1
Monday 3 May 2021 14:35

علی ایک سمندر ہیں

علی ایک سمندر ہیں
تحریر: مہر عدنان حیدر

وہ مسجد میں شہید ہوا، کیونکہ میدان میں اس کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ مضمون شروع کرنے سے پہلے اپنی پستی اور ذلت کا ادراک رکھتا ہوں اور پھر صاحب بلاغت کی عطا کردہ مدحت کی زبان سے ان کی شجاعت  کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں اور خدا سے مدد طلب کرتا ہوں کہ میں جلال علی بیان کر سکوں کہ وہ علی جو ہر میدان کا فاتح ہے، مگر اس نے اپنی فتح کا اعلان مسجد میں ضرب کھانے کے بعد کیا کہ:
فزت ورب الكعبة "رب کعبہ کی قسم میں (علی) کامیاب ہوگیا۔" جو آج بھی سوچنے والوں کے لیے ایک سوال ہے کہ وہ علی جو ہر میدان میں فاتح ہے، وہ مسجد اور محراب عبادت میں ہی کیوں کامیاب ہوا۔؟ ہاں وہ اتنا بہادر ہے کہ اس کی ایک ضرب ثقلین کی عبادت سے افضل ہے اور وہ آج بھی اتنے جلال کا مالک ہے کہ جب کوئی بہادر بہادری دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ در علی سے داد شجاعت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بے ساختہ زبان سے یاعلی مدد کا نعرہ لگاتا ہے۔

لیکن جس علی کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، وہ فقط  بہادر ہی نہیں بلکہ عالم اور باب العلم بھی ہے۔ جس کی دلیل دعویٰ سلونی ہے کہ قیامت تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ہر چیز کا علم رکھتا ہوں، تنہاء علی ہے کہ جنھوں نے فرمایا: ’’مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو، مجھ سے سوال کرو، قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو، کیونکہ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے۔‘‘ لیکن وہ فقط عالم ہی نہیں بلکہ حکمت کا سمندر بھی ہے، جس کے موتی آج بھی دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جس کا فرمانا ہے کہ "حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے" اور فرماتے ہیں کہ "دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں، ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے۔"

خیر ہم فقط ایک حکیم کا تذکرہ ہی نہیں کر رہے بلکہ ایک متقی اور زاہد کا بھی تذکرہ کر رہے ہیں، جس کا فرمانا ہے کہ ’’خدا کی قسم اگر (حجاب قدس کے) پردے ہٹا دیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔" یوں تو علی علیہ السلام ایک ہی وقت میں مزدور بھی ہیں اور حاکم بھی اور مزدوری میں اتنے ہی ایماندار ہیں کہ کافر لوگ بھی ان کی ایمانداری کی سند دیتے ہیں اور حاکم ایسے ہیں کہ حکومت کو اپنے پیوند لگے جوتے سے بھی کم تر جانتے ہیں۔ اگر عدالت علی کی مثال لیں تو فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر مجھے سات اقلیم اس لئے دیئے جائیں کہ میں الله کی نافرمانی کرتے ہوئے چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘

مزید فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر میرے لئے ایک مسند بچھائی جائے، اس پر بیٹھ کر میں توریت والوں کو (ان کی) توریت سے، انجیل والوں کو (ان کی) انجیل سے، اہل زبور کو (ان کی) زبور سے اور قرآن والوں کو (ان کے) قرآن سے فیصلے سناؤں، اس طرح کہ ان کتابوں میں سے ہر ایک کتاب بول اٹھے گی کہ پروردگارا علی (ع) کا فیصلہ تیرا فیصلہ ہے، خدا کی قسم میں قرآن اور اس کی تاویل کو ہر مدعی علم سے زیادہ جانتا ہوں، قرآن مجید کی آیت کے متعلق میں تمہیں یوم قیامت تک خبر دے سکتا ہوں‘‘

مولا علی ہر ایک کے لئے ایک سمندر ہیں، جس سے جو کوئی جو کچھ نکالنا چاہے نکال سکتا ہے۔ کائنات میں ایسی مثل لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بہادر، عالم، متقی، زاہد، حکیم اور وہ سب کچھ ہو، جو اساطیری کردار کے حامل خواب و خیال کے ہیرو میں ہوتی ہیں، یقیناً وہ تمام چیزیں علی میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہم علی کو پہچان نہیں پائے، ورنہ غیروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم، جس میں علی جیسا عادل پیدا ہوا۔ حرف آخر آج بھی ہماری حالت حسنین اکبر کے اس شعر کی طرح ہے کہ 
 ایسے ہم ساقی کوثر کی طرف دیکھتے ہیں
جس طرح پیاسے سمندر کی طرف دیکھتے ہیں
خبر کا کوڈ : 930497
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش