1
Monday 26 Jul 2021 22:48

عراق پر مکمل قبضے کیلئے اسٹریٹجک مذاکرات

عراق پر مکمل قبضے کیلئے اسٹریٹجک مذاکرات
تحریر: ہادی محمدی
 
امریکہ گذشتہ ایک عشرے سے مشرق وسطی خطے سے متعلق اسٹریٹجی کے بحران سے روبرو ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کی مدت صدارت سے ہی امریکی حکمران اور پالیسی میکرز مغربی ایشیا (مشرق وسطی) خطے کے بارے میں جامع حکمت عملی وضع کرنے کے سلسلے میں شدید حیرت اور سرگردانی کا شکار ہیں۔ اس دوران امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں میں ایک اور گرما گرم بحث بھی شروع ہو چکی ہے اور وہ یہ کہ آیا امریکہ بین الاقوامی یا ایک خاص خطے سے متعلق علاقائی پالیسیوں کے ضمن میں پانچ یا دس سالہ اسٹریٹجی وضع کرنے کے قابل ہے بھی سہی یا نہیں؟ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ نے وقتی تقاضوں کے تحت اقدامات انجام دیے ہیں اور طویل المیعاد حکمت عملی سے صرف نظر کیا گیا ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں عالمی سطح پر امریکہ کو درپیش چیلنجز اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مکمل طور پر یکطرفہ پالیسیوں اور شدید جارحانہ اقدامات کا سہارا لیا گیا۔ لیکن اس اسٹریٹجی کا الٹا نتیجہ برآمد ہوا اور دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ مخالف قوتیں ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ اب موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن ہر شعبے میں انتہائی پیچیدہ صورتحال سے روبرو ہیں۔ خارجہ سیاست کے میدان میں موجود اسٹریٹجک گرہیں کھولنے کیلئے ایک طرف انہیں روس اور چین کا مقابلہ کرنے کیلئے عالمی سطح پر میدان میں اترنا ہے جبکہ دوسری طرف مغربی ایشیا (مشرق وسطی) خطے میں بھی درپیش شدید چیلنجز اور مشکلات سے دست و گریبان ہونا ہے۔ اسی طرح ملک کے اندر بھی داخلہ سیاست کے میدان میں وہ بہت زیادہ بحرانوں اور مشکلات سے روبرو ہیں۔
 
جہاں تک مغربی ایشیا سے متعلق مسائل کا تعلق ہے تو ایک طرف امریکہ نہ تو گذشتہ عشروں جیسی سیاسی طاقت اور اثرورسوخ سے برخوردار ہے تاکہ اکیلے ہی درپیش چیلنجز اور مشکلات سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکے، اور دوسری طرف اس کے تقریباً تمام اتحادی ممالک بھی شدید اقتصادی اور سیاسی مشکلات کا شکار ہیں۔ مغربی ایشیا میں امریکہ کے اتحادی ممالک وسیع پیمانے پر مالی اخراجات کے باوجود مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہے ہیں جبکہ دوسری طرف خطے میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کے باعث شدید اسٹریٹجک اور سکیورٹی خطرات سے بھی روبرو ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خام تیل، گیس، قدرتی ذخائر اور جیوپولیٹیکس کے اعتبار سے مغربی ایشیا خطہ انتہائی درجہ اہمیت کا حامل ہے جس کے باعث امریکہ استعماری خو ہونے کے ناطے اس سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتا۔
 
مغربی ایشیا میں موجود وسیع قدرتی ذخائر کا لالچ امریکہ کو یہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک نے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا اعلان کیا تھا لیکن جب ہم حقائق کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی محدود فوجی موجودگی اب بھی برقرار ہے۔ البتہ انٹیلی جنس سرگرمیاں جاری رہنے کے قوی شواہد پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور عراق کے درمیان بھی عراق سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے بارے میں اسٹریٹجک مذاکرات جاری ہیں۔ یہ مذاکرات مصطفی الکاظمی کی سربراہی میں عراقی حکومت کے ساتھ واشنگٹن میں جاری ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے عراق کے حکومتی سیٹ اپ میں اپنے مہرے گھسا دیے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عراق میں فوجی موجودگی برقرار نہیں رکھ پا رہا۔
 
امریکہ خود کو عراقی عوام اور وطن سے مخلص سیاست دانوں کی جانب سے جلد از جلد فوجی انخلاء کے پرزور مطالبے کے مقابلے میں ناتوان محسوس کر رہا ہے۔ یہ مطالبہ خاص طور پر اس وقت زور پکڑ گیا جب بغداد میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف نبرد آزما عراقی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں شہید کر دیے گئے۔ اس المناک واقعے کے فوراً بعد عراقی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ایک بل منظور کیا جس میں امریکہ سے جلد از جلد عراق سے مکمل فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا گیا۔ یوں اب یہ مطالبہ قانونی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
 
امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی غرض سے کچھ نئے اقدامات انجام دیے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد خطے میں اپنی موجودگی کے اخراجات کو کم ترین سطح تک نیچے لانا اور خطے کی اقوام کا خون چوسنا اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار جاری رکھنا ہے۔ امریکہ کے یہ نئے اقدامات عراق، اردن اور سعودی عرب سے اپنی فورسز اور فوجی سازوسامان نئے مقامات پر منتقل کرنے پر مبنی ہے۔ ان تمام اقدامات کا اصل مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو تحفظ فراہم کرنا، تکفیری دہشت گرد عناصر کو دوبارہ زندہ کرنا اور عراق اور شام میں زیادہ سے زیادہ بدامنی پھیلانا ہے۔ امریکہ نے عراق اور لبنان میں نرم بغاوت کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ لیکن خطے میں امریکہ کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے اور اسے ان نئے حیلوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 945247
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش