0
Wednesday 29 Dec 2021 09:20

ہمیں پاکستان کو بچانا ہوگا!

ہمیں پاکستان کو بچانا ہوگا!
تحریر: تصور حسین شہزاد

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اکثر سچ بول جاتے ہیں اور اس سچائی کے باعث انہیں کئی بار پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ روز بھی فواد چودھری نے کچھ سچی باتیں کی ہیں۔ کہتے ہیں عمران خان جس پاکستان کی بات کرتے ہیں، وہ قائداعظم کا پاکستان ہے، سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان کو واپس کیسے لانا ہے، پاکستان کی دونوں جانب انتہاء پسند ریاستیں ہیں، ایک طرف افغانستان میں طالبان کی رجعت پسندانہ سوچ ہے، دوسری طرف بھارت ہندو انتہاء پسندی ہے، جو پاکستان کیلئے خطرہ ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ تھا۔

سیالکوٹ میں ایک شخص کی جان گئی تو اس شدت پسندی کیخلاف سارے لوگ اکٹھے ہوگئے، پورے پاکستان نے سیالکوٹ واقعے کی مذمت کی، نریندر مودی حکومت میں ہندوستان نیچے جا رہا ہے، بھارت میں مذہب کے نام پر انتہاء پسندی پھیلائی جا رہی ہے، قائداعظم نے کہا تھا کہ اقلیتیں اپنی عبادت میں آزاد ہیں، قائداعظم کی سوچ عام آدمی تک پہنچانے کیلئے تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ فواد چودھری نے طالبان کی جانب سے افغانستان میں خواتین پر پابندی جیسی سوچ کو بھی پاکستان کیلئے خطرہ قرار دیا۔ اس سے قبل جب تحریک لبیک کا مارچ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا تھا، وزراء کے بیانات کافی سخت آرہے تھے۔ تحریک انصاف کے رہنماء فیصل واوڈا نے یہ کہا تھا کہ جو معاہدہ ٹی ایل پی کیساتھ پہلے کیا گیا تھا، اس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو کوئی علم نہیں، اس لیے اب یہ ملبہ عمران خان پر نہیں ڈالنا چاہیئے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد مذہبی جماعتوں کے معاملے میں ہمیشہ محتاط بیانات دیتے آئے ہیں اور اس بار بھی انہوں نے سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی بچا لی۔ شیخ رشید نے کہا تھا ”تحریک لبیک پاکستان والے ہمارے بھائی ہیں اور ہم اپنے بھائیوں سے لڑنا نہیں چاہتے، جبکہ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ ٹی ایل پی ایک کالعدم جماعت ہے اور سعد رضوی کیخلاف 98 مقدمات ہیں اور کئی پولیس والے شہید ہوچکے ہیں، اس لیے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا پڑے گا۔ بعدازاں جب حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تو فواد چودھری نے کھری کھری باتیں کر دی تھیں۔ فواد چودھری نے اس وقت کہا تھا کہ ریاست کا کام قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہے، لیکن ٹی ایل پی کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکومت و ریاست انتہاء پسندی سے لڑنے کیلئے مکمل تیار ہیں، ریاست کا کام قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہے، لیکن ٹی ایل پی کیس میں ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کا کنٹرول ختم ہونے پر جتھے قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں، حکومتی رٹ ختم ہوگئی تو انتہاء پسند حاوی ہو جائیں گے، نقطہ نظر ہر کسی کا حق ہے، لیکن کسی پر زبردستی تھوپنا درست نہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ ہمیں امریکا، بھارت، یورپ سے کوئی خطرہ نہیں، ہمیں سب سے بڑا خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ انہوں نے ایک اور منفرد بات کی کہ انتہاء پسندی کی وجہ مدارس نہیں، سکول اور کالجز ہیں، جہاں سے انتہاء پسندی وجود میں آئی، سکول، کالجوں میں انتہاء پسندی کی تعلیم دینے والے اساتذہ بھرتی کیے گئے اور مقامی انتظامی نظام کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر کے پاس اطلاعات کا قلمدان ہے، ان کے پاس یہ اطلاعات یقیناً مصدقہ ہوں گی کہ ماضی میں ایسے اساتذہ بھرتی کئے گئے، جنہوں نے انتہاء پسندی کی تعلیم دی۔ تو کیا وزیر اطلاعات یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اب جو پنجاب میں قرآن ٹیوٹرز کے نام سے اساتذہ بھرتی کئے جا رہے ہیں، ان کی فکر کیسی ہے؟ بعض حلقوں میں اس حوالے سے کافی تحفظات پائے جا رہے ہیں۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں قرآن کی لازمی تعلیم کالعدم سپاہ صحابہ کے رکن معاویہ اعظم اور قاف لیگ کے کچھ وزراء اور ارکان کی ملی بھگت سے منظور ہوئی۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرآن تو ہر مسلمان گھرانے کے بچوں کیلئے لازمی ہے، تمام والدین لازمی اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دلواتے ہیں اور مساجد میں یہ سلسلہ روزِ اول سے جاری ہے کہ مسجد کا امام بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے اور ہر محلے کی مسجد میں یہ کلاس روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جب بچے اپنے محلے کی مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو انہیں الگ سے سکول میں دوبارہ قرآن پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر یہ سازش بعدازاں بے نقاب ہوگئی کہ اس آڑ میں شدت پسند جماعت کے کارکنوں کو بطور استاد سکولوں میں بھرتی کیا جا رہا ہے۔ حکومت ایک طرف تو ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کیلئے کوشاں ہے، تو دوسری جانب ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ جس سے ملک میں شدت پسندی کو فروغ ملے گا۔

فواد چودھری صاحب جن اساتذہ کا ذکر کر رہے ہیں، ان کی جگہ اب یہ نئی کھیپ بھرتی کی جا رہی ہے۔ عربی ٹیچر یا قرآن ٹیوٹر کے نام سے جو 70 ہزار اساتذہ کی بھرتی کا عمل شروع ہونیوالا ہے، کیا حکومت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائی ہے کہ کس مکتب فکر کے افراد ہوں گے، مختلف مکاتب فکر کا مختلف کوٹہ ہوگا یا صرف جنرل ضیاء الحق کی طرح ایک جماعت کے جو واحد رکن پنجاب اسمبلی ہیں، وہ اپنے ہی مکتب فکر کو نمائندگی دلوائیں گے اور صرف اسی فکر کے لوگ ہی ٹیچر بھرتی ہوں گے؟ یہ بات واضح کی جانی چاہیئے۔ اس کے علاوہ تمام مکاتب فکر قرآن کی تفسیر و ترجمہ اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں، تو بچوں کو کون سے فرقے کا ترجمہ پڑھایا جائے گا؟؟ اس میں اگر کسی ایک فرقے کے ترجمے کا انتخاب کیا جاتا ہے تو دوسرے فرقے کے بچوں کیلئے کیا آپشن ہوگی؟ ان پر یہ زبردستی مسلط کیا جائے گا؟؟ کہ وہ یہی ترجمہ پڑھیں۔

یہ وہ معاملات ہیں، جن کے سامنے بہت سے سوالات کھڑے ہیں۔ پنجاب حکومت جلد بازی میں یہ حساس نوعیت کے قوانین بنا کر مسلط تو کرتی جا رہی ہے، لیکن ان کی حساسیت کے نتائج کچھ عرصہ بعد آنا شروع ہوں گے، جن سے معاشرے میں بدامنی بڑھے گی، اس لئے پنجاب حکومت مذہبی حوالے سے کوئی بھی قانون پاس کرنے سے پہلے اسمبلی میں اس پر بحث ضرور کروا لیا کرے، تاکہ مستقبل میں کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ یہ ملک اور اس کا آئین تمام مذاہب و مکاتب فکر کو مذہبی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے، مگر ضیاء الحق اور اس کی باقیات اس ملک میں بدستور انتہاء پسندی کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ ہم تو ضیاء الحق کی کاشت کی گئی شدت پسندی کی فصل ابھی تک کاٹ رہے ہیں، یہ جو نئے بیج بوئے جا رہے ہیں، اس کی فصل ہماری نسلیں کاٹیں گی اور یوں پاکستان پھر پاکستان نہیں رہے گا، بلکہ شدت پسندستان بن کر رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے پاکستان کو بچانا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 970880
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش