجاب و عفت، ازدواج اور شوهر كے انتخاب كے معيارات، فن شوہر داری اور تربيت فرزندان، گهريلو اقتصاد کی مدد، اسلام كے لئے عورتوں كا سياسی اور اجتماعی  ميدان ميں حضور و...... ميں آج كی خواتين كے لئے ایک مكمل  نمونہ عمل ہے۔

آج كی خواتين کو اس عظيم ہستی كو اپنے لئے آئيڈيل بنانےكی ضرورت ہے تاكہ اس كی پيروی كركے سعادت كی منازل طے كی جا سكیں۔ قرآن مجيد نے رسول اكرم (ص) كو پوری انسانيت  كےلئے نمونہ  عمل قرار ديا ہے، "لَقَد كَانَ فِي رَسُولِ اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ " (2) رسول (ص) نے اپنی  بیٹی کی تربيت ميں اپنی تمام تر كوششيں بروی كار لائیں، اسی لئے آپ ایک بےمثال خاتون كے طور پر  صنف نسواں كے لئے نمونہ عمل بنیں۔ آپ نے اپنی بيٹی كی اس طرح تربيت كی کہ حضرت فاطمہ (ع) سيده النساءالعالمين كے لقب کی مستحق ہوئیں چونكہ آپ ایک خاتون تهیں لہذا زياده صنف نسواں كے لئے نمونہ عمل بنیں۔ آپ کے سارےکمالات صرف ان تین فضیلتوں میں منحصر نہیں کہ آپ حضور صلی اللہ کی بیٹی اور علی (ع) کی زوجہ اور حسنین (ع) کی ماں ہیں بلکہ آپ کے کچھ اور کمالات تھے جن کی وجہ سے آپ مذکورہ فضیلتوں کی مالک بنیں۔

آپ میں کچھ ایسے کمالات تھے جنہوں نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ ان تین نسبتوں (دختر رسول، ہمسر علی و مادر حسنین)، میں آ جائے اگرچہ کچھ کتابوں میں آیا ہے رسول کی اور بھی بیٹیاں تھیں۔(3) بالفرض اگر قبول بھی کریں تو اس سے جناب فاطمہ زہرا (ع) کی عظمت میں کمی کوئی نہیں آتی بلکہ آپ کی فضیلت اور عظمت میں اضافے کا سبب بنتا ہے شیعہ سنی کتابوں میں دوسری بیٹیوں کی عظمت و فضلیت کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا لیکن آپ کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ رحمت للعالمین نے آپ کو (سیدة نساء العالمین) عالمین کی عورتوں کے لئے سردار قرار دیا چونکہ آپ ایک خاتون تھیں لہٰذا صنف نسواں کے لئے سردار اور نمونہ عمل بنیں ۔۔۔۔۔

مقام حضرت فاطمه سلام الله عليها:                                                            حضرت فاطمہ (ع) کا مقام و منزلت خدا كے ہاں بہت ذياده ہیں جن ميں سے كچھ كا ادراک ہمارے لئے ممكن نہيں ہے، جن كے بارے ميں خداوند عالم اور معصومين (ع) ہی جانتے ہيں امام زمان عجل الله فرجه الشريف فرماتے ہیں، "وَ فِی اِبنَةِ رَسُولِ اللهِ لِی اُسوَةٌ حَسَنَةٌ" دختر رسول خدا كی زندگی  ميرے لئے نمونہ عمل ہے۔(4) آپ روی زمين پر حجة خدا تهيں اور پيامبر اكرم (ص) كو جب بهی موقع ملتا تها اس بی بی دوعالم كی فضيلت اور منزلت بيان فرماتے تهے تاكہ اس قيمتی گوہر كی قدر كو لوگ جان ليں۔ پيغمبر اكرم نے زہرا (ع) کی خشنودی اور ناراضگی كو خدا كی خشنودی اور ناراضگی قرار ديا، "اِنّ اللهَ يَغضِبُ لِغَضَبِ فَاطِمَة و يَرضي لِرِضَا ها"۔ (5)

زهرا مرضيه (ع) بندگی كے مصلی پر:                                      
فاطمه زهرا عبوديت و بندگی و خودسازی و كمال كا مظهر تهیں، وه اپنی جوانی كے اوج ميں عابدوں كیلے فخر كا سبب بنیں۔ آپ شادی كی پہلی رات بهی ہدف خلقت سے غافل نہيں رہیں اور اپنے همسر (علی ع ) سے عبادت كرنے كی اجازت مانگتی نظر آتی ہیں، آپ كی ایک معنوی يادگار آپ كی تسبييحات ہيں جس كا اثر وضعی (ظاہری اثر) بهی ہے يہ وه برترين ذكر ہے جس كا ثواب ہزار ركعت نماز مستحبی كے برابر قرار ديا گيا ہے۔(6)
    
حضرت فاطمہ كی علمیت:                                                               
بشر كے لئے علم و دانش كا ہونا ایک بہت بڑی فضيلت ہے اور خداوند عالم نے انسانوں كے لئے عظيم سرمايہ قرار ديا ہے، علم كامل انبيا (ع) اور معصومين (ع) كے اختيار ميں یے تاكہ انسانوں كی ہدايت كريں حضرت فاطمہ (ع) انہی افراد ميں سے تهیں، آپ نے اپنے علم كو خدا سے كسب كيا اسی لئے آپ كے القابات میں سے ايک لقب مُحدَّثَه ہے، (جس سے فرشتے آ کر بات کریں) يعنی فرشتے آ كر آپ کو آیندہ پیش آنے والے امور کے علوم سناتے تهے۔(7) مجموعی طور پر ہماری روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مصحف فاطمہ لکھنے ولے امیرالمومنین (ع) تھے۔ حماد بن عثمان نے امام صادق (ع) سےمصحف فاطمہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ (ع) نےفرمایا جو بھی جناب فاطمہ (ع) سے سنا آپ لکھتے گئے یہاں تک کہ ایک بڑی مصحف بن گئی۔ (8) آج ہمارا عقيده ہے كہ مصحف فاطمہ (ع) امام زمانہ (ع) كے پاس موجود ہے۔ آپ كی كنیز فضہ آپ كے جوار ميں ره كر اس مقام تک پہنچی کہ نه صرف حافظ  قرآن تهیں بلكہ بيس سال تک ہر بات كا جواب آيات قرآنی سے ديا كرتی تهیں۔

حضرت فاطمہ (ع) زہد كے ميدان ميں:                                                 
آپ نے اپنی پوری زندگی ميں ہميشه زهد، قناعت اور دنيا سے بےرخی كی طرف دعوت دی اور وه خود بهی اسی ميدان ميں بے مثال تهیں۔ علی (ع) فرماتے ہيں تمام زہد قرآن كے دو الفاظ ميں ظاہر ہوتا ہے، "لِکَیْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَکُمْ وَ لاتَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ" جو تمہارے ہاتھ سے نكل جائے اس كا افسوس نہ كرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ كرو۔ (9) زہد كے آثار میں سے ايک ساده زندگی گزارنا، ساده لباس پہننا آسائش اور آرام طلبی كے ساتھ مقابلہ كرنا اور تجمّل گرائی سے پرہيز كرنا ہے۔ حضرت فاطمه زهرا نے زہد كو اپنی زندگی كے تمام پہلوؤں ميں جگہ دی تاكہ معاشرے كا نادار اور غريب طبقہ آپ كی ساده زيستی كو ديكھ كر بےصبری كا مظاہره نہ كرے۔ آپ پيوند لگائی چادر پہنتی ہیں جس سے متاثر ہو كر شمعون (يہودی) مسلمان ہو جاتا ہے آج ہمارے معاشرے ميں خواتين كی اكثريت نے مغربی طرز زندگی كو اپنے لئے رول ماڈل بنا ركها ہے اور اسلامی تہذيب و تمدن سےدور ہوتی جا رہی ہيں۔ اگر مسلم خواتين غرب كی نقالی چهوڑ ديں اور اسلامی اقدار كی پاسداری كريں تو آرامش و آسانی اور سكون پهر سے ايک مرتبہ ہمارے معاشرے ميں پلٹ كر آسكتے ہيں۔

فاطمه زهرا حياء و حجاب كا مجسمه:                                                   
آپ حجاب و عفت اور حيا كا مكمل نمونہ تهيں، آپ تمام دينی و سياسی و اجتماعی ميدانوں ميں حجاب كامل كے ساتھ حاضر ہوئيں، آپ نے اپنے حجاب كے ذريعے معاشرے كو يہ پيغام ديا كه حجاب كی وجہ سے عورت محدود اور مقيد نہيں ہوتی اسلام اور حق و حقیقت كے دفاع کے لئے عورت بہترين انداز ميں اپنا رول ادا كر سكتی ہے۔ آپ  كامل حجاب كے ساتھ مسجد گئيں اور خطبہ ديا اور ولايت كا دفاع كيا۔ شہيد مطهری فرماتے ہيں حضرت فاطمہ كے اس خطبے نے خواتين كے لئے بہت سی چيزيں واضح كردیں اور ايک مسلمان عورت كی ذمہ داری اور حدود كو معين اور مشخص كرديا۔

فاطمه زهرا (ع) كا صبر اور حلم:                                                      
صبر ان اطاعتوں ميں سے ہے جن کے لئے آیات و روایات میں بےشمار وعدے کئے گئے ہیں، قرآن كے مطابق صبر كرنے والوں كو بےحساب اجر ديا جائے گا، "اِنّمَا الصّابِرونَ اَجْرُهُمْ بِغَيْرِ حِسَاب ..." آپ صبر كا ايک مكمل نمونہ تهیں روايات ميں صبر كی تين قسميں بتائی ہیں:
(1) مصيبت كے وقت صبر:
(2) اطاعت كے موقع پر صبر
(3) معصيت و گناه كے موقع پر صبر (10)۔
ان تمام موقعوں پر آپ صبر کا پيكر نظر آتی ہیں، آپ نے اپنی پوری زندگی ميں كبهی بهی امير المومنين علی عليہ السلام  سے كسی بهی چيز كا تقاضا نہيں كيا۔ آج ہماری خواتين جو كہ حضرت زہرا كی كنيز ہونے كا دم بهرتی ہيں مذكوره چيزوں كا خيال ركهتی ہيں۔ جتنا زمانہ ماڈرن ہوتا جا رہا ہے اتنا ہی سیرہ جناب زہرا سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔

گهريلو كاموں كی مديريت گھر  كے اقتصادی امور ميں مدد:
اپنے خانوادے كے اقتصادی امور ميں آپ كی مدد بےمثال تهی، اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ كی زندگی كے دوران روحِ قناعت اور اسراف و تجمل گرائی اور تفاخر سے پرہيز كو سيكها اور اميرالمومنين (ع) كے گهر ميں بهی مذكوره باتوں كا مكمل خيال ركهتی تھیں اور ايک بہترين ماں كی حيثيت سے گهر كو چلايا۔ اس مديريت كا الہام رسول گرامی سے ليا تها رسول اكرم (ص) نے گهريلو كام كو اس طرح سے تقسيم كيا تها باہر كا كام علی (ع) كے ذمے اور گهر كے اندر كا كام جناب فاطمہ كے حصے ميں آيا اور دونوں ميں روح تعاون اور ہمكاری موجود تهی۔ كبهی علی (ع) گهر ميں خمير بناتے اور روٹی پكاتے تهے اور جب علی (ع) جنگوں ميں جاتے تو باہر كا كام جناب فاطمه (ع)  خود ہی انجام ديتی تهیں۔
              
شوهر كے انتخاب كے معيارات اور فاطمه (ع) كی ازدواجی زندگی:
ازدواج انسان كی زندگی كے بہت بڑے اتفاقات ميں سے ايک ہے، اگر ہم كفو اور مناسب ہمسر مل جائے تو دنيا اور آخرت دونوں كی سعادت كا مالک بن سكتا ہے۔ خاندان کی تشكيل كے لئے سب سے پہلا قدم خواستگاری ہے، حضرت زہرا اور علی عليهما الاسلام كا ازدواج سوره رحمٰن كی آيات "مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیانِ بَیْنَهُما بَرْزَخٌ لا یَبْغِیانِ یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجانُ......." كا مصداق ہے۔ (11) امام صادق عليہ السلام سے مروی ہے، مرج البحرين يلتقيان سے مراد نبوت اور ولايت كے درياؤں کا آپس ميں مل جانا ہے اور لوءلو والمرجان سے مراد حسنين عليهما السلام ہيں۔ (12 ) آپ كے ازدوج سے ملنے والا درس يہ ہے كه لڑكيوں كی شادی مناسب وقت ميں كردينی چاہيئے۔ نه فقط لڑكياں بلكہ لڑكوں كی بهی تاكہ مناسب عمر ميں حاملہ ہو جائیں اور اپنی جوانی ميں بچوں كی صحیح  تربيت كر سكیں۔ والدين كی جوانی، بچوں كے سالم اور صحت مند پيدا ہونے ميں ذياده مؤثر ہے۔

آج سوشل میڈیا نے بدتمیزی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ اس سے جوان طبقہ اور بھی زیادہ بےراہ روی کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا مناسب وقت میں شادی فیزیکلی اور معنوی، دونوں  حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ فاطمه زهرا (ع) نے اپنا حق مهر محدود رکھ کر دنيا كی عورتوں كو يہ پيغام ديا كہ عورت كی خوشبختی زياده مہر ركهنے ميں نہيں ہے بلكه شوہر كی اقتصادی زندگی كے ساتھ مناسب ہو چونكہ مهر ايک تحفہ اور هديہ ہے، جس ميں مرد كی رضامندی اور خوشنودی كا خيال ركهنا لازمی ہے۔ پيغمبر اكرم (ص) اپنی بيٹی كی رضايت كے بغير كسی كو بهی مثبت جواب نہيں ديا۔ شوہر كے انتخاب ميں بيٹی كی رضايت كا مكمل خيال ركها گيا آپ صلِّی اللہ عليه وآلہ والسلام نے داماد كو كسی طرح كے بهی اضافی اخراجات دينے پر مجبور نہيں كيا۔

حضور صلی الله عليه وآله وسلم كے فرمان كے مطابق شادی كے دن وليمہ كی غذا كا كچھ حصہ مدينہ كے فقرا اور مساكين كے گهروں ميں بهيج دیا گیا تاكہ اس شادی كی خوشی ميں سب شریک ہوں۔ اس میں بھی ہمارے لئےدرس ہے، ہمیں اپنے کام اور رسومات کو چیک کرکے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی کی سنت کس طرف جا رہی ہے اور ہم کس طرف؟ آج شادیوں میں  امیروں کی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ بےتحاشا دولت اسراف ہوتی ہے، دکھاوے اور ریاکاری کے لئے لیکن ان غریبوں کا کوئی پوچھنے والا ہے، جو ایک وقت کی روٹی کے محتاج ہیں؟ "این تذھبون۔۔" مسلمان ہونے کے دعویدارو ہماری مسلمانی کہاں ہے ؟؟ اسلامی معاشرہ کس سمت جا رہا ہے، آج ہمارے معاشرے پر مکمل مغربی تہذیب حاکم ہے، اس منحوس سایہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت زہرا (ع) کی سیاسی اور مبارزاتی زندگی:
انسان کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ انسان کامل ہمیشہ ان تمام پہلوؤں کو دین کے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی پوری زندگی ہمیشہ دینی اقدار کے ساتھ ہماہنگ ہوتی ہے۔ جناب سیدہ کونین فاطمہ زہرا کی زندگی کا ہر پہلو الٰہی اقدار سے عبارت تھا۔ آپ کی خانوادگی، اقتصادی، معاشی، اجتماعی و سیاسی زندگی ۔۔۔۔۔۔ خلاصہ آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں الٰہی اقدار نظر آتی تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں آپ کی زندگی کے جس پہلو کو سب سے کم اہمیت اور کم توجہ دی جاتی ہے وہ آپ کی مبارزاتی اور جہادی پہلو ہیں۔ آپ کے اخلاقی اور عبادی پہلوؤں اور باقی فضیلتوں کا تذکرہ تو ہم بہت زیادہ کرتے ہیں۔ (البتہ کرنا بھی چاہیئے) لیکن معاشرے میں شعور بصیرت اور بیداری لانے کے لئے ان (مبارزاتی اور جہادی) پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اپنی دینی ذمہ داریوں سے لاتعلق نہ رہیں۔

جب حق کو اس کے اس محور سے دور کیا گیا تو اس وقت ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، ایسے موقع پر جناب سیدہ کونین اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلق نہیں رہیں اور میدان میں حاضر ہوئیں اور ولایت و امامت کا دفاع کیا آپ نے انصار اور مہاجرین کے ضمیروں کو جھنجوڑا اور ان کی خوب ملامت و سرزنش کی اور خصوصا انصار پر سخت تنقید کی۔ جناب فاطمہ (ع) کو اس بات پر سخت تعجب ہے، یہ انصار جو ایک زمانے میں اسلام کےدست و بازو ہوا کرتے تھے رسول گرامی اسلام کے حامی و
مددگار تھے، جو اس وقت خاموش ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ خاندان پیامبر پر ظلم ہو رہا ہے اور خاموش اس ظلم کو صحیح قرار دے رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں اور یہ ایک ایسا جرم ہے جو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ آپ فرماتی ہیں فدک کے معاملے میں تمہارا سکوت، فدک تو ان تمام انحرافات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے وہ انتقام کی بس ایک چنگاری ہے، بہت بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح تم لوگوں کا خاموش رہنا اسلام مخالف قوتوں کے پھلنے پھیلنے اور پھولنےکا سبب بنے گا۔ یہ عظیم خاتون ان کی روح کے دوسرے حصے کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور اس خاموشی کی وجہ بیان کرتی ہیں، فرماتی ہیں "بات یہ ہے کہ تم آرام طلب ہوگئے ہو تم اپنی انکھوں سے دیکھ رہے ہو، خلافت کا جو صحیح حقدار ہے اس کو الگ کر دیا گیا ہے اور خاموش بیٹھے ہو۔ (13)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات!!
1۔ سورہ  احزاب35
 2۔ سورہ احزاب آیت 21
3۔ زندگانی فاطمہ زہرا(ڈاکٹرجعفرشہیدی )ص23
4۔ بحار ج43 ص 22
5۔ امالی صدوق ج1ص383
6۔ ثواب الاعمال شیخ صدوق
 ص 264
7۔ بحار الانوار ج 43 ص 78
8۔ بحار ج 26 ص44
9۔ سورہ حدید 23
10۔ اصول کافی ج 4باب صبر
11- الدرالمنثورفی تفسیرالمآثورج 6ص143
12۔ تفسیرقمی ج 2ص 244
13 -زہرابرترین بانوی جہان (آیت اللہ مکارم شیرازی )، ص 205
خبر کا کوڈ : 910337
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش