0
Sunday 25 Apr 2021 11:30

عربوں کیلئے موت سے گونجتی قدس کی گلیاں

عربوں کیلئے موت سے گونجتی قدس کی گلیاں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پچھلے بدھ سے انتہاء پسند صیہونیوں کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ باب ِ دمشق کے نزدیک مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ نعرہ "الموت للعرب" لگایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے اتنہاء پسند صیہونی قدس شریف میں کسی بھی طور پر عربوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب فلسطینی مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو انہیں طاقت کے زور پر روکا جا رہا ہے۔ اسرائیلی پولیس نہتے فلسطینیوں پر انتہائی وحشیانہ انداز میں تشدد کر رہی ہے۔ گھڑ سوار پولیس اہلکار  قدس شریف کی گلیوں میں فلسطینی مظاہرین کو بڑی بے دردی سے روند رہے ہیں۔ ایک سو مظاہرین بری طرح زخمی کیے گئے ہیں، اسی طرح پرامن احتجاج کرتے دسیوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی ہے اور اسی طرح ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئی ہیں۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ انتہاء پسند اسرائیلیوں کا گروہ علاقے میں موجود ہے اور وہ اسرائیلی تحفظ میں ان گلیوں میں عربوں کے لیے موت "الموت للعرب" کے نعرے لگاتا ہے۔ جب جوابی طور پر فلسطینی احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

یہاں ایک اور ٹرینڈ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ یہ انتہاء پسند مسلمانوں کے گھروں میں بھی داخل ہوئے ہیں اور ان پر گھروں میں داخل ہو کر تشدد کیا گیا ہے۔ گذشتہ اسرائیلی الیکشن میں اسرائیل میں انتہاء پسند صیہونیوں نے کافی نشستیں حاصل کی ہیں، جن کا نظریہ ہی عدم برداشت ہے۔ وہ کسی بھی طور پر عربوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قدس شریف کے پرانے حصے میں ماہ مبارک رمضان میں مسجد اقصیٰ کے اردگرد کا علاقہ پررونق ہو جاتا ہے، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آتے ہیں، اب اسرائیلی فورسز نے اس علاقے کو مکمل طور پر بند کرا دیا ہے۔ فلسطینی مسلمان دمشق گیٹ کے سامنے جمع ہوتے ہیں اور یہ روایتی طور پر مسلمانوں کا علاقہ ہے۔ انتہاء پسند یہودی اس سے نزدیک جمع ہو کر "الموت للعرب" کے نعرے لگا رہے ہیں۔ بابِ دمشق کو یوں بند کرنا مسلمانوں کو پرانے شہر میں مزید محدود کرنے کی دانستہ کوشش ہے، تاکہ مزید علاقوں پر قبضہ جمایا جا سکے۔ اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کا داخلہ بھی انتہائی مشکل کر دیا ہے۔ فلسطین کے بہادر مسلمانوں نے اسرائیل کی تمام پابندیاں توڑ کر مسجد اقصیٰ کی رونقوں کو جاری رکھا ہے۔

اسرائیل کے ایک سیاستدان سے اینکر نے انتہاء پسند اسرائیلیوں کے اس احتجاج اور بالخصوص "الموت للعرب" کے نعرے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے انتہائی سادگی سے کہا کہ اسرائیل میں آزادی اظہار اور آزادی احتجاج ہے، اس لیے انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ بہت اچھا کہا، کیا اسرائیلی ریاست اسی بنیاد پر عربوں کو حق دیتی ہے کہ وہ صیہونیوں کے لیے موت یا اسرائیل کے لیے موت کے نعرے لگائیں؟ اسرائیل پورے مغرب کی ہمدردیان سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھیں مسلمان ممالک میں الموت لاسرائیل کے نعرے لگ رہے ہیں اور ہمیں ان سے خطرہ ہے۔ اس وقت اسرائیلی قیادت کو آزادی اظہار کے اصول اور احتجاج کے حق کا یاد نہیں رہتا ہے۔ یقیناً ان کی نظر میں یہ حق صرف اسرائیلیوں کو حاصل ہے اور اہل فلسطین کو یہ حق حاصل نہیں۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے بھی ایسے موارد میں چپ سادھ لیتے ہیں اور مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے۔ حضرت اقبال مدت پہلے فرما گئے تھے:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!


ویسے اگر پچھلے بیس پچیس سال کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں اسرائیلیوں کی طرف سے ایسی حرکات کی جاتی ہیں، جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل ہوتا ہے اور بڑی تعداد میں فلسطینی انفراسٹکچر کو نقصان پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مہینے میں ایسی کارروائیاں کرکے صیہونی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کیا قدس شریف سے بلند ہونے والے "الموت للعرب" کے یہ نعرے بحرین پر مسلط آل خلیفہ نے سنے ہیں؟ کیا ان نعروں کی گونج عرب امارات تک پہنچی؟ کیا نعرے ریاض میں آل سعود کے محلات سے بھی ٹکرائے ہیں؟ کہاں گئے اسرائیل کو عربوں کا دوست قرار دینے والے؟ اقوام کے درمیان اچھے تعلقات انسانیت کی بہتری کے لیے بہت ناگزیز ہوتے ہیں۔ ہر وقت جنگ کی کیفیت میں رہنا درست نہیں ہوتا، مگر جب ایک قوم پر قبضہ کر لیا جائے، ان کی زمینیں اور جائیدادیں ہتھیا لی جائیں، ان کے مذہب پر عمل کرنا مشکل بنا دیا جائے۔ ریاست کی سرپرستی میں پوری قوم کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جائیں تو وہ قوم کیا کرے گی؟ ہر انسانی قانون ایسی قوم کو اپنی شناخت کے لیے لڑنے کی اجازت دیتا ہے کہ اپنی سرزمین پر قابض فورسز کے خلاف لڑیں۔

دبئی ائیر پورٹ پر اسرائیلی جہازوں کے استقبال ہو رہے تھے، اسی طرح دبئی میں اسرائیلی کھانوں پر رپورٹیں بن رہی تھیں۔ اسرائیل عرب امارات کی فرینڈشپ پر تجریئے آرہے تھے۔ عرب ممالک کے حکمران یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ عرب اسرائیل تنازع نہیں ہے بلکہ یہ ایران اسرائیل تنازع ہے اور ہمارا سرائیل سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ان نعروں نے اصل حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے، اسرائیلی تمام عربوں کو فلسطین سے نکالنا چاہتے ہیں، وہ اس میں مسیحی، کیمونسٹ اور دروز کا فرق نہیں کر رہے۔ جو بھی عرب ہے، وہ اسے فلسطین سے نکالنا چاہتے ہیں۔ بلی کو دیکھ کر کبوتر ایک ہزار بار بھی آنکھیں بند کر لے تو بھی بلی اسے نہیں چھوڑتی ہے۔ عرب ممالک جب بھی آنکھیں کھولیں گے تو انہیں ایک بڑی حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا "الموت للعرب" کا نعرہ ممکن ہے کسی سوئے کو جگا دے۔
خبر کا کوڈ : 929147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش