0
Sunday 22 May 2022 23:49

ملکی سطح پر رائج اعلیٰ تعلیمی نظام

ملکی سطح پر رائج اعلیٰ تعلیمی نظام
رپورٹ: ایس این حسینی

ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ملک کی ترقی کی فکر کرنا ہر شہری کا فطری اور آئینی حق ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ دفاعی، سیاسی، عدالتی اور ملک کے تعلیمی نظام کی بہتری پر خوشی کا اظہار جبکہ کسی بھی شعبے کی ناکامی، نالائقی اور زوال پر کڑھنا ہر شہری کی فطرت کا حصہ ہے۔ ملک سے ہٹ کر اپنے صوبے، KP کے تعلیمی نظام کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرنے کا خیال ایک عرصہ سے بندہ کے ذہن میں تھا۔ تاہم مناسب معلومات کی عدم دستیابی نے بندہ کو اپنا مافی الضمیر نذر خلق کرنے سے روکے رکھا۔ تاہم میٹرک کے سالانہ امتحانات کے دوران صوبے کے متعدد سنٹرز کے ذاتی مشاہدات کا موقع ملنے کے علاوہ، قریبی دوستوں کی جانب سے بھی کنفرم معلومات ہاتھ آگئیں تو مناسب لگا کہ اس حوالے سے، نیز گذشتہ امتحانات کے حوالے سے اپنے مشاہدات اپنے کرم فرماؤں کی نذر کروں۔

گذشتہ سال صوبے کے تمام بورڈز کی جانب سے میٹرک اور انٹر امتحانات کے مرتب کردہ نتائج کا اگر ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو وضاحت کے ساتھ اور بلا جھجک یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ امیدواروں خصوصاً پرائیویٹ سکولز کو ان کی مرضی کے مطابق نمبرز ملے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے مطالعہ متاثر ہونے کے باوجود صوبے کے ہر بورڈ سے ہزاروں طلبہ نے 99 اور 100 فیصد نمبر حاصل کرکے پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا اور ناقابل شکست ریکارڈ قائم کیا۔ حال ہی میں کسی ضروری کام کی غرض سے کرک جانے کا اتفاق ہوا جبکہ میٹرک کا امتحان شروع تھا۔ پہلے کرک کے حوالے سے بات کروں، کرک کے عوام نہایت مہمان نواز، پرامن اور خوش اخلاق پٹھان ہونے کے علاوہ بہت ایڈوانس اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ کرک کسی زمانے میں علمی لحاظ سے صوبے میں ٹاپ پوزیشن پر تھا۔ لیکن آج کل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی آپس میں رقابت نے یہاں سے تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ لوگ اچھے مارکس ہی کو علم اور قابلیت خیال کرتے ہیں۔ شاید انہیں علم نہیں کہ علم معلوماتی ذخیرے کا نام ہے۔ ورنہ ایک ان پڑھ کو سو ڈگریاں دینے سے وہ خواندہ متصور نہیں ہوگا۔

اپنے دورے کے دوران میرے نہایت قابل قدر کچھ دوستوں نے ایک گانا سنایا، جس کا موضوع سخن بورڈ امتحان تھا۔ یہ جان کر آپ حیران ہونگے کہ اس گانے میں شاعر نے معزز امتحانی عملے، سپرٹینڈنٹ اور ڈپٹی کے علاوہ بورڈ کے قابل قدر عملے کنٹرولر اور چیئرمین صاحبان وغیرہ کے حوالے سے جو اظہار خیال کیا تھا، بندہ یہ سن کر پہلے بہت حیران اور پریشان ہوا۔ مگر ایک دو دن بعد ایسا لگا کہ شاعر نے ایک سنٹر جا کر چشم دید حالات کی ترجمانی نہایت شفاف طریقے سے کی ہے۔ تحقیق کے شائقین خود سن کر نتیجہ حاصل کرسکیں گے۔ بندہ کی اپنی معلومات، وزٹس نیز دوستوں کے محقق اور ناقابل تردید حقائق کی رو سے کرپشن کے لحاظ سے کوہاٹ، بنوں، سوات، ڈی آئی خان اور مردان بورڈز کانٹے دار مقابلے کے ساتھ بالترتیب پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن پر ہیں، جبکہ کے پی میں تعلیمی کرپشن کے حوالے سے ضلعی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو کرک، کوہاٹ، ہنگو، لکی مروت اور کرم میں بالترتیب حسنِ کارکردگی میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔

لوگ اپنے اپنے متعلقہ سکولوں کے طلباء کے لئے بالعموم جبکہ اپنے رشتہ داروں کے لئے بالخصوص مارکس بٹورنے میں سبقت لینا اپنا حق پدری سمجھتے ہیں۔ کرک میں بعض پرائیویٹ سکولز، اسی طرح لکی مروت، کوہاٹ، کرم اور ہنگو میں پرائیویٹ سکولز میں قائم امتحانی مراکز کی ایک عجیب حالت ہے۔ امتحانی پرچہ طلباء سے پہلے ان کے معاونین کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ ایک سنٹر میں آوٹ ہونے والا پرچہ واٹس ایپ پر صوبہ بھر کے دیگر سنٹرز کو فارورڈ کرکے پختون کلچر میں موجود دوستی اور رشتہ داری اور مہمان نوازی کے حق کی اعلیٰ مثال ہے۔ بندہ کو اس دوران یہ احساس ہوا کہ بورڈ امتحانات پر ہونے والے اخراجات صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہیں۔ اس کے مقابلے میں مقامی سطح پر اگر سکول اپنے اپنے ہوم امتحانات کا بندوبست کریں تو یہ اس سے بہتر رہے گا۔ وما علینا الا البلاغ۔
خبر کا کوڈ : 995550
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش