4
Thursday 12 Aug 2021 15:24

اسلام کی عدم حاکمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے

اسلام کی عدم حاکمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے
تحریر: محمد سلمان مہدی

پیشگی عرض خدمت ہے کہ یہ تحریر حالات حاضرہ کی مناسبت سے ہے۔ خاص فوکس پاکستان ہے اور یہاں جیسے حالات سے مطابقت رکھنے والے دنیا کے دیگر علاقے بھی اس میں شامل سمجھے جا سکتے ہیں۔ البتہ موجودہ زمینی حقائق سے قبل سانحہ کربلا سے متعلق محض چند تعارفی وضاحتی جملوں کو تحمل فرمائیں۔ یاد رہے کہ ان الدین عنداللہ الاسلام، سورہ آل عمران کی یہ آیت قرآنی کم سے کم ہر مسلمان کے لیے قاطع دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر جانبدار نہیں ہے، اللہ نے دین اسلام کو اون کیا ہے۔ اس 19 ویں آیت کے علاوہ اسی سورہ آل عمران کی 85 ویں آیت میں مزید صراحت کے ساتھ واضح کر دیا گیا کہ جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین اختیار کرے گا تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا فرد آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ عراق کا شہر کربلا درحقیقت بنیادی طور پر اسلامی تاریخ اور اسلامی شخصیات سے متعلق ایک واقعہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ یعنی بنو امیہ کے مسلط کردہ حاکم یزید بن معاویہ کے حکم پر یزید کے ماتحت صوبائی حاکم عبیداللہ ابن زیاد کی طرف سے عمر ابن سعد اور شمر ذی الجوشن کی قیادت میں یزیدی اموی فوجی لشکر نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نواسے امام حسین علیہ السلام کو یزید کی بیعت پر مجبور کرنے کے لیے کربلا میں گھیر لیا۔  امام حسین (ع) کی قیادت میں ان کے کم و بیش 72 حامی و مددگاروں نے یزید کو جائز حکمران ماننے سے انکار کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں لڑے تاآنکہ جام شہادت نوش کیا۔ اس سانحہ سے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا، اس کی عبرتیں بھی کہی اور لکھی جا چکیں۔ لیکن ہمارا موضوع آج کے حالات ہیں اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دین کے نام پر جو بھی افراد فعالیت رکھتے ہیں، ان میں مقتدر اور حاکم افراد خود دین کے آگے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے ذاتی و گروہی و خاندانی مفادات حاصل کر رہے ہیں۔

اسلام، کربلا اور آج کے مسلمانوں کے کردار پر توجہ کریں۔ اسی نکتے کو ایک اور انداز سے دیکھیں کہ اسلام کے پیروکاروں اور خاص طور پر یزیدی حکومت کی مخالفت کرنے والے مسلمان عمل سے بھی اسلامی اور حسینی ہیں کہ نہیں۔ یوں تو مسلمان کئی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہیں، لیکن بنیادی طور پر سارے گروہوں کے اندر بھی بنیادی طور پر دو گروہ ہیں۔ ہر گروہ کے اندر ایک گروہ جو پورے گروہ کا مشکل سے دو چار فیصد بنتا ہو، یہ بڑے مزے کرتا ہے۔ یہ بات کسی ایک فرقے یا مسلک یا ایک دینی سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہے، مجموعی طور پر سبھی اس حمام میں ننگے ہیں۔ ارد گرد نگاہ کریں اور اسلام کے نام پر کوئی بھی کام کرنے والوں کا جائزہ لیں۔ پہلے ان کی سماجی و مالی حیثیت کیا ہوا کرتی تھی اور انتہائی مختصر عرصے میں بتدریج وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اس پر بھی غور فرمائیں کہ یہ لوگ تنظیم، جماعت، پارٹی، گروہ یا کسی بھی عنوان سے کوئی ادارہ، فورم، پلیٹ فارم بناتے کیوں ہیں یا اس کا حصہ بنتے کیوں ہیں!؟ کوئی بھی شخص اگر کسی پہلے سے قائم تنظیم، جماعت یا ادارہ میں شامل ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے نصب العین، اہداف، مقاصد سے متفق ہے اور ویسا ہی چاہتا ہے جیسا کہ تنظیم، جماعت یا ادارہ؟ اور اگر کوئی شخص نئی جماعت، تنظیم یا ادارہ بنا کر لوگوں کو جمع کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ تحریری طور بھی کوئی دستور، نصب العین، اہداف مقاصد پیش کرکے ایسا کرتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں سب کچھ واضح موجود ہوتا ہے۔

اسلام کے نام پر بنائی گئی تنظیموں، جماعتوں، اداروں کی چیدہ چیدہ نامور شخصیات سے متعلق معلومات کریں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر دین سے بلحاظ مال و ثروت، مقام و منصب بہت ہی زیادہ فیضیاب ہوئے۔ اہداف کے حصول سے متعلق اپ ڈیٹ لیں تو پتہ چلے گا کہ ایسوں کے ہونے سے پہلے کے حالات نسبتاً کم خراب ہوا کرتے تھے۔ آخر میں پتہ چلتا ہے کہ قوم کے حالات تو جوں کے توں، چند شخصیات اگلی نسلوں تک کے حالات سنوارنے کا وہ ہدف باآسانی حاصل کر گئیں کہ جو شاید جائز اسلامی طریقوں سے ان کے لیے اگلی نسلوں تک بھی ممکن نہ ہوتا اور ایسی تنظیموں، گروہوں، ٹولوں، اداروں کے تحریری مقاصد اور اہداف پر یقین کرنے والے سینکڑوں، ہزاروں افراد کو کیا ملتا ہے!؟ ممکن ہے کہ چند افراد ان الہیٰ اہداف کے لیے جام شہادت نوش کر جائیں، بہت سے قید و بند کی صعوبتیں بھی سہیں۔ بہت سوں کو دیگر بہت سی مشکلات جھیلنا پڑ جائیں۔ ممکن ہے کہ بعض افراد کہیں کہ وہ مراعات یافتہ طبقہ بھی قید و بند کی صعوبت سہتا ہے، لیکن مکمل حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے تو ہمیشہ ”اجر عظیم“ بھی ساتھ چپکا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دائمی سہولیات ہوتی ہیں۔ لیکن شہید کے وارث کی حیثیت بھکاری جیسی ہو جاتی ہے، محتاج، ذلیل۔ کبھی کبھار کی فوٹو سیشن تجلیل زمینی حقیقت کو منعکس نہیں کرتی۔ یہ سب کچھ اسی دائمی سہولت یافتہ طبقے کو مزید خوب سے خوب تر، مالدار تر کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ قیدی کا خاندان بھی شہید کے خاندان ہی کی طرح محتاج ہوتا ہے۔ آزادی کے لیے مہنگا وکیل درکار ہے۔ قیدی قید میں ہے کیوں!؟ اسلام سے محبت، یزیدیت سے نفرت کی سزا کا ایک طریقہ اسے قید کرنا ہے۔ لیکن اپنوں کی نظر میں بھی وہ قیدی نہ تو محترم ہے، نہ ہی معتبر۔ اس کا دکھ، اس کا مسئلہ بس اس کا، اس کے بیوی بچوں، اولاد کا مسئلہ اور مشکل ہوتی ہے۔

اور اب تو یہ بھی ٹام اینڈ جیری والا معاملہ بن چکا ہے کہ کہیں سے اشارہ ہوگا۔ یکایک قیدی یاد آجائیں گے اور پھر ہم، آپ سبھی زندہ باد مردہ باد کرنے کے لیے بلائے جائیں گے۔ اس وقت سب کی حساسیت آسمان تلک بلند ہو جاتی ہے۔ قیدیوں میں سے چند قیدی کسی ڈیل کے تحت چھوڑ دیئے جاتے ہیں یا پھر نئے سرے سے مقدمات کو عدالتوں میں بھگتنے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ زیادہ تر دیکھا یہ گیا ہے کہ قیدی ولن ہی رہتا ہے، اس کی مشکل آزادی کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔ اس کی فیملی لائف کی تو ایسی کی تیسی ہوتی ہی ہوتی ہے، سماجی لحاظ سے بھی وہ امریش پوری بنا دیا جاتا ہے۔ ٹھینگا ملازمت۔ اس کے لیے مشکلات کی لائف ٹائم گارنٹی اور ان کے نام پر اگلوں کے لیے فوائد اور سہولیات کی لائف ٹائم گارنٹی۔ نہیں معلوم شہید بے چارہ کہاں زندہ ہوتا ہے۔ کم سے کم وہ اپنے زیر کفالت افراد کے لیے تو واقعی مرچکا ہوتا ہے، کیونکہ ان کی تو ایسی کی تیسی ہو ہی جاتی ہے، تاوقتیکہ بچے جوان ہوکر کسی قابل بنیں اور وہ بھی تب کہ اچھی تعلیمی سہولیات کو افورڈ کرسکیں۔ معاملہ محض شہید اور قیدی تک محدود نہیں ہے۔ خالص، مخلص افراد کی بہت ہی زبردست انداز میں تحقیر، توہین، تذلیل کے ماحول کی بھی لائف ٹائم گارنٹی رہتی ہے۔ اتنے مہا کاریگر موجود ہیں کہ اگلے کو ہوا تک نہیں لگنے دیتے اور اس کا کام تمام کرچکے ہوتے ہیں اور بعض افراد کے خلاف یہ کھلے بلیک میلر ہوا کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ اگلے بہت منظم انداز میں خود کو ایک دوسرے کا مخالف ظاہر کرکے وار کرتے ہیں، لیکن درپردہ وہ سب ایک ہی ہوتے ہیں اور انکے سیلزمین بھی شکار کے ارد گرد اسائنمنٹ پر مقرر ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت زبردست انداز سے ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ کسی شعبے میں گھسنا ہے تو ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ نااہل و نالائق لوگ خود یا ایسوں کو یہ مہاکاریگر دین کے نام پر کسی شعبے کی بڑی شخصیت بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اس شعبے میں پہلے سے اچھے لوگ موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ ان اچھے لوگوں کے لیے بھی سوچ چکے ہوتے ہیں، یعنی ان کو بھی اپنا ماتحت بنا کر رکھنا۔ اس کے لیے شروع میں مشکلات کا رونا روکر اپنے پروجیکٹ میں آنے پر ناٹک کرتے ہیں، سیلز مین جوان بھی لابنگ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یعنی ایک منظم ٹریپ! اب آپ سوچیں کہ ایک بندہ پروفیشنل کیریئرسٹ ہو، وہ دین کے نام پر ایسوں کے چکر میں آجائے۔ اپنی اچھی بھلی نوکری چھوڑ کر ان کا نوکر بن جائے، گویا ایسوں کے پاس ان کے باپ کا پیسہ ہے اور اگلا ان کا ذاتی غلام۔ آخر میں پتہ چلتا ہے کہ اگلا دین کے نام پر وہ مقام و مرتبہ بھی کھوچکا ہوتا ہے، جو ایسے مہاکاریگروں سے ملاقات سے پہلے اس نے خود اپنی ذاتی محنت سے حاصل کیا ہوتا ہے اور جو کچھ اس نے خداداد ذاتی صلاحیت سے حاصل کیا ہوتا، وہی اس کا مقام و منصب ہوتا کہ جو اسے معاشرے میں ایک اچھا مقام اور حیثیت دے چکا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ اس کی شہرت اچھی ہوتی ہے، یہ اس خداداد صلاحیت کے حامل فرد کے تو اتنے کام نہیں آتی، جتنا  فائدہ یہ مہاکاریگر لوگ اٹھا لیتے ہیں۔ آپ ارد گرد دیکھیں کہ ایسا ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے۔ ہماری آپکی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔

کہاں اسلام کی کربلائی فکر اور کہاں یہ ٹھگ! بلکہ گدھ بھی زندہ کو نہیں مارتا بلکہ پہلے مردہ کو کھاتا ہے، یہ گدھ سے بدتر ٹولہ ہے کیونکہ یہ زندہ کا شکار کرکے اسے جیتے جی مار دیتا ہے۔ اس ٹولے کی نہ ختم ہونے والی بھوک، اس کی ہوس، اس کے اندر کا وحشی پن، نام نہاد دین کی مقدس نقاب تلے رہتا ہے اور یہ ٹولہ مل جل کر ایک دوسرے کے دنیاوی مفادات کا محافظ رہتا ہے۔ پاکستان میں دین کی عدم حاکمیت کے دیگر اسباب بھی ہیں، لیکن یہ والا سبب جس کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ سب سے زیادہ نقصان دہ سبب ہے، کیونکہ دین کا نام لینے والے، یزید کی لفظی مخالفت کرنے والوں میں یہ ٹولہ خود عمل سے یزیدی ہے تو یہ کربلائی فکر کے لیے کسی حسینی رول ماڈل کو کیسے آگے آنے دے سکتا ہے۔؟ جو اب تک نہیں سمجھے، وہ سمجھ لیں کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دین میں بلال حبشی ؓ ہو کر بھی ہمارا رول ماڈل ہوسکتا ہے، لیکن رسول اکرم (ص) کا سگا چچا ابو لہب کبھی بھی ہمارے لیے نمونہ عمل نہیں قرار پاسکتا۔ ہم جس امام حسین علیہ السلام کی یاد محرم کے ایام میں منا رہے ہیں، اس کے لشکر کا سیاہ فام جون ؓ روز قیامت جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا فخر قرار پائے گا لیکن یہ ٹولہ کہاں ہوگا، یہ سوچیں۔ جس اسلام نے ایک کنیز کو بی بی فضہ جیسا اعلیٰ و ارفع مقام دیا کہ سورہ دہر میں وہ بھی آیات قرآنی کا مصداق قرار پائیں۔ جس خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے سلمان فارسی ؓ اور ابوذر غفاری ؓ کو اہل بیت میں سے قرار دیا ہو، اس کا دین اسلام حق رکھتا ہے کہ وہ اس پوری کائنات پر حکمرانی کرے۔

کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی قیادت و رہبری میں اپنے وقت کے بہترین اور کامل ترین، پاکیزہ ترین ہستیوں نے عمل سے بتایا کہ اسلام کے حقیقی پیروکار بس وہی ہیں۔ ہم جس اسلام کے پیروکار ہیں، اس میں خلیفہ وقت کو عوام کے سامنے اپنے لباس سے متعلق سوالات کا بھی جواب دینا پڑتا تھا، تو یہ لوگ کس کھیت کی مولی ہیں۔ ان سب سے بھی حساب لیا جائیگا۔ یقیناً ایک طرف یہ ٹولہ ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس تصویر کا بس یہی ایک رخ ہے، بلکہ اس صورتحال کا دوسرا رخ اجلا ہے، صاف شفاف، بے داغ۔ وہ عام انسان جن کی اکثریت ان سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود امام حسین علیہ السلام اور دیگر شہدائے کربلا سے بے لوث محبت رکھتی ہے۔ سلام ہو امام حسین علیہ السلام کی یاد منانے والے ان عزاداران حسینی پر کہ جو پورا سال خود اپنا کماتے ہیں اور محرم صفر میں اپنی کمائی سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ عام عزاداران حسینی فنڈڈ لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ وہ عظیم فنڈر ہیں کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے نام پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں، کیونکہ انہیں کسی ایف اے ٹی ایف کا خوف نہیں ہے۔ ان کے پاس اپنی کمائی کا شفاف حساب کتاب ہوتا ہے۔ یہ جیسے بھی ہیں، انہیں اللھم ارزقنا شفاعۃ الحسین ؑ پر کامل یقین ہے۔ ان کی بھوک، ان کی خواہشات محدود ہیں۔ یہ راتوں رات بنگلے گاڑیوں کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے والے مرحلے سے ڈرتے ہیں، یہ ڈرپوک لوگ ہیں اور خدا ہم سب کو اپنے آگے یونہی ڈرپوک رکھے کہ ہم اس کی معصیت سے باز رہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس کائنات میں عدالت و آزادی کا خدا کہ جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں اور جسے خاص اسم اللہ سے پکارا جاتا ہے، وہ اللہ سریع الحساب بھی ہے تو شدید العقاب بھی۔ یہی وجہ ہے کہ شہدائے کربلا کا غم وہ یہ سوچ کر ہی مناتے ہیں کہ:
ہر دور ظلم و جور میں باطل کے سامنے
اعلان جنگ و طبل وغا ماتم حسین ؑ
خبر کا کوڈ : 948194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش