1
Tuesday 6 Apr 2021 06:54

اردن میں بغاوت، کون ملوث

اردن میں بغاوت، کون ملوث
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اردن کے خبری ذرائع نے تین اپریل کو رات کو شاہ عبداللہ دوئم کے خلاف بغاوت کی ناکامی اور بیس اہم شخصیات کی گرفتاری کی خبریں نشر کی ہیں۔ اس ناکام بغاوت کے بارے میں ابھی تک کسی طرح کی مستند خبریں عالمی اور علاقائی ذرائع ابلاغ میں سامنے نہیں آئی ہیں۔ اردن کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے تین طرح کے امکانات کا اظہار کیا ہے۔ پہلا امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس بغاوت میں شاہی خاندان کے داخلی اختلافات کا عمل دخل ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شاہ عبداللہ دوئم کے سوتیلے بھائی حمزہ بن حسین جو فروری 1999ء سے 2004ء تک ولی عہد کے عہدے کے منصب پر فائز تھے، ان کا ہاتھ ہے۔ اردن کے سربراہ شاہ عبداللہ دوئم نے سوتیلے بھائی حمزہ بن حسین کو ولی عہد کے منصب سے ہٹا کر اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا دیا تھا۔ اس بغاوت کے فوراً بعد حمزہ بن حسین کی گرفتاری اور ان کا سوشل میڈیا پر پیغام اس بات کی دلیل قرار دیا جا رہا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔

تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں حمزہ بن حسین کے اندر جہاں انتقامی جذبہ موجود تھا، وہاں اردن کے داخلی حالات بھی اس بغاوت کے لیے تیار تھے۔ اردن اس وقت اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور کرونا وائرس نے بھی شاہ عبداللہ دوئم کی حکومتی نااہلی کو برملا کر دیا ہے۔ دوسرا امکان یہ تجزیہ ہے کہ یہ ناکام بغاوت حکومت کی طرف سے حمزہ بن حسین، ابراہیم عوض اللہ اور حسین بن زاید کے خلاف ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی، تاکہ ان کی مشکوک سرگرمیوں بالخصوص اسرائیل سے تعلقات کو بہانہ بنا کر وقت سے پہلے انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ اس تجزیئے کے ثبوت کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ حمزہ بن حسین سابق ولی عہد، ابراہیم عوض اللہ سابق وزیر دربار اور حسن بن زاید روز بروز مضبوط ہو رہے تھے اور ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے اردن کے شاہ عبداللہ دوئم ان سے خائف تھے اور انہیں جلد سے جلد راستے سے ہٹانے کے خواہشمند تھے۔

اردن کی اپوزیشن کے معروف رہنماء نصیر العمری نے بھی اپنے ٹوئیٹ میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حمزہ بن حسین کی حالیہ گرفتاری کی وجہ ان کی اردنی سوسائٹی میں روز افزاں مقبولیت ہے، جس نے شاہ اردن کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اس بغاوت میں تیسرا نظریہ بغاوت میں بیرونی طاقتوں کا ملوث ہونا ہے اور اس حوالے سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا نام لیا جا رہا ہے۔ ابراہیم عوض اللہ جنہیں بغاوت کے فوراً بعد گرفتار کیا گیا ہے، ان کے سعودی ولی عہد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے بن زائد سے قریبی تعلقات ہیں۔ اردن کے معروف تجزیہ نگار ناجی الذھبی کا کہنا ہے کہ حمزہ بن حسین اور ابراہیم عوض اللہ کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات ہیں، بعض طاقتیں اردن کو سکیورٹی و سیاسی بحرانوں سے دوچار کرنے کی خواہاں ہیں اور ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔

عربی زبان کی معروف چییٹ سائٹ "عربی 21" نے اپنے تجزیہ میں لکھا ہے کہ حسین بن زاید اس سے پہلے سعودی عرب میں اردن کے خصوصی ایلچی کے طور پر تعینات تھے، اسی وجہ سے عوض اللہ بھی شاہی دربار میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہے۔ بغاوت کے الزام میں گرفتار شدہ یہ دونوں افراد سعودی عرب کے انتہائی قریبی تصور کیے جاتے ہیں اور بعض کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان دونوں کے پاس سعودی عرب کی شہریت ہے اور یہ بن سلمان کے قریبی ترین سمجھے جاتے ہیں۔ حسین بن زید اردن کے ہاشمی خاندان کی اشرافیہ میں شامل ہیں اور انہوں نے سعودی عرب میں وسیع سرمایہ گزاری کر رکھی ہے۔ ان تمام امکانات اور تجزیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ کون اس بغاوت میں شریک ہے، یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اردن کے موجودہ سربراہ شاہ عبداللہ بن حسین جو اپنے والد شاہ حسین کے بعد سات فروری 1999ء کو بادشاہی کی منصب پر فائز ہوئے تھے، اپنے بائیس سالہ اقتدار میں اردنی عوام اور شاہی خاندان میں زیادہ مقبول نہیں رہے، اسی طرح بعض عرب حکمران بھی ان کو پسند نہِیں کرتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 925577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش