0
Friday 29 Jan 2021 22:48

بائیڈن کا امریکہ اور پاکستان

بائیڈن کا امریکہ اور پاکستان
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں زیادہ تر اقتدار پر آمریت مسلط رہی، جیسے اب بھی امریکہ کے حلیف عرب ملکوں میں شہنشاہیتیں قائم ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے کو سفارتی کامیابیوں کیلئے آلے کے طور پر استعمال کرنیوالا امریکہ ہمیشہ سے تیسری دنیا کو ایسے ہی دباو کا شکار رکھتا ہے۔ پاکستان واحد ملک نہیں جہاں امریکی اثر و رسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی وضع ہوتی رہی ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم اگر روس کا دورہ منسوخ نہ کرتے تو بھی پاکستان موجود رہتا۔ لیکن امریکی پالیسی سازوں کی مکاری ہی سبقت لے جاتی رہی۔ البتہ کہا جا رہا ہے کہ حالات بدل رہے ہیں، کچھ بدل چکے ہیں۔ ایک اور بات بھی معروف ہے کہ امریکہ جیسے ممالک میں پاکستان جیسے ملکوں کے برعکس پالیسی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کے جانے اور جو بائیڈن کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ بات تو ہمارے لیے بھی صادق آتی ہے کہ کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ حالات بدل جاتے ہیں اور نئے مواقع اور امکانات کو دیکھتے ہوئے تعلقات استوار ہوتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت آنے سے پہلے جتنی باتیں کی گئیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہم امریکہ کے غلام بن کر نہیں رہیں گے۔ ممکن ہے موجودہ وزیراعظم اب بھی یہی سمجھتے ہوں، بلکہ بات اس سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ ٹرمپ دور میں عمران خان یہ سمجھتے اور کہتے رہے ہیں کہ جس طرح امریکہ مختلف تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے، میں بھی ایران اور سعودی عرب اور امریکہ اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ اس کا سب سے دلچسپ منظر وہ تھا، جب عمران خان وائٹ ہاوس میں سابق صدر ٹرمپ کیساتھ بیٹھ کر یہ باتیں دہرا رہے تھے اور صدر ٹرمپ بظاہر اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔

شاید اسی لیے امریکہ سے واپسی پر پی ٹی آئی نے سرکاری میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس بات کا جشن منایا جیسے عمران خان واقعی کوئی معرکہ سر کرکے آئے ہیں۔ اسی فتح کے نشے میں مسرور عمران خان اب ان سب معاملات پر پہلے کی نسبت حد سے زیادہ محتاط ہیں، اب ایسی کوئی بات نہیں کرتے، لیکن اسرائیل کیساتھ تعلقات کے بارے میں سوالات کا جواب ہیمشہ دو ٹوک انداز میں دیتے ہیں کہ ایسا کوئی آپشن موجود نہیں، بلکہ پاکستان اس مسئلے کے دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ لیکن دو ریاستی حل کے بارے میں عمران خان شاز ہی بیان دیتے ہیں، زیادہ تر انسانی ضمیر کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطینیوں پر ہونیوالے ظلم و ستم اور صیہونی ریاست کے ناجائز قیام کا ذکر کرتے ہوئے، سرے سے ہی اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیکر تعلقات قائم کرنے کے امکان کو رد کر دیتے ہیں۔

اس تناظر میں دیکھیں تو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود اور بقاء امریکی سیاست کا محوری نکتہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہودی لابی کے امریکی اقتدار کے ایوانوں میں پنجے اتنے گہرے ہیں کہ اس ناجائز ریاست کی حمایت کے بغیر امریکی قومی مفادات کی تعریف ہی ادھوری ہے۔ اسرائیل کی بقاء اور سالمیت امریکہ کے ایجنڈے سے کبھی خارج نہیں رہی۔ جہاں تک پاکستان کی موجودہ حکومت کی بات ہے تو موجودہ حکومت اور امریکہ کے درمیان یہی واحد مسئلہ اسرائیل ہے، جس پر عمران خان آزادی سے اظہار رائے کرسکتے ہیں، ورنہ چین اور امریکہ کی کشیدگی کے تناظر میں دیکھیں تو مسلح افواج نے سی پیک کی گارنٹی دے رکھی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ویسے ہی سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے، امریکہ جتنا زور لگا لے اور چین اور پاکستان کے درمیان خیلج پیدا کرنا ناممکن ہے، البتہ کشمیر پر کئی طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

اسی طرح افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کا دیرینہ موقف ہے اور پاکستان نے ہمیشہ امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اوبامہ دور میں پاکستان سے متعلق امریکہ کی افغان پالیسی میں سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ہمارے حساس ترین علاقے ایبٹ آباد میں امریکی افواج نے آپریشن بھی کیا، اس پر کوئی معذرت بھی نہیں کی اور اس میں ملوث پاکستانی شہریوں کی آزادی اور امریکہ منتقلی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر انڈیا اس وقت پاکستان کی جگہ لے چکا ہے، یعنی اب امریکہ نے پاکستان پر بھروسہ اور اعتماد ختم کرکے بھارت سے قربتیں بڑھا لی ہیں، جس کے اثرات چین پر کم اور پاکستان پر زیادہ پڑ رہے ہیں۔ غیر روایتی حکمرانوں میں سے ٹرمپ شکست کھا چکے، مودی اور عمران خان موجود ہیں۔ مودی کے جیتنے پر عمران خان نے کشمیر کے حل کی امید ظاہر کی تھی، البتہ جو بائیڈن کے آنے پر عمران خان نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔

جس طرح مودی کے آنے پر عمران خان نے جلدی میں پاکستان کے کشمیر پر بنیادی موقف کو بیان کیے بغیر مسئلہ کشمیر کے حل کی امید ظاہر کی تھی، اب وہ پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محتاط بیان دے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی آزمائش جاری ہے، البتہ پہلے کی طرح ہمارے حکمرانوں کو اب امریکہ سے کوئی توقع نہیں کہ امریکہ کشمیر پر کوئی کردار ادا کریگا، یا کم از کم کوئی مثبت کردار ادا کریگا۔ لیکن اسرائیل کیساتھ تعلقات کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی لچک نہیں، نہ پہلے تھی۔ افغانستان میں فوجوں کی موجودگی، انڈیا کیساتھ قریبی تعلقات، چین کیساتھ کشیدگی اور عرب دوستوں سمیت مختلف پہلووں سے پاکستان کیخلاف دباو بڑھانے کی کوشش کی جائیگی، انسانی حقوق، آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق سمیت سافٹ ایشوز کو ایف اے ٹی ایف کیساتھ ملا کر پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نارملائز کیا جا سکتا ہے، جو پاکستان اور خطے کیلئے سود مند نہیں۔ چین کا کردار اس میں اہم ہے۔ پاک چین تعلقات آئندہ خطے کے حالات اور پاکستان کی امریکہ سے متعلق پالیسی کا تعین کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 913134
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش