1
0
Friday 11 Jun 2021 20:31

کراچی کا سیاسی میدان خالی، کیا ایم کیو ایم دوبارہ متحد ہو پائے گی؟

کراچی کا سیاسی میدان خالی، کیا ایم کیو ایم دوبارہ متحد ہو پائے گی؟
رپورٹ: ایم رضا

ایک وقت تھا جب کراچی میں الطاف حسین کا جلسہ ہو تو شہر کا شہر سنسان ہو جایا کرتا تھا۔ قربانی کی کھالیں تک خدمتِ خلق فاؤنڈیشن (ایم کیو ایم کی این جی او) کو دی جاتی تھیں۔ سفید شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے الطاف حسین اور ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں مہاجرین کے دلوں کی آواز بن چکے تھے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں الطاف حسین کا رعب و دبدہہ قصہ پارینہ بن گیا۔ ملک کی تیسری سب سے بڑی جماعت کا اعزاز رکھنے والی سیاسی جماعت کا وجود اب اس شہر میں بھی خطرے میں پڑ چکا ہے، جو کبھی اس کا حقیقی گڑھ کہلاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور ایم کیو ایم کے چاہنے والے آج بھی امید کرتے ہیں کہ کسی طرح ایم کیو ایم دوبارہ وہی سیاسی مقام حاصل کرلے، جو کبھی ماضی میں تھا۔

الطاف حسین کی 22 اگست 2016ء کی تقریر کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کے پیش نظر کراچی کے علاقے عزیز آباد میں واقع جماعت کے مرکزی دفتر نائن زیرو کو سیل کر دیا گیا تھا۔ آج سے ٹھیک چار سال قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی ایک تقریر ملک کے ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی۔ اس تقریر کے الفاظ تو عدالتی حکم کی وجہ سے شائع نہیں کئے جا سکتے، تاہم اس تقریر کے بعد ہی یہ تاثر پیدا ہوا کہ اب ملک کے سیاسی منظر نامے میں الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم کی (فی الحال) کوئی جگہ نہیں رہی۔ اس تقریر کے بعد نہ صرف ریاست کی جانب سے الطاف حسین کی تقاریر نشر و شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی بلکہ خود اُن کی اُس ایم کیو ایم کے بھی ٹکڑے ہوگئے۔

ایم کیو ایم جو کسی زمانے میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہوتی تھی اور 1988ء کے بعد پاکستان کے وفاق میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کا ان کی حمایت کے بغیر قائم ہو جانا یا وجود برقرار رکھنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ تو کیا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو عروج بھی اُسی اسٹیبلشمنٹ نے عطا کیا تھا، جس پر لعن طعن نے انھیں اس حالیہ زوال سے دوچار کر رکھا ہے، یا پھر اس عروج و زوال میں کوئی حصہ شخصیت پرستی، ذاتی انا اور آمرانہ طرزِ سیاست کا بھی ہے، جس کے سحر سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین دونوں ہی کبھی آزاد دکھائی نہیں دیئے۔؟

اے پی ایم ایس او کا قیام:
17 ستمبر 1953ء کو اسی کراچی میں پیدا ہونے والے الطاف حسین نے ابتدائی تعلیم کمپری ہینسِو ہائی اسکول عزیز آباد سے مکمل کی۔ سنہ 1970-71ء کے درمیان الطاف حسین نے فوجی تربیت کا کورس کرنے کے لئے نیشنل سروس کیڈٹ اسکیم میں شمولیت اختیار کی، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس فوجی تربیت کے فوراً بعد وہ خود بھی پاکستانی فوج کی بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوگئے۔ 1974ء میں میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملنے کے بعد الطاف حسین نے اسلامیہ سائنس کالج سے مائیکرو بیالوجی میں بی ایس سی کیا، پھر کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی میں داخلہ لیا، جہاں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) قائم کی۔

کئی برس تک الطاف حسین اور ان کی نومولود تنظیم کو تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ کی مخالفت کا سامنا رہا۔ تاہم شہری سندھ کے احساسِ محرومی و مایوسی اور جواب میں انتہائی پرکشش نعروں کے سہارے طاقت اور تشدد پر مبنی مخالفت کے باوجود بھی تیزی سے مقبولیت حاصل کرتی یہ تنظیم شہر کے کئی تعلیمی اداروں میں جا پہنچی۔ الطاف حسین اس دوران کئی بار جمیعت کے براہ راست تشدد کا نشانہ بنے اور پھر جب تین فروری 1981ء کو اُن کی تنظیم کو تعلیمی اداروں سے بزور بےدخل کر دیا گیا تو دیگر ساتھیوں کے فیصلے کے تحت اس تنظیم نے شہری علاقوں میں سرگرمیوں کا آغاز کیا، جہاں اسے خوب مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی۔

لسانی سیاست کا دور
اے پی ایم ایس او ہو یا ایم کیو ایم، تعلیمی اداروں اور علاقوں میں جب دونوں تنظیموں کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوا تو محلّوں میں کارنر میٹنگز، جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک مظاہرہ بانی پاکستان کے مزار پر ہوا، جہاں الطاف حسین کو پاکستان کا قومی پرچم جلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں فوجی عدالت سے نو ماہ (اور شاید پانچ کوڑوں) کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ جب اربن سندھ میں لسانی سیاست شروع ہوئی اور مخالف جماعت اسلامی کو زبردست سیاسی نقصانات کا اندازہ ہوا تو دونوں تنظیموں میں ٹرف وار یعنی علاقہ گیری کا آغاز ہوا۔ اسی دوران سہراب گوٹھ کے علاقے میں منشیات فروشوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کی۔

سہراب گوٹھ پشتون اکثریتی آبادی کا علاقہ تھا اور اس آپریشن کے فوراً بعد مہاجر اکثریتی آبادیوں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں فائرنگ کے پراسرار واقعات ہوئے، جن میں درجنوں افراد مارے گئے اور اسے سہراب گوٹھ آپریشن کا ردعمل سمجھا گیا۔ اس کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں شدید لسانی کشیدگی پھیل گئی، جس کا الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم کو زبردست فائدہ ہوا اور ڈر اور خوف کی یہ فضا دراصل ایم کیو ایم کو مضبوط کرتی چلی گئی۔ مقبولیت ملی تو ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ منظّم کیا گیا۔

ایم کیو ایم کی انتخابی کامیابی
نشتر پارک جلسے کی کامیابی نے ہی الطاف حسین کے لئے 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی ایسی راہ ہموار کی، جس کا اندازہ تو شاید خود الطاف حسین اور اُن کی تنظیم کو بھی نہیں رہا ہوگا۔ ان انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے تقریباً تمام نشستیں حاصل کیں اور ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔ سنہ 1988ء میں جب بہت طویل عرصے کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم نہ صرف کراچی و حیدرآباد کی تمام نشستوں پر فاتح رہی بلکہ سندھ کے کئی دیگر شہری علاقوں میں بھی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ پھر حیدرآباد میں حیدر بخش جتوئی چوک پر ہونے والے جلسے میں جاتے ہوئے الطاف حسین کے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا واقعہ ہوا۔

اس واقعے میں حیدرآباد میں تقریباً 250 افراد ہلاک ہوئے اور بعد میں کراچی میں بھی فائرنگ کے واقعات میں تقریباً 150 کے لگ بھگ لوگ مارے گئے، مگر اس قتل عام کی وجوہات کبھی سامنے نہیں آسکیں۔ سنہ 1988ء کے انتخابات میں شہری سندھ پورا ایم کیو ایم اور دیہی سندھ مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا اور دونوں جماعتوں نے مل کر صوبائی اور وفاقی حکومتیں تشکیل دیں۔ مقبولیت کی اس انتہاء پر الطاف حسین کی ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے کراچی کے سیاسی، بلدیاتی، انتظامی اور مالی معاملات کی مالک بن گئی۔

ایم کیو ایم کون چلا رہا ہے؟
آج صورتحال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اس وقت کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے، جس میں سے ایک حصے کی قیادت آج بھی الطاف حسین لندن سے کر رہے ہیں جبکہ دوسرے حصے کو خالد مقبول صدیقی کراچی میں چلا رہے ہیں، تیسرا حصہ فاروق ستار کے پاس ہے، تنظیم سے الگ ہونے والوں نے مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پی ایس پی بنائی جبکہ ماضی کے کئی رہنماء خانہ نشین ہیں۔ الطاف حسین کے بار بار متنازعہ بیانات دینے پر پاکستانی حکومت ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ لندن میں بھی ان پر کئی مقدمات چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کا بھروسہ الطاف حسین سے ختم ہوچکا ہے۔ دوسرے حصے میں شامل ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی کارکنان وہ ہیں، جو خود کو الطاف حسین سے الگ کرچکے ہیں، لیکن نظریاتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کو آج بھی درست سمجھتے ہیں۔ اس وقت خالد مقبول صدیقی کی ایم کیو ایم، حکومت سے بہت زیادہ اختلافات ہونے کے باوجود وفاقی گورنمنٹ کا حصہ ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کا مستقبل
عوام میں مقبولیت کھونے کے باوجود اگرچہ ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی جماعت کو قائم رکھا ہوا ہے، لیکن الطاف حسین سے علیحدہ ہونے کے بعد کوئی دوسرا عوامی لیڈر نہ ہونے کے سبب اس سیاسی جماعت کا مستقبل آج ایک سوالیہ نشان ہے، جبکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی کراچی سے لاپروائی برتنے کی وجہ سے عوام ابھی بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوں بھی نظریاتی سیاست ملک میں روشن خیالی اور برداشت کو فروغ دیتی ہے اور سیاست کرنا شہریوں کا حق بھی ہے۔

اگر ایم کیو ایم اپنے مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو کم سے کم کراچی میں تو اس کے لئے ابھی بھی سیاسی میدان خالی ہے، لیکن اس کے لئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو ان تمام سرگرمیوں سے دوری اختیار کرنی ہوگی، جن کی وجہ سے ماضی میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی، جس میں بھتہ خوری، موبائل چھیننا، دکانیں بند کروانا اور آئے دن ہڑتالیں کروا کر شہریوں میں دہشت پھیلانا شامل ہیں۔ سیاست اگر ذاتی کے بجائے عوامی مفاد میں کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ ایم کیو ایم اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرلے گی، تاہم فی الحال ایم کیو ایم کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے، جو ایم کیو ایم کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
خبر کا کوڈ : 937532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کچھ بھی نہیں ہے۔
ہماری پیشکش