0
Friday 31 Dec 2021 19:56

بڑھتی ہوئی مہنگائی، آئی ایم ایف اور ملکی معیشت

بڑھتی ہوئی مہنگائی، آئی ایم ایف اور ملکی معیشت
رپورٹ: ایم رضا

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب معیشت فروغ پاتی ہے تو ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہو جاتی ہے، اس کا دباؤ روپے کی قدر پر پڑتا ہے تو ریزرو کو سنبھالنے کے لئے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ آج ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وطن عزیز کے عوام، مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پریشان ہیں، حکومت کی پوری ٹیم یک زبان ہوکر معیشت میں بہتری کی نوید سنا رہی ہے، منی بجٹ پاس ہونے سے ایک بار پھر مہنگائی کا سونامی آئے گا، آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا ہے، اس کے اسباب تلاش کرکے ان کے تدارک کی ضرورت ہے، صرف روزانہ کی بنیاد پر بیانات جاری کرنے سے مہنگائی کا جن بوتل میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ شرح سود میں اضافہ پاکستان کی معیشت بالخصوص حکومت پاکستان کے لئے نقصاندہ ہے۔

ستمبر 2021ء سے اب تک شرح سود میں 275 بیسز پوائنٹس کے اضافے کے نتیجے میں 26 کھرب ملکی قرضوں پر سود کے اخراجات میں 1 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا، جس سے مالیاتی خسارہ بڑھے گا۔ دوسری جانب آئے دن قرضوں کی واپسی کی سخت سے سخت شرائط پورا کرتے کرتے عوام پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جسے اب اُٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ گو کہ حکومتی حلقے ملکی معیشت میں برق رفتار سے بہتری کے دعوے کرتے ہیں، مگر معاشی اعداد و شمار کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ ’’عارضی مہنگائی‘‘ کا یہ دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بازاروں میں ہر شے کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں اور آئی ایم ایف واقعی عوام کی چیخیں نکال رہا ہے۔ حکومت امریکا کے مقابل کھڑی ہے تو اسے ردعمل کے لئے بھی تیار ہونا چاہیئے تھا اور پلان بی کے تحت عوام کو بچانے کی کوئی تدبیر بھی تیار ہونی چاہیئے تھی۔ اس کے لئے مختلف تاویلات اور دلائل بھی پیش کئے جاتے ہیں، مگر عام آدمی کو روٹی سے غرض ہے، وہ دلائل سن کر اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ رہی سہی کسر نکالنے کے لئے کافی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا ہے، پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے اور آمد و رفت کے اخراجات بھی بڑھ گئے۔ آٹا، گھی تیل، مرغی، گوشت، دودھ، دالیں اور مصالحہ جات، سب کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ سب سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بھی فی یونٹ اڑھائی روپے اضافہ کا سامنا کرنا پڑا اور 50 یونٹ تک بجلی کے نرخ 4.19 روپے فی کلو واٹ سے بڑھ کر 6.70 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئے، پیٹرول گذشتہ سال 117 روپے جبکہ ڈیزل 127 روپے لیٹر اوسط قیمت پر فروخت ہوا، سال 2021ء کے اختتام تک پٹرول کی قیمت 144 روپے اور ڈیزل کی قیمت 141 روپے سے تجاوز کرگئی، ایل پی جی کے 11 کلو گرام سلنڈر کی قیمت 1725 روپے سے بڑھ کر 2526 روپے تک پہنچ گئی، روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تمام درآمدی مصنوعات اور خام مال کی لاگت بڑھنے سے عام استعمال کی تمام اشیاء بشمول ادویات، موٹر سائیکلوں، گھریلو برقی آلات کے پرزہ جات سے لے کر فٹ ویئرز، ملبوسات، کاپی کتابوں اور اسٹیشنری کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان رہا ہے۔

ملک میں مہنگائی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگست 2019ء کے بعد سے غذائی اشیاء کی مہنگائی (فوڈ انفلیشن) دہرے ہندسوں میں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی شعبے کی نمو موزوں شرح سے نہیں ہو رہی۔ مہنگائی کا دوسرا اہم ترین سبب امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ناقدری ہے۔ مجموعی طور پر ملکی معیشت زوال پذیر ہے جبکہ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کے لئے باعث غور و فکر ہونی چاہیئے۔ مانا کہ آئی ایم ایف مغربی اداروں کا ایک مہرہ ہے اور وہ ان مغربی ملکوں کے احکامات کی سرتابی نہیں کرسکتا اور مغربی ملک اس وقت پاکستان کے سیاسی نظام سے ناخوش ہیں اور یہ ناخوشی ایک کشیدگی میں ڈھل چکی ہے۔ انہی طاقتوں کے زیر اثر آئی ایم ایف پاکستانی عوام پر ٹیکس لگا کر حکومت کو غیر مقبول بنانے کے ذریعے بدلے چکا رہا ہے، عدم مقبولیت نے حکومت کو پانیوں پر تیرتی کاغذ کی ناؤ بنا دیا ہے۔

موجودہ حالات میں انتخابات ہوں تو عوام اپنا حساب برابر کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کریں گے۔ مہنگائی کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مہنگائی کا ہر کوڑا عوام کی کمر پر ہی برستا ہے۔ مہنگائی پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ تیل و گیس اور بجلی میں ہر اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں عاجز اور پریشان ہے۔ ایک طرف حکومت اور اداروں کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے تو دوسری طرف اس کے اثرات زمین پر نظر نہیں آتے۔ اب اگر معیشت میں بہتری کے آثار ہیں تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ معیشت کی بہتری کے اثرات اب عام آدمی تک پہنچنا لازمی ہوں گے۔ اس وقت عام آدمی کی معاشی حالت اچھی نہیں۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ اس طرز کے حالات کے باعث معاشرے میں بدترین معاشی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا ہے، مڈل کلاس ختم ہوتی جا رہی ہے۔

ملکی صنعت کاروں کو ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ کراچی کو ملکی برآمدات کا 54 فی صد اور 70 فی صد ریونیو دینے کے باوجود غیر برآمدی صنعتوں کی گیس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوئی سدرن نے اگر غیر برآمدی صنعتوں کی گیس منقطع کی تو فیکٹریوں کو تالے لگ جائیں گے جبکہ ایس ایم ایز سیکٹر تباہ ہو جائے گا۔ حکومت ایک جانب ملکی معیشت کے استحکام کی بات اور دوسری جانب برآمدات کے فروغ اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرنے پر کراچی کو مشکل میں ڈالا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام صنعتوں کی گیس بند کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔؟ ورلڈ بینک نے اپنی پاکستان ڈویلپمنٹ رپورٹ کے ذریعے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے پاکستانی عوام کو یہ خبر دی ہے کہ رواں برس مہنگائی کی شرح 8.9 فیصد تک جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی ایک اور قسط ملنے میں تاخیر سے پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے ملکی اور علاقائی سکیورٹی کے خطرات بڑھ رہے ہیں، معاشی اصلاحات کا عمل تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 14.31 فیصد ہوگئی ہے۔ حالیہ ہفتے پچیس اشیاء کی قیمتوں سمیت مہنگائی کی شرح میں مزید 1.23 فیصد اضافہ ہوا۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت معاشی استحکام کے اثرات عام آدمی تک پہنچائے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرکے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے۔ اس کے سوا عام آدمی کو معیشت کی بہتری کے دعوؤں پر یقین نہیں آسکتا۔ ملکی معیشت بہتر ہو اور معاشرہ اس کے اثرات سے محروم رہے، یہ قرین انصاف نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو انتظامی مشینری اور قانون کا سہارا لے کر مہنگائی کا علاج دریافت کرنا چاہیئے۔ انتظامیہ کے ذریعے بازاروں اور مارکیٹوں کی نگرانی بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ برآمدات کے فروغ کے لئے پرائس مکینزم کا موثر انداز میں کام کرنا ضروری ہے جبکہ کچھ اقتصادی ماہرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پرائس مکینزم پر بہت زیادہ توجہ سے ناقابل قبول نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، بالخصوص آمدن اور دولت کی عدم مساوات، جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام اور افراتفری جنم لیتی ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ انتظامی عناصر مافیاز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کر رہے ہیں، جس سے مہنگائی کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا۔
خبر کا کوڈ : 970301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش