0
Friday 7 May 2021 22:30

یوم آزادی پاکستان کے بارے ایک بحث

یوم آزادی پاکستان کے بارے ایک بحث
تحریر: سید اسد عباس

پاکستان کب وجود میں آیا؟ یہ سوال مورخین کے مابین موضوع بحث ہے۔ تشکیل پاکستان کی دستاویز پر 19 جولائی 1947ء کو ملکہ برطانیہ نے دستخط کیے اور ماونٹ بیٹن نے 14 اگست 1947ء بمطابق 26 رمضان المبارک کو کراچی پہنچ کر دستور ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اس دستاویز کو ایک اعلامیہ کی صورت میں پڑھ کر سنایا: ’’تاج برطانیہ نے اٹھارہ جولائی 1947ء کو انڈین انڈی پینڈنس (آزادی) ایکٹ کی توثیق کرکے دو آزاد مملکتیں انڈیا اور پاکستان کو آزادی دینے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ ایکٹ آج رات 15 اگست 12 بجے سے نافذ العمل ہوگا۔‘‘ پاکستان کرونیکل نامی کتاب مرتبہ عقیل عباس جعفری کے صفحہ نمبر پر قائدِاعظم کو 14 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے دکھایا گیا ہے، جبکہ سٹیج پر ہندوستان کے آخری وائسرائے مائونٹ بیٹن بیٹھے ہیں۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر1 کے مطابق 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب مطابق27 رمضان المبارک 1366ھ، رات ٹھیک بارہ بجے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار اور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا اضافہ ہوا، جس کا نام "پاکستان" ہے۔

پاکستان کرونیکل کے صفحہ 2 پر ریڈیو پاکستان کی تصاویر کے ساتھ لکھا ہے کہ 15-14 اگست کی درمیانی شب لاہور، پشاور اور ڈھاکہ کے ریڈیو سٹیشنوں سے رات گیارہ بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا۔ 12 بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی دھن بجائی گئی اور ظہور آذر کی آواز میں انگریزی زبان میں اعلان گونجا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد و خود مختار مملکت وجود میں آئے گی۔ رات کے ٹھیک 12 بجے پہلے انگریزی اور پھر اُردو میں یہ الفاظ گونجے: ''یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔'' جس کے فوراً بعد مولانا زاہر القاسمی نے قرآن مجید کی سورة فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔ 15 اگست کو جمعة الوداع تھا۔ اُسی دن پاکستان کا پہلا سرکاری گزٹ شائع ہوا۔ اُسی روز جمعة الوداع کے حوالے سے قائدِاعظم کا پیغام جاری ہوا۔ 15 اگست کو ستائیسویں رمضان تھی۔ چنانچہ 15-14 اگست کی درمیانی شب ''لیلة القدر'' تھی۔

ان ایام اور تاریخی لمحات کے ایک عینی شاہد سید انصار ناصری صاحب ہیں، جو ریڈیو سروس سے وابستہ تھے۔ انہوں نے 3 جون تقسیمِ ہند کا اعلان کے بعد قائدِاعظم کی تقریر کا اُردو ترجمہ اپنی زبان میں نشر کیا اور تقریر کے آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ 11 اگست سے لے کر 14 اگست 1947ء تک وہ قائداعظم کی تقریروں کے تراجم ریڈیو سے نشر کرتے رہے۔ وہ اپنی کتاب ''پاکستان زندہ باد'' کے صفحہ نمبر198 پر لکھتے ہیں: ''رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ نزولِ قرآن پاک کی مقدس رات لیلة القدر کی نورانی صبح جمعة الوداع کا مقدس دن، ایسا قران السعدین تھا، جب رب ذوالجلال والاکرام نے اپنے محبوب اور مکرم نبی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے طفیل ان کے کروڑوں امتیوں کو جذبۂ ایمانی اور مثالی اتحاد و برکت سے، پاکستان کی وسیع و عریض اسلامی مملکت کی عظیم نعمت عطا فرمائی۔''

پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم ماہرِ اقبالیات، ماہرِ تحریکِ پاکستان و قائداعظم اپنی کتاب ''حصارِ پاکستان'' کے صفحہ نمبر194 پر لکھتے ہیں: ''لاکھ لاکھ شکر اس خدائے مہربان کا جس نے اولادِ آدم کی دائمی ہدایت کے لئے قرآن الفرقان، ماہِ رمضان کی آخری متبرک راتوں میں سے ایک میں نازل کرنا شروع کیا، اسی طرح لاکھ لاکھ شکر خدائے رحمن کا جس نے رمضان ہی کے ماہ مبارک کی آخری مقدس راتوں میں سے ایک میں امتِ مسلمہ کو پاکستان عظیم الشان کی نعمتِ مترقبہ سے نوازا۔'' سوال یہ ہے کہ ہم نے پہلا یومِ آزادی 15 اگست 1947ء کو منایا تو پھر 14 اگست کو یومِ آزادی منانے کا فیصلہ کیونکر ہوا؟ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی مرکزی کابینہ نے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی زیرِ صدارت 29 جون 1948ء کو فیصلہ کیا کہ آئندہ پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست کو منایا جائے گا۔ یہ فیصلہ کیونکر ہوا، کس وزیر کی تجویز تھی؟ یہ معلوم نہیں ہوسکا، لیکن بظاہر مقصد پاکستان کے یومِ آزادی کو ہندوستان کے یومِ آزادی سے الگ رکھنا تھا۔

پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں 14 اگست کو ہندوستانی وائسرائے اور برطانوی حکومت کا نمائندہ مائونٹ بیٹن پروانۂ آزادی دے گیا تھا اور پاکستان کے پرچم بھی لہرا دیئے گئے تھے، چنانچہ 14 اگست کو بھی یومِ آزادی منانے کا جواز موجود تھا، تاہم یہ عمل انگریزی سامراج کی جانب جھکاؤ اور مغربی ثقافت کی برتری کو تسلیم کرنے کی ایک علامت بھی تھا، جس کے شواہد ہمیں بعد میں تاریخ پاکستان میں دیکھنے کو ملے۔ قرآن، رمضان  اور حجۃ الوداع سے پاکستان کی نسبت کیا محض اتفاق ہے، تاریخی حادثہ ہے یا الہیٰ اشارہ۔ شاید آپ کہیں کہ یہ حسنِ اتفاق ہے، تاہم ڈاکٹر صفدر محمود ماہر پاکستانیات نے کیا خوب کہا کہ:’’یاد رکھیں کہ جسے ہم حُسن اتفاق کہتے ہیں، اس اتفاق کے حسن کو سنوارنے میں بھی قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘ اگر یہ اتفاق بھی ہے تو کیا حسین اتفاق ہے۔

ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں ’’یہ اتفاقات غور کرنے کے لئے سامان ِ فکر ہوتے ہیں بلکہ سطحی نظر کے لئے سامانِ شوق۔‘‘ ہم نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو یہ نعمت حاصل تو کی لیکن خود ہی اس مناسبت کو انگریزی تاریخوں کے چکر میں ضائع کر دیا۔ فرض کریں اگر حکومت قمری کیلنڈر کو اختیار کرتی، جو کہ اکثر عرب ممالک میں رائج ہے تو یہ عمل قیام پاکستان کے مقاصد سے زیادہ قریب ہوتا اور ان پاکیزہ راتوں کی مناسبت سے ہماری قیام پاکستان کی خوشیاں بھی دوبالا ہو جاتیں۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی، ہم آج بھی 14 اور 15 اگست کی بحث سے نکل کر رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو اپنے عظیم وطن کا یوم آزادی قرار دے کر اس الہیٰ نسبت سے اپنا تعلق جوڑ سکتے ہیں۔ اہلیان پاکستان کو شب قدر، جمعۃ الوداع اور یوم آزادی پاکستان مبارک۔
خبر کا کوڈ : 931354
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش