0
Wednesday 10 Mar 2021 14:30

پوپ کا دورہ عراق۔۔۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا(2)

پوپ کا دورہ عراق۔۔۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا(2)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

ہم اس وقت پوپ کے دورہ عراق کا جائزہ لے رہے ہیں، ہمارے پیشِ نظر وہ عوامل ہیں، جنہوں نے پوپ کے اس دورے کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنایا ہے۔ گذشتہ قسط  میں ہم نے چار عوامل ذکر کئے تھے۔ اب آئیے مزید عوامل پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں:
5۔ کیتھولک چرچ ایک عالمی ادارہ ہے، پوپ اس ادارے کا سربراہ بھی اور ویٹیکن سٹی اسٹیٹ کا حاکم بھی ہوتا ہے۔ اداروں اور اسٹیٹس کے بہت سارے مفادات مشترکہ ہوتے ہیں۔ مغربی ریاستیں پوپ کی اس حیثیت کو نظرانداز نہیں کرسکتیں، اسی طرح پوپ بھی عالمی ریاستوں کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ چنانچہ اہداف اور مفادات کے حصول کیلئے پوپ اور مغربی ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعامل کرتے ہیں۔ اس تعامل کے پیشِ نظر دنیا میں پوپ کا کردار ایک اخلاقی سفارتکار کا بھی ہے۔ چونکہ مغربی، امریکی اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات اس وقت ایران کے ساتھ انتہائی تناو کا شکار ہیں، دنیا ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس جنگ اور تناو کے ماحول نے سب کے ہوش اُڑا رکھے ہیں۔

کوئی بھی عقلمند انسان جنگ کے شعلے نہیں بھڑکانا چاہتا۔ اس وقت ایران تک رسائی کا بہترین سفارتی دروازہ عراق ہے۔ چنانچہ پوپ کے عراق میں آنے سے ایران کے دروازے پر ایک سفارتی دستک بھی دی گئی ہے۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ امریکہ کے نئے صدر مسٹر جو بائیڈن ایک طرف تو کیتھولک ہیں اور دوسری طرف پوپ فرانسیس کے خط کے پیروکار یا مقلد بھی ہیں۔ یوں دورہ عراق کے ذریعے ایران کے ساتھ یورپ و امریکہ اور عربوں کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے اقدامات کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں ممکن ہے کہ اس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو جائیں۔

6۔ مرجع عالیقدر آیت اللہ سیستانی کے ساتھ پوپ کی ملاقات نے بھی اس دورے کو بہت زیادہ نمایاں کیا ہے۔ قارئین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ دنیا میں جو منزلت پوپ کو حاصل ہے، تقریباً تقریباً وہی منزلت آیت اللہ سیستانی کو بھی حاصل ہے۔ عراق اور اس کے باہر دنیا بھر میں آیت اللہ سیستانی کے بھی لاکھوں مقلدین پائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ عراق کے اندر دیگر سنی و شیعہ علماء و مراجع بھی موجود ہیں، عراقی چرچ اور حکومت کی طرف سے  صرف آقای آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے، چونکہ عراق میں آیت اللہ سیستانی کو سب شیعہ و سنی اور مراجع و مجتہد اپنا ترجمان، بزرگ، سربراہ اور قائد تسلیم کرتے ہیں۔ عراق میں ریاستی وحدت، ملکی دفاع، سیاسی نظریات اور پالیسی ساز ہونے کی حیثیت سے آیت اللہ سیستانی کی دانش و بصیرت کے سب معترف ہیں۔ یعنی اگر آیت اللہ سیستانی مدظلہ العالی سے ملاقات ہوگئی تو سب سے ہوگئی۔

یہاں یہ بات خصوصیت کے ساتھ عرض کی جا رہی ہے کہ عراق میں آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی اجتماعی اور قومی حیثیت صرف شیعہ مرجع تقلید کی نہیں ہے بلکہ آپ وہاں پر سارے مسلمانوں، جمہوری طاقتوں، محب وطن قبائل اور اقلیتوں کے ہمدرد، پاسدار، نگہبان، رہنماء اور ناظر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ حتی کہ ایرانی مراجع عظام اور ولی فقیہ کے ہاں بھی آپ کی منزلت آشکار اور واضح ہے۔ اتنی اہم اسلامی شخصیت کے ساتھ یہ کسی پوپ کی پہلی ملاقات تھی۔ چنانچہ اس اتنی اعلیٰ سطح کی پہلی اور تاریخی ملاقات کی اہمیت مختلف میدانوں میں خود بخود واضح ہے۔ مغربی و عربی ذرائع ابلاغ اور اُن کے متاثرین نے اس موقع پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پوپ کی آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے مقابلے میں ایک اور مرجع تقلید کو نمایاں کیا جائے۔

ایسے لوگوں میں سے کچھ تو خاص مقاصد کے تحت ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ اہلِ تشیع کے ہاں مجتہد، مفتی، مرجع تقلید، اجتہاد، درسِ خارج اور ولی فقیہ کسے کہتے ہیں۔ ورنہ جو لوگ جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ مراجع عظام کی تقویت کے بغیر ولایت فقیہ کا نظام تشکیل ہی نہیں پا سکتا۔ کہیں پر بھی کسی مرجع تقلید کی قدردانی اور عزت افزائی دراصل ولی فقیہ کی ہی قدردانی اور عزت افزائی ہے۔ چنانچہ یہ دورہ آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات کے باعث جہاں خلیجی ریاستوں اور امریکہ و یورپ کیلئے اہم رہا، وہیں ایران کے ولی فقیہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے نزدیک بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی اہمیت کو آپ بیک ڈور سفارتکاری کے تناظر میں اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

7۔ اس دورے سے پہلے دنیا کے سامنے صرف عرب بادشاہوں، داعش، القاعدہ اور  تکفیریوں کو اسلام کا چہرہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ اس دورے میں ساری دنیا از سرِ نُو اسلام کی حقیقی اور اصلی شکل کی طرف متوجہ ہوئی۔ اقوامِ عالم کو پتہ چلا کہ حقیقی اسلام کے علمبردار دیگر ادیان و مذاہب کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اقلیتوں کے ساتھ رواداری پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ذرائع ابلاغ میں پہلی مرتبہ دینِ اسلام کا اصلی چہرہ لوگوں کو دیکھنے کیلئے ملا۔

وہ ماڈرن دنیا جو عرب بادشاہوں کی رنگ رلیوں اور دہشت گردوں کی وحشت و بربریت کو اسلام کے طور پر دیکھ رہی تھی، اُس نے انتہائی قریب سے اسلام کی سب سے بڑی شخصیت کی سادہ زیستی، بغیر کسی تزئین و آرائش کے معمولی زندگی اور تواضع کا مشاہدہ کیا، اس دورے سے  اہلِ مغرب کو پتہ چلا کہ  مسلمانوں کے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر کاربند مسلمان کیسے ہوتے ہیں، اُن کا اٹھنا بیٹھنا  اور طرزِ زندگی کیسا ہوتا ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ یہی سادگی اور معمولی طرز زندگی  ایران میں مراجع عظام اور ولی فقیہ کے ہاں بھی واضح اور نمایاں ہے۔

پوپ کا یہ دورہ جہاں عراق میں عیسائیوں کے حقوق کیلئے مہم تھا، وہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کیلئے بھی اہم تھا۔ اس سے اقوامِ عالم تک واضح طور پر یہ پیغام پہنچا ہے کہ اگر اہلِ کتاب میں سے مسلمانوں کی سب سے اہم اتھارٹی اقلیتوں کے حقوق کیلئے اپنی خدمات پیش کرتی ہے، اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کو یقینی بنانے پر تاکید کرتی ہے، اُن کے سیاسی و قومی حقوق کو تسلیم کرتی ہے، اُن کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کو  اپنا دینی فریضہ سمجھتی ہے تو پھر دیگر ادیان و مکاتب کو بھی اسلام اور مسلمانوں خصوصاً فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے اپنے نظریات پر نظرِثانی کرنی چاہیئے۔

بہرحال انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ دنیا کے دو بڑے اخلاقی و عرفانی اور زندہ ادیان کی اعلیٰ سطح قیادت کی پہلی ملاقات تھی، یہ ملاقات انبیاء کی سرزمین عراق میں ہوئی، یہ صرف چالیس منٹ کی ملاقات تھی لیکن یہ چالیس منٹ پوپ کے سارے دورے پر حاوی رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے تمام مکاتب، ممالک اور مسالک کی طرف سے تقریبِ ادیان، انسانی حقوق اور فلاحِ بشریت کیلئے اس ملاقات سے حدِ اکثر استفادے کی کوشش ہونی چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 920676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش