0
Saturday 20 Nov 2021 22:34

رجب طیب اقتصادی بھنور میں

رجب طیب اقتصادی بھنور میں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ترکی اس وقت اقتصادی بحران سے نبرد آزما ہے، قومی کرنسی (ترک لیرا) کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نیز بے روزگاری کی وجہ سے معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ترک عوام جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکمرانی میں اپنی زندگی کے انتہائی نازک حالات میں سے گزر رہے ہیں۔ معاشی بحران، جو ایک سادہ معنی میں عوامی غربت میں اضافے اور ترک خاندانوں کی روزی روٹی کے مسائل سے جڑا ہوا ہے، لیکن اس مسئلے نے اب اس ملک کے لوگوں کے لیے بہت سے دیگر مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ مسائل، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ترکی کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، جس نے ترک خاندانوں کی زندگی اور معاش کے عام مسائل کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے لیرا کی قدر میں کمی، جو 2018ء سے ترک میڈیا میں روز کا موضوع بنی ہوئی ہے، یہ گراوٹ تین سالوں میں غیر معمولی شرح سے بڑھی چکی ہے اور اب ہر امریکی ڈالر 11 ترک لیرا کے برابر ہوچکا ہے۔

لیرا کی قدر میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی نیز بڑے پیمانے پر عوامی عدم اطمینان ترک صدر رجب طیب اردگان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا باعث بن رہا ہے۔ ان حالات میں ترک عوام کی تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوتا ہے، جب انقرہ کے میڈیا میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس اس بحران سے نکلنے کے لیے عملی طور پر کوئی تعمیری اور موثر منصوبہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنماء خاص طور پر ترک صدر رجب طیب اردگان کی شخصیت شدید تشویش میں مبتلا ہے۔ درحقیقت لیرا کی قدر میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور اس کے نتیجے میں ترک عوام کی غربت رجب طیب اردگان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا باعث بنی ہے۔ بہت سے ماہرین اور ناقدین کے مطابق حکومت کی جانب سے حالات کو بہتر بنانے کی جدوجہد نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء و پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور ترک عوام کی غربت کے نئے اعداد و شمار مقامی ترک اخبارات کی سرخیاں بن گئے ہیں۔

جیسے جیسے ترکی کی معاشی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے، رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔ اس عمل میں، ترک صدر اپنی حکومت کی گمراہ کن ملکی، علاقائی اور عالمی پالیسیوں کا دفاع کرنے کے بجائے اپنے عجیب و غریب اقدامات سے حریف جماعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترکی کے صدر جو ملک میں اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں اور 2023ء کے انتخابات میں شکست کو حتمی سمجھتے ہیں، انہوں نے آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کی جیت کو ملک میں افراتفری کا سبب قرار دیا ہے۔ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنماء رجب طیب اردگان نے اپنی پارٹی کے اہم اراکین سے خطاب میں کہا ہے کہ اپوزیشن جماعت جمہوری محاذ پارٹی جو کھیل کھیل رہی ہے، وہ ترکی کے لیے نقصان دہ ہے۔" ترک صدر کے بقول اپوزیشن جماعت کے رہنماء جو کھیل کھیل رہے ہیں، جو بظاہر ان کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن ملک کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہے۔"

ترکی کے صدر کے بیانات سے یہ واضح نہیں ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی کھیل کا وہ کونسا زاویہ ہے، جو ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے اپوزیشن جماعتیں ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے خلاف یہی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اس کے اقدامات کو ملک دشمنی سے تعبیر کرتی رہی ہیں۔۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا ہے کہ رجب طیب اردوان کی ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی میدانوں میں گمراہ کن اور مہم جوئی کی پالیسیوں نے ترک عوام کو ان تلخ دنوں کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ترک حزب اختلاف کی جماعتوں نے ترک پارلیمنٹ میں رجب طیب اردوان سے متعدد بار شام کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور عراق سے انخلاء کا مطالبہ کیا ہے، لیکن ترک صدر نے ہمیشہ ان جماعتوں پر جوابی حملے کیے ہیں اور جھوٹے غرور کی وجہ سے منفی جواب دیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ ان حالات میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ترک صدر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کر پائیں گے یا وہ اپنے کم ہوئے ووٹوں کی تلافی کر پائیں گے۔ ترک صدر رجب طیب جس اقتصادی بھنور میں پھنس چکے ہیں، اس سے نکلنے کے دور دور تک کوئی امکانات نظر نہین آرہے ہیں۔ دوسری طرف ترک صدر نے جو علاقائی پالیسیاں اور خلافت عثمانیہ کے احیاء کا ناممکن خواب دیکھ رکھا ہے، وہ ابتر اقتصادی صورت حال میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ رجب طیب نے بیک وقت امریکہ اور روس کو فریب دینے کی روش اپنا رکھی ہے دوسری طرف شام، لیبیا اور آذربائیجان میں اس نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اسے رجب طیب کی توسیع پسندی کے علاوہ کوئی نام نہین دیا جاسکتا۔ ایک اہم بات جو کسی بھی وقت ایک بم شیل بن کر پھٹ سکتی ہے، وہ رجب طیب کی پراسرار بیماری ہے اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ رحب طیب کے علاوہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو کوئی دوسرا لیڈر نہیں چلا سکتا، کیونکہ رحب طیب نے کسی اور کو سامنے آنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
خبر کا کوڈ : 964615
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش