1
0
Sunday 11 Apr 2021 21:36

شہید عمار نقوی کون تھے؟

شہید عمار نقوی کون تھے؟
تحریر: سویرا بتول

مادرِ شہید کی زبانی
شہید عمار نقوی کی شہادت کے حوالے سے ان کی والدہ کا انٹرویو لیا گیا، جس کا متن آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ شہید عمار نقوی بہت مہربان، کم گو، دلسوز اور نفاست پسند انسان تھے۔ انہوں نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ شہید عمار نقوی 15 جون 1991ء کو پنجاب کے ایک مذہبی و متدین گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک سرکاری گورنمنٹ ملازم تھے اور والدہ نے گھر میں محنت کرکے اپنے چار بچوں کی بہترین انداز میں تعلیم و تربیت کی۔ شہید کے ایک بھائی ڈاکٹر ہیں اور آغا خان ہاسپٹل کراچی میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ایک بھائی بنک الحبیب میں بطور مالی تجزیہ کار تعینات ہیں۔ ان کی بہن سوفٹ وئیر انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور شہید خود ACCA کے طالب علم تھے۔ ان کا گھرانہ مذہبی حوالے سے ہر خاص و عام میں مشہور ہے۔ وہ اپنے والدین کے حد درجہ فرمانبردار بیٹے تھے۔ شہید عمار نقوی کو بچپن سے ہی اپنی والدہ سے خاص انسیت تھی۔ اگر والدہ بیمار ہوتی تو اپنے ہاتھوں سے خود ناشتہ بناتے۔

ان کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ ہر روز مل کر تلاوتِ قرآنِ پاک کیا کرتے تھے۔ شہید کی کبھی بھی کوئی نماز قضاء نہ ہوئی۔ فقط 13برس کی عمر میں توضیح مسائل ختم کر ڈالی۔ فقہی احکام بچین ہی میں یاد کروائے گئے۔ وہ دینی اور عصری تعلیم دونوں میں شاندار قابلیت کے حامل تھے۔ وہ ACCA کے طالبِ علم تھے۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب کراچی میں مسلکی شناخت کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کا دور عروج پر تھا۔ ان کا ACCA کا ایک پیپر رہتا تھا جب انہوں نے والدہ سے کراچی جانے کی خواہش ظاہر کی۔ جب والدہ نے جانے سے روکا اور کہا کہ کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ آئے روز مکتبِ اہلِ بیت کے ماننے والوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تو شہید نے جواباً کہا! "امی آپ مجھے موت سے مت ڈرایا کریں، اگر موت خدا نے لکھی ہے تو وہ کبھی بھی آجائے گی۔"

اپنی شہادت سے ایک روز قبل شہید کسی عزیز کے گھر گئے۔ جب اہلِ خانہ نے شکایت کی کہ کراچی کے حالات ٹھیک نہیں، آپ رات یہی قیام کر لیں تو جواباً کہا کہ اگر موت سے ڈرا رہے ہیں تو نہیں روکوں گا۔ شہید کا یہ جملہ فرزندِ حسین، شبیہ مصطفیٰ علی اکبرؑ کے اُس جملے کی یاد دلاتا ہے کہ بابا جان! اگر ہم حق پر ہیں تو فرق نہیں پڑتا کہ ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے۔ 22 دسمبر دسمبر 2013ء بروزِ اتوار بائیک پر سوار دو نقاب پوش لوگ آتے ہیں اور زہر میں بجھی گولی سینے میں اتار دی جاتی ہے۔ وہ ماں جس نے اپنا سپوت اتنے نازوں سے پالا، اُسے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا، اپنا کل سرمایہ جس کو جوان کرنے میں لگایا، کوئی ایک پل میں اس کی جنت کو یوں روند کر چلا گیا، فقط اہلِ بیت اطہارؑ سے محبت رکھنے کی بناء پر۔ کیا آلِ رسول سے محبت کرنا اتنا بڑا جرم ہے۔؟

شہید اکثر اپنی والدہ سے کہا کرتے تھے کہ امی مجھے بہت برا لگتا ہے، جب عورتيں خود کو نواسی رسول ثانی زہراؑ کی کنیز کہتی ہیں اور جنازوں کے پیچھے چل پڑتی ہیں۔ شہید کی اس بات کے احترام میں ان کے جنازے کے پیچھے کسی خاتون کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شہید کی والدہ کا کہنا ہے کہ شہید عمار کی شہادت کے چار روز بعد میں نمازِ شب کے لیے بیدار ہوئی تو دیکھا کہ فون بج رہا ہے۔ جب فون اٹھایا تو آواز آئی؛ امی میں عمار بول رہا ہوں۔ گویا شہید نے خود اپنی شہادت کی تصدیق کی۔

دفاعِ وطن اور دفاع عزاداری میں لاکھوں شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ بدقسمتی سے مختلف شہداء کو مختلف مکاتب میں تقسیم کر دیا۔ وہ شہداء جنہوں نے اپنے لہو سے اس وطنِ عزیز کی آبیاری کی، آج وہ ہماری کوتاہ نظری کا شکار ہو کر گمنامی کا استعارہ بنتے جا رہے ہیں۔ شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ شہداء کے افکار و نظریات کو عام لوگوں تک پہنچانا خواص کی ذمہ داری ہے اور افسوس اس حوالے سے خواص اپنی ذمہ داری پوری کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ شہید کی والدہ کی خواہش ہے کہ شہید عمار کے نام سے انسٹیٹوٹ قائم کیا جائے، جہاں پاکستان کے شہداء کو متعارف کروایا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے شہداء کے افکار و نظریات کو جان سکیں اور اپنی عملی زندگیوں کو شہداء کے نقشِ قدم کے مطابق ڈھال سکیں۔
چلے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم
رسولﷺ پاک نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
علیؑ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
حسینؑ پاک نے ارشاد یہ کیا گیا ہوگا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو 
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
خبر کا کوڈ : 926622
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اعجاز حسین
Australia
شہیدوں زندہ باد لبیک یاحسینؑ
ہماری پیشکش