1
Sunday 19 Sep 2021 18:13

افغانستان میں امریکہ کا بلیک باکس (حصہ دوم)

افغانستان میں امریکہ کا بلیک باکس (حصہ دوم)
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
2)۔ افغانستان کے سیاسی میدان میں ایران اس خطے میں ایک خاص طاقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے درمیان ایران وہ واحد ملک ہے جو بے نظیر اقتدار کا مالک ہے۔ اسی طرح ایران گذشتہ چار عشروں سے عالمی استکباری طاقتوں کی نت نئی سازشوں کا کامیابی سے ڈٹ کر مقابلہ کرتا آیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ گذشتہ بیس برس کے دوران طالبان نے ایران کی توجہ حاصل کرنے کیلئے امام خمینی رح کے افکار سے متاثر ہونے کا دعوی کیا ہے اور اس سلسلے میں ایسی حکومت تشکیل دینے کو اپنا نصب العین بنایا ہے جو عالمی استکباری طاقتوں کے اثرورسوخ سے آزاد ہو اور اندرونی سطح پر بھی کرپشن کی لعنت سے پاک ہو۔ طالبان کی نظر میں ایران کے افغانستان سے بعض جائز مفادات وابستہ ہیں۔
 
افغانستان سے وابستہ ایران کے ان جائز مفادات میں سرحدوں کی حفاظت، افغانستان کی سرزمین کو اپنے خلاف استعمال ہونے سے روکنا، افغانستان میں مقیم اہل تشیع سمیت تمام مذاہب کے پیروکاروں کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانا اور افغانستان سے اقتصادی تعلقات کا فروغ خاص طور پر ہیرمند کے پانی کے بارے میں افغان حکومت سے تعاون، شامل ہیں۔ افغانستان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان امور کو اسلامی جمہوریہ ایران کا جائز حق سمجھتی ہے اور خود کو ایران کے یہ مطالبات تسلیم کرنے کا پابند سمجھتی ہے۔
3)۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے اس نکتے سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان خون کی ندی جاری ہے۔ طالبان کا دعوی ہے کہ امریکہ نے ان کے کم از کم 60 ہزار افراد کو قتل کیا ہے جبکہ دسیوں ہزار افراد کو زخمی بھی کیا ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکام کا دعوی ہے کہ پینٹاگون کے کم از کم تین ہزار فوجی طالبان سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ اسی طرح تقریباً 6 ہزار امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہونے کے قابل نہیں ہے۔ ہمارا اصرار نہیں کہ سو فیصد ایسا ہی ہے لیکن امریکی حکام اور طالبان میں شامل رہنماوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات قابل مشاہدہ اور یقینی ہے۔ ان دونوں کے درمیان خون کی لکیر باقی رہے گی اور قوی امکان ہے کہ موثر بھی واقع ہو گی۔ بعض حلقے اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کہ امریکہ 2007ء میں ہی بند گلی سے روبرو ہو چکا تھا لہذا جب اس نے 2018ء میں طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا اور تین سال کے اندر اندر ان مذاکرات کو ایک منطقی نتیجے تک پہنچایا تو واقعی امریکہ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
 
اسی طرح اب جب امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلاء انجام دیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ امریکہ واقعی افغانستان میں مزید رہنے پر قادر نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ نے ایک بہتر صورتحال تک پہنچنے کیلئے منصوبہ بندی کر رکھی ہو اور مذکورہ بالا تمام اقدامات اپنے قومی مفادات کے حصول کیلئے اس منصوبہ بندی کے تحت انجام دیے ہوں۔ مشہور ہو جانے والی بات کے برعکس، نہ تو مغربی ایشیا خطہ گذشتہ چند عشروں کے دوران مادی اور معنوی لحاظ سے اپنی اسٹریٹجک اہمیت کھو چکا ہے اور نہ ہی دنیا میں اس خطے کا کوئی متبادل پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم گذشتہ چار پانچ عشروں میں مشاہدہ کر چکے ہیں، مشرقی ایشیا کا خطہ امریکہ کیلئے مخصوص خطہ نہیں بن سکتا لہذا امریکی حکام کا یہ دعوی درست نہیں کہ انہوں نے مشرق کی جانب توجہ کے باعث مغربی ایشیا میں فوجی موجودگی کم کی ہے۔
 
بعض سیاسی رہنماوں کی جانب سے یہ دعوی کیا جانا کہ مغربی ایشیا میں انقلابی اور مزاحمتی سرگرمیوں نے اس خطے کو "جلی ہوئی زمین" میں تبدیل کر دیا ہے، درست نہیں ہے۔ یہ اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی اہم خطہ نہ صرف کم اہمیت نہیں ہوا بلکہ ان انقلابی اور مزاحمتی سرگرمیوں نے اس خطے کے ممالک کو مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ اسی طرح خطے کے ممالک میں عوامی حمایت سے برخوردار حکومتیں سامنے آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ایشیا مستقبل کے عالمی نظام میں ایک اہم اور موثر خطہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف بعض افراد افغانستان میں امریکہ کی شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکہ کے بی پلان کی بات کرتے ہیں اور طالبان سے اس کے خفیہ معاہدے کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم امریکہ اور طالبان میں ہر قسم کے خفیہ معاہدے کی نفی نہیں کرنا چاہتے لیکن ایسے دعوے کیلئے یقینی معلومات کی ضرورت ہے۔
 
اس وقت خود امریکہ میں افغانستان سے فوجی انخلاء پر ہنگامہ کیوں برپا ہے؟ کیا امریکہ کی ایک خاص اسٹریٹجک پلاننگ کی ناکامی اور ایک نئے بڑے خطرے کی باتیں نہیں ہو رہیں؟ پس اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ کس خطرے اور کس اسٹریٹجک پلاننگ کی ناکامی کی بات کر رہا ہے؟ یہ پلاننگ یقیناً PNAC یا Project for a New American Century تھی جسے پال ولفوویٹز اور آسکو سمیت نامور امریکی تھنک ٹینکس نے 1992ء میں پیش کیا اور 2000 اور 2010 کی دہائیوں میں اسی کے مطابق پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد امریکہ کس خطرے سے پریشان ہے؟ بے شک یہ خطرہ ایران کا کئی گنا زیادہ طاقتور ہو جانا اور ایران کے مشرق میں ایک نئی مزاحمتی طاقت نمودار ہو جانا ہے۔ پہاڑی سلسلوں، صحراوں اور دریاوں کا آپس میں متصل ہو جانا ہے۔ ان میں سے ہر ایک افغانستان میں امریکہ کیلئے ایک بلیک باکس ہے۔
خبر کا کوڈ : 954647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش