0
Sunday 26 Sep 2021 12:30

خطے کے زمینی حقائق اور عمران خان کا موقف

خطے کے زمینی حقائق اور عمران خان کا موقف
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ خطاب کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا بھی اس خطاب کو جامع کہہ رہا کہ جس میں عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے اصولی موقف کی بہترین انداز میں ترجمانی کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے افغانستان کی صورتحال، مسئلہ کشمیر، بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اسلامو فوبیا کے بھیانک اثرات، منی لانڈرنگ اور کرونا وبا جیسے اہم معاملات پر اقوام متحدہ سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ افغانستان کی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے وزیراعظم نے عالمی برادری خاص طور امریکا کو افغان طالبان سے مل کر خطے میں دیرپا امن کی کوششیں آگے بڑھانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے دنیا سے کشمیر کے مسئلہ کو منصفانہ بنیادوں پر حل کرنے کی اپیل کی، بھارت کے جنگی عزائم کی نشاندہی کی اور خبردار کیا کہ عالمی برادی نے آنکھیں نہ کھولیں تو خطے کو ایک اور جنگ کا سامنا ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم نے بھارت سے پُرامن تعلقات کی خواہش کو دوہراتے ہوئے واضح کیا کہ دونوں ملکوں میں بہتر روابط کیلئے بھارتی حکومت کو آگے بڑھنا ہوگا۔ جنوب مغربی ایشیاء میں افغانستان اور کشمیر کے حساس مسائل اور بھارت کا اندرونی و بیرونی سطح پر جارحانہ رویہ دراصل اس خطے ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کی سلامتی کیلئے سخت خطرات سے کم نہیں۔ اسی طرح بڑے ممالک کی طرف سے اسلامو فوبیا جیسے گھبیر چیلنج، ترقی پذیر دنیا کو درپیش منی لانڈرنگ جیسے ناسور اور آزادی پسند اقوام کو سیاسی حقوق دلانے میں غفلت کا رویہ عالمی برادری کے محفوظ مستقبل کیلئے خطرہ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب نے علاقائی و عالمی سطح پر موجود مذکورہ خطرات کا احاطہ کیا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں افغانستان کے معاملے پر دیوار پر لکھی حقیقت سے آنکھیں بند کرنا کسی طرح بھی مناسب رویہ نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ افغان طالبان پوری طاقت سے کابل پر غلبہ پا چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان طالبان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان کے امن و استحکام کیلئے کوششیں کی جائیں۔

افغانستان میں 1989ء سے اب تک کی صورتحال میں عالمی برادری بالخصوص امریکہ نے جو کردار ادا کیا، وقت آگیا ہے کہ اس پر نظرثانی کی جائے۔ ماضی میں مطلب نکل جانے کے بعد خطے کے حالات سے لاپرواہ ہونے جیسی خود غرض پالیسی کی وجہ سے افغانستان دہشتگردوں کا گڑھ بن گیا۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی بجائے افغان عوام کی ہر طرح سے مدد و معاونت کی جائے، تاکہ یہ ملک کسی بھی طرح سے امن دشمن عناصر کی پناہ گاہ نہ بن سکے۔ افغانستان کے علاوہ جنوبی ایشیاء میں 70 سال سے منصفانہ حل کا انتظار کرنیوالا مسئلہ کشمیر بھی عالمی برادری کی فوری توجہ کا منتظر ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے تقسیم ہند کے بعد سے آج کے دن تک کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی راہ میں روڑے اٹکائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ کی متفقہ قرادادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق طے کرنے کی تمام کوششیں بھارت کے منفی بلکہ شرانگیز رویئے کی وجہ سے ناکامی سے دو چار ہوتی رہی ہیں۔

اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں گذشتہ 6 سال سے برسراقتدار بی جے پی نے بھارتی آئین پر حملہ آور ہوکر کشمیر کے مسئلے کو انتہائی خطرناک شکل میں تبدیل کر ڈالا ہے۔ مودی حکومت نے داخلی سیاست میں ہندوراشٹر نظریئے پر عمل کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں سمیت تمام غیر ہندو اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ مودی نے اسلامو فوبیا جیسے خطرناک نظریئے کو عملی طور پر سامنے لا کر بھارتی مسلمانوں کو خوف کی بدترین کیفیت کا شکار کر رکھا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مودی سرکار منظم طریقے سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کے بھیانک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی اور قتل و غارت گری کے ذریعے مقامی آبادی کو محدود کرنے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔

یہ مشاہدہ بھی کیا جا رہا ہے کہ مودی حکومت روایتی و غیر روایتی اسلحہ اکٹھا کر رہی ہے، تاکہ کسی بھی وقت پاکستان پر جنگ مسلط کرکے کشمیر پر اپنی خونخوار پالیسیوں سے دنیا کی توجہ ہٹا سکے۔ وزیراعظم نے ان تمام حقائق کی نشاندہی کرکے عالمی برادری کو احساس دلایا کہ مزید تاخیر، غفلت یا بے حسی کا رویہ اختیار کیا گیا تو یہ مسائل قابو سے باہر ہو کر عالمی امن کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ وزیراعظم نے افغان معاملے کی نوعیت، مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور بھارتی پالیسیوں کی خطرناک کیفیت پر مدلل اظہار خیال کیا۔ دنیا کے سنجیدہ حلقوں کی جانب سے وزیراعظم کے خطاب کی تعریف بھی سامنے آرہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور سفارتی میدان میں پالیسی ساز ادارے وزیراعظم کے خطاب کے بنیادی اصولوں کی مدد سے دنیا میں جنوبی ایشیا کو درپیش مسائل سے آگاہ کرنے کی منظم مہم کا آغاز کریں۔

خاص طور پر اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین، جاپان میں بیٹھے سفارتکار حکومت سے براہ راست روابط میں مزید بہتری لا کر پاکستان کے موقف کو واضح کرنے کی نتیجہ خیز حکمت عملی ترتیب دیں۔ اس مقصد کیلئے وزارت خارجہ کو زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں موجود سفارتخانوں اور قونصل جنرلز افغانستان، کشمیر اور بھارتی حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں کے بارے میں آگاہ رکھنے کیلئے متحرک کرنا ہوگا۔ کشمیر اور افغانستان کے معاملے اور خطے میں بھارتی رویہ کو مخصوص مواقع پر تقاریر تک محدود رکھ کر خطے کی سلامتی کیلئے حقیقی کردار ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیلئے سفارتی، سیاسی اور حکومتی سطح پر بھرپور اور مسلسل عملی کوششوں کی ضرورت ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ خطے کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے زمینی حقائق اور دلائل پر مبنی حکمت عملی کو بھرپور انداز میں آگے بڑھانے کے عمل میں تعطل نہیں آنے دیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 955806
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش