0
Tuesday 26 Jan 2021 22:05

امشی پورہ فرضی انکاؤنٹر، بھارتی فورسز نے مجرمانہ ثبوتوں کو ضائع کیا

امشی پورہ فرضی انکاؤنٹر، بھارتی فورسز نے مجرمانہ ثبوتوں کو ضائع کیا
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

مقبوضہ کشمیر میں فرضی انکاؤنٹر کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کو شہید کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی گذشتہ برس بے نقاب ہوگئی کہ محض 20 لاکھ روپے کے عوض بھارت کے ایک فوجی افسر نے تین کشمیری مزدور نوجوانوں کو شہید کیا۔ گذشتہ برس مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ زینہ پورہ گاؤں میں جون میں ہوئے ایک فرضی انکاؤنٹر کے حوالے سے پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے فوجی کیپٹن اور دیگر ملزم شہریوں نے ثبوتوں کو ضائع کرنے کی کوشش کی، جبکہ اس اسلحہ کو حاصل کرنے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی، جو 3 مہلوک نوجوانوں سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کئے گئے فرد جرم میں بتایا گیا ہے کہ کیپٹن بھوپندر سنگھ نے فرضی مقابلہ ہونے کے بارے میں اپنے اعلٰی افسران اور پولیس کو اسلحہ کی بازیابی کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی تھیں۔

یہ معاملہ 18 جولائی 2020ء میں شوپیاں کے امشی پورہ میں ہونے والی جھڑپ سے متعلق ہے، جس میں 3 نوجوانوں کو شہید کرکے جنگجو قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات سامنے آنے کے بعد کہ یہ تینوں نوجوان بے گناہ ہیں، فوج نے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا۔ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ نعشوں کے ساتھ رکھنے کے لئے مجرموں کی طرف سے غیر قانونی طور پر لائے گئے غیر قانونی ہتھیاروں کو حاصل کرنے کے ذرائع سے متعلق کوئی بھی معلومات حاصل نہیں ہوئیں۔ چارج شیٹ میں مزید کہا گیا کہ فرضی جھڑپ کرکے تینوں ملزمان نے جان بوجھ کر ایسے ثبوت یا حقیقی جرم کو ختم کر دیا، جو انہوں نے سرزد کیا ہے اور وہ 20 لاکھ روپے کی انعامی رقم کے حصول کے مقصد کے لئے مجرمانہ سازش کی کڑی کے طور پر غلط معلومات پیش کرتے رہے، تاہم قابض فوج نے اس کی تردید کی تھی کہ کیپٹن نے 20 لاکھ روپے کے لئے تصادم کیا، جبکہ اس بات کی وضاحت کی کہ اہلکاروں کو جنگی حالات میں یا کسی بھی طرح کی ڈیوٹی کے دوران خدمات انجام دینے پر نقد انعامات دینے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ ثبوت ملزم کیپٹن بھوپندر سنگھ نے ختم کر دیئے تھے۔ چارج شیٹ کے مطابق بھوپندر سنگھ نے جنہیں نظربند کیا گیا ہے، دیگر 2 ملزموں، تابش، نذیر اور بلال احمد لون کے ساتھ مقام جھڑپ پر ایک پناہ گاہ کو آگ لگا دی۔ ملزم کیپٹن ایس او جی کے ساتھ وابستہ ایس پی او فیاض احمد کے ساتھ عام شہریوں کے نام پر رجسٹرڈ دو موبائل نمبروں کے ذریعے سے رابطے میں تھا۔ فیاض احمد جو اس معاملے میں بطور گواہ ہیں، سے کپٹن سنگھ نے اسلحہ کے بندوبست کے لئے رابطہ کیا تھا۔ جموں کے علاقے پونچھ کے رہائشی فیاض احمد نے مجسٹریٹ کے سامنے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کے سیکشن 164 کے تحت اپنا بیان درج کیا ہے۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے چارج شیٹ میں جرائم کے منظرنامے کے فارنسک تجزیہ کی تفصیلات دی گئیں ہیں، جن پر ’’ہر ممکن نقطہ نظر سے‘‘ عکاسی کی گئی ہے۔ ایف ایس ایل (فارنزک اینڈ سائنسی لیبارٹری) ٹیم نے ایسے اہم شواہد برآمد کرکے قبضے میں لئے ہیں۔

ایس آئی ٹی آر پی (صورتحال رپورٹ) کی ایک کاپی کے ساتھ واقعہ کے دوران فائر کئے گئے گولہ بارود کی تفصیلات کے بارے میں 62 راشٹریہ رائفلز کی جانب سے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو دائر جوابات کی بنیاد پر ’’ملزم فوجی کپتان نے دعوٰی کیا تھا کہ انہوں نے اپنی سروس رائفل سے مجموعی طور پر 37 راؤنڈ فائر کئے تھے۔‘‘ فوج نے ہیر پورہ پولیس اسٹیشن میں درج اپنی ایف آئی آر میں دعوٰی کیا تھا کہ ’’امشی پورہ میں نامعلوم جنگجوؤں کو چھپانے کے بارے میں ان کی اپنی معلومات‘‘ کی بنیاد پر انکاؤنٹر کا آغاز 17 جولائی 2020ء کو ہوا تھا، جس دوران 3 نامعلوم عسکری پسندوں کو جاں بحق کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تصادم کی جگہ سے 2 میگزین، 2 پستول اور 4 خالی پستول گولیاں، 15 گولیاں اور اے کے 47 کی 15 خالی گولیاں اور دیگر قابل اعتراض سامان برآمد ہوا۔ تاہم موقعہ واردات کے بیلسٹک اور فارنسک معائنے کے دوران 4 خالی گولیاں برآمد ہوئیں، ان میں سے دو 7.65 ملی میٹر اور دو 9 ملی میٹر پستول (فوج کے زیر استعمال) سے تھے۔

برآمد کئے گئے پندرہ 7.62x39 ملی میٹر رائفل گولی کیس (اے کے رائفل میں استعمال ہوتے ہیں) کو چار سے زیادہ ہتھیاروں سے فائر کیا گیا تھا۔ جائے جرائم کے حالات سے جو بیلسٹک ماہر کی رائے، ملزم کیپٹن بھوپندر سنگھ کے بیان سے متضاد ہے، جو ایف آئی آر میں ان کے ذریعہ پیش کردہ معلومات سے میل نہیں کھاتی۔ فرضی انکاؤنٹر کے دوران کوئی بھی اے کے رائفل برآمد نہیں ہوئی۔ بھارتی فوج نے اپنی کورٹ آف انکوائری اور شواہد کا خلاصہ بھی مکمل کر لیا ہے، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’’ابتدائی پہلو‘‘ کے شواہد مل گئے تھے کہ تصادم آرائی کے دوران فوجیوں نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کے تحت اختیارات کو ’’عبور کر لیا ہے‘‘ جس میں تینوں بے گناہ نوجوان قتل ہوگئے تھے۔ جس کے بعد فوج نے تادیبی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ امشی پورہ میں جاں بحق ہونے والے تینوں نوجوانوں میں امتیاز احمد، ابرار احمد اور محمد ابرار شامل تھے، وہ سب راجوری ضلع کے رہنے والے تھے۔ بعد ازاں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان کی شناخت کی تصدیق ہوگئی اور لاشیں گذشتہ سال اکتوبر میں بارہمولہ میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کردی گئیں۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ انکاؤنٹر کے دن فوجی کپٹن ایک نجی کار لے گیا تھا۔ گاڑی کے مالک اعجاز حمد لون نے مجسٹریٹ کے سامنے حلف کے تحت بیان دیا تھا کہ گذشتہ سال 17 جولائی کو آرمی کے اہلکار ان کی رہائشگاہ پر ان کے پاس آئے تھے اور ان کی گاڑی لے گئے تھے۔ اس کے بعد جھڑپ کے دن فوج نے انہیں اطلاع دی کہ اس کی گاڑی امشی پورہ نار میں ’’خراب حالت میں‘‘ کھڑی ہے۔ 15ویں کور کے کمانڈر لیفیٹنٹ جنرل بی ایس راجیو نے پہلے کہا تھا کہ شواہد کی تفصیلات مکمل ہوچکی ہے اور فوج قانون کے تحت آئندہ کی کارروائی عمل میں لائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کیپٹن بھوپندر سنگھ ممکنہ طور پر افسپا کے تحت حاصل اختیارات اور سپریم کورٹ کی طرف سے منظور شدہ فوجی سربراہ کی جانب سے ’’کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے‘‘ کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں کورٹ مارشل کا سامنا کریں گے۔ ادھر حالیہ دنوں لاوے پورہ میں تین طالبعلموں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں بے گناہ تھے اور فرضی انکاؤنٹر کے ذریعے انہیں شہید کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 912205
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش