0
Wednesday 4 Aug 2021 23:38

قائد شہید علامہ سید عارف الحسینی (ره)۔۔ ایک طلسم، ایک سحر

قائد شہید علامہ سید عارف الحسینی (ره)۔۔ ایک طلسم، ایک سحر
تحریر: ارشاد حسین ناصر
irshadhnasir@gmail.com

قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی المناک شہادت کو تینتیس برس ہوگئے، ان تینتیس برسوں میں جو نسل پیدا ہوئی، وہ اب جوانان ملت ہیں اور ملت کی باگ ڈور اب انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ اسی عمر کے لوگ قوم میں فعال ہیں اور مختلف اداروں، تنظیموں اور جماعتوں میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو قائد شہید کی شہادت کے المناک سانحہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے شہید کے ساتھ کام کیا ہے، نہ ان کی زیارت کی، نہ شہید کے قربت کے لمحوں سے مانوس ہوئے۔ اس نسل میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، علماء بھی ہیں طلبا بھی، شاعر بھی، دانشور بھی، لکھاری بھی اور سماجی تنظیموں، مذہبی انجمنوں سے تعلق رکھنے والے بھی۔ نوحہ خوان بھی اور ادب سے وابستہ اصناف سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی، اس کے باوجود کہ ان لوگوں کی پیدائش ہی شہید کی شہادت کے بعد ہوئی، آپ ان کا سروے کرکے دیکھ لیں، ان میں قائد شہید سے محبت اور عقیدت بدرجہ اتم موجود ہوگی۔

یہ لوگ شہید کو غائبانہ طور پر شناخت کرتے ہیں، دیکھا نہیں مگر ان کی شخصیت کا سحر ان پہ بھی طاری ہوتا ہے اور جو لوگ قائد شہید سے ان کی زندگی میں مل چکے، ان کی قربت سے فیض یاب ہوئے، ان کی دلنشیں صدا کو ان کے روبرو بیٹھ کر سنا، ان کی زیارت کرتے ہوئے ان کی طلسماتی کشش کو محسوس کیا، ان کا کیا حال ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ پانچ اگست کو کسی بھی ایسے فرد کیساتھ کچھ لمحات گزار کر دیکھیں، یہ روز ان کیلئے ایک درد ناک اور تڑپا دینے والا دن ہوتا ہے، جب شہید قائد کی یادوں کو تازہ کیا جاتا ہے، جب ان کی یادوں کے چراغ روشن کئے جاتے ہیں، جب ان کی دلپذیر شخصیت اور سحر انگیز آواز کی کشش سے عاشقان شہید جذب و مستی اور سرور و کیف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

شہید کیسی سحر انگیز شخصیت تھے کہ فقط ساڑھے چار سال میں پاکستان کے گوشہ و کنار میں اپنے عشاق کا وہ کاروان تشکیل دیا، جو ان سے ایسا والہانہ محبت کرتے تھے کہ انہیں ہر دم ان کے حکم کا انتظار رہتا کہ اس مسئلہ میں شہید کا کیا حکم ہے، اس حوالے سے شہید کی کیا صدا آئی ہے، اس ایشو پر شہید کی کیا رائے ہے، سب ہ جانتے ہیں کہ وہ ایک دور دراز پہاڑی گاؤں پیواڑ (پاراچنار) سے تعلق رکھتے تھے، مگر ان کا اثر و رسوخ پاکستان اور اس سے بھی باہر تک تھا، اسی لئے وہ اندرون و بیرون ملک میں یکساں طور پر محبوب تھے، ایسے محبوب جن سے ہر ایک کو امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، جن سے توقعات پورا ہونے، مسائل حل ہونے، مشکلات قابو میں آنے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، جو یقین کا محور اور اعتماد کا مرکز ہوتا ہے۔

قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) سے لوگوں کی والہانہ محبت اور عاشقانہ لگاؤ کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں ان کی فکر و نظر، ان کا نظریہ و سوچ، ان کے خیالات، ان کے افکار، ان کا کردار، ان کی گفتار، ان کی بت شکن امام خمینی اور انقلاب اسلامی سے نظریاتی وابستگی، ان کی بلند سوچ، ان کی ارفع اپروچ، ان کی اعلیٰ فکر، یہ سب خصوصیات اپنی جگہ مسلم تھیں، مگر سب سے زیادہ جس وجہ سے وہ لوگوں میں محبوب ہوئے اور لوگ ان کے سحر میں مبتلا ہوئے، ان کا عمل و کردار تھا، وہ کردار کے دھنی تھے، وہ عمل کے بندے تھے، وہ زبانی کلامی بڑھکیں لگانے تک محدود نہیں تھے، وہ جو بولتے تھے، زبان صدق سے بولتے تھے، وہ جو کہتے تھے اسے پورا کرتے تھے، وہ جو دعوت الی اللہ دیتے تھے، اس پر عامل تھے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا کوئی ایک کلمہ بھی ایسا نہیں تھا، جو ان کے عمل سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ لہذا زبان صدق سے نکلے الفاظ لوگ جب سماعت فرماتے تھے تو ان پر گہرا اثر چھوڑتے تھے، لوگ ان کی زبان سے نکلے الفاظ کو اپنے دل میں اتار لیتے تھے۔

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اگر لوگ ان سے اس قدر محبت و عقیدت رکھتے ہیں تو انہیں ساڑھے چار سال میں سے تین برس گذر جانے کے بعد یہ کیوں کہنا پڑا کہ میں نے لوگوں پر یہ ثابت کیا ہے کہ میں شیعہ ہوں، تو اس حوالے سے عرض ہے کہ انہیں یہ وصف بھی ورثہ میں ملا تھا کہ انکے جد حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) جیسی ہستی سے لوگوں کی تمام تر محبت و عقیدت کے باوجود اور دعویٰ محبت کے ہوتے ہوئے یہ کیفیت تھی کہ آپ ؑ کے ساتھ شیخین سے حق کیلئے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے، اگر مطلوبہ تعداد میں لوگ ساتھ دینے والے ہوتے تو علی ؑ کو اتنا وقت سکوت نہ کرنا پڑتا۔ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ شہید عارف الحسینی کو جو داخلی مشکلات، قیادت کے مقابلے میں قیادت، ان کے خلاف وسیع پیمانے پر پراپیگنڈا، ان کی راہ میں مشکلات و مسائل کا جنم اور راستے میں دیواریں کھڑی کرنا دراصل حق کے مقابل شیطانی قوتوں کی سازشیں تھیں، جو ہر دور میں حق کیلئے میدان میں اترنے والوں کو جھیلنا پڑتی ہیں۔

شہید قائد نے بھی ان سازشوں کا مقابلہ کیا اور اپنے ہدف و مقصد پر ڈٹ کر ملت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا۔ انہوں نے اتنے مختصر عرصہ میں جتنا کام کیا اور اپنی دعاؤں میں طلب کردہ آرزوئے شہادت کو پایا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ممکن ہے کوئی معرفت نہ رکھنے والا اسے غلو قرار دے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک معجزاتی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں ایسے ایسے کام کئے کہ جن کا ہونا ممکن نہیں تھا، ہم نے بائیس سال قبل پاراچنار، علاقہ بنگش، پشاور، اسلام آباد سمیت کئی ایک اہم شہروں کی برجستہ شخصیات اور شہید سے قربت رکھنے والے اہم افراد کے ویڈیوز انٹرویوز کئے تھے، جن میں بہت سے واقعات لوگوں نے بیان کئے، جو حیران کر دینے والے تھے۔

ہمارے لئے امام خمینی (رہ) اور شہید عارف الحسینی (رہ) دونوں ایسی شخصیات ہیں، جن کی آنکھیں بند کرکے اطاعت کرنا فخر محسوس کرتے تھے، لہذا شہید عارف الحسینی نے امام خمینی کے بارے جو فرمایا، وہ بھی حجت ہے اور امام خمینی نے قائد شہید کے بارے جو فرمایا، وہ بھی حجت ہے۔ امام خمینی نے شہید قائد کو اپنے پیغام میں "فرزند راستین سید الشہداء" فرمایا۔ اسی طرح تاکید فرمائی کہ ان کے افکار کو زندہ رکھیں، اب ہم پر فرض ہے کہ شہید کے افکار کو زندہ رکھیں، شہید کے افکار سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔ شہید کے افکار بہت سادہ اور سلیس زبان میں ان کے لیکچرز، مجالس، خطابات، گفتگو، دروس پر مشتمل کتب سے ہی بہترین انداز میں میسر ہیں، جن سے استفادہ کیا جانا چاہیئے۔ اپنی اجتماعی زندگی میں اگر کسی کو رہنماء اور معیار حق ماننا ہے تو وہ شہید قائد کے افکار اور امام خمینی کا کردار ہیں۔ یہی شہید قائد کی آرزو اور تمنا تھی اور اسی مقصد کیلئے انہوں نے سرزمین پشاور پر اپنی جان نچھاور کی۔

وہ افکار امام خمینی کی روشنی میں اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہے تھے، جو استعمار اور  اس کے گماشتوں کو گوارا نہ تھا، اس لئے کہ اس سے قبل پاکستان کے ہمسائے ایران میں اسے شکست فاش ہوچکی تھی، اب پاکستان میں انقلاب کے شعار اور تحریک بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ قرآن و سنت کانفرنس مینار پاکستان کے بعد تو اس کے اوسان خطا ہوگئے تھے کہ شہید قائد نے ایک ایسا منشور پیش کیا، جو اس ملک کو مسائل سے نکال سکتا تھا، لہذا استعمار نے انہیں راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا اور وقت کے آمر نے عالمی استعمار کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے اجرتی قاتلوں کے گروہ کے ذریعے اس عظیم ہستی کو ہم سے چھین لیا۔ شہید قائد کے قتل، مقدمہ قتل کے فیصلے اور اس کے بعد اپیلوں کے حوالے سے بہت سے تلخ حقائق شائد کبھی منظر عام پر لائے جا سکیں، اگر کسی کو توفیق ہوئی تو یہ ایک کام ہے جس کو ہونا چاہیئے۔ شہید کے قتل اور مقدمہ قتل سے متعلق بہت سے تلخ حقائق ابھی تک بعض لوگوں کے سینوں میں دفن ہیں، اس پر لب کشائی ایک قرض ہے، جسے ادا ہونا چاہیئے۔ بقول محسن نقوی
ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو! یہ کام کس کا ہے
خبر کا کوڈ : 946851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش