1
0
Sunday 29 May 2022 04:15

امام خمینی اور حسن اخلاق و خندہ پیشانی

امام خمینی اور حسن اخلاق و خندہ پیشانی
اداریہ

اسلام میں حسن اخلاق اور خندہ پیشانی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے دینی پیشواؤں نے حسن اخلاق کو ایمان کے مکمل ہونے کی علامت اور اصحاب الیمین کے اعمال میں اسے سرفہرست قرار دیا ہے۔ حسن اخلاق ا۔۔۔ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اسلام میں اخلاقی احکام دو طرح کے ہیں۔ ایک قسم کو "محاسن اخلاق" اور دوسری قسم کو "مکارم اخلاق" کہا جاتا ہے۔ محاسن اخلاق میں معاشرتی آداب جبکہ مکارم اخلاق میں انفرادی آداب شامل ہیں۔ حسن اخلاق کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اس لئے اسے فتوت اور معاشرت حسن جیسے الفاظ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں یہ مہربانی اور خندہ پیشانی کے معنوں میں ہے۔ علمائے اخلاق نے دوسروں کے ساتھ الفت و محبت، خندہ پیشانی، مہربانی سے پیش آنے اور غصے پر قابو پانے جیسی صفات کو حسن اخلاق میں سے شمار کیا ہے۔ اسلام میں لوگوں کے ساتھ مہربانی اور خندہ پیشانی سے پیش آنے کے علاوہ عقل، غضب اور شہوت کی قوتوں کو اعتدال میں رکھنے کو بھی حسن اخلاق کی کسوٹی قرار دیا گيا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اس بارے میں فرمایا ہے: "حسن اخلاق یہ ہے کہ انسان کو جس قدر دنیوی نعمتیں ملیں، ان پر خوش ہو اور اگر نہ ملیں تو غضبناک نہ ہو۔"

حسن اخلاق ا۔۔۔ تعالیٰ کی صفت بھی ہے اور اس کا سرچشمہ اس کی رحمت ہے۔ ا۔۔۔ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پیغمبر اکرم (ص) کو حسن اخلاق کا بہترین نمونہ اور اس کا سرچشمہ رحمت الہیٰ کو قرار دیا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر انسٹھ میں ارشاد ہوتا ہے: "پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو، ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔" اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ حسن اخلاق کا سرچشمہ رحمت الہیٰ ہے اور خدا اسے  پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ہر طرح کے حالات میں، حتی اس زمانے میں بھی جب لوگوں کا ایک گروہ اور مشرکین آپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے کہ آپ نے ہمیں تباہ و برباد کر دیا، اچھے اخلاق اور خندہ پیشانی سے لوگوں کے ساتھ پیش آتے تھے اور ان کے ساتھ سختی اور تلخ کلامی نہیں کرتے تھے۔ بعض روایات میں دین کے کامل ہونے کو حسن اخلاق کے ساتھ مشروط کیا گيا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے: "تم میں سے اس شخص کا ایمان دوسروں‎ سے زیادہ کامل ہے، جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں۔"

اہل بیت (ع) سماجی امور میں دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کے علاوہ خود بھی دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں نمونۂ عمل تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) تمام لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھےو حتی ان افراد کے ساتھ بھی جو آپ کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ آپ کے اہل بیت (ع) بھی دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن ایک عیسائي نے حضرت امام محمد باقر (ع) کی شان میں گستاخی کی اور آپ کا نام بگاڑ کر لیا، یعنی آپ کو بقر کہا، جس کے معنی گائے کے ہیں۔ لیکن آپ نے اس کے جواب میں بہت بردباری سے کام لیتے ہوئے فرمایا نہیں، میں باقرالعلوم یعنی علوم کو شگافتہ کرنے والا ہوں۔ اس عیسائی نے کہا کہ تم ایک باورچی عورت کے بیٹے ہو۔ حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا کھانا پکانا ان کا کام ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس گستاخ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا تم ایک بدزبان سیاہ فام عورت کے بیٹے ہو۔ حضرت امام محمد باقر (ع) نے بہت متانت کے ساتھ فرمایا کہ اگر تم ان کے بارے میں سچ کہہ رہے ہو تو خدا انہیں معاف کرے اور اگر جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تمہیں معاف کرے اور تمہارا گناہ بخش دے۔ حضرت امام محمد باقر (ع) کے اس حسن سلوک سے وہ عیسائی شخص بہت متاثر ہوا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔

اسلام کے نزدیک حسن سلوک اور خندہ پیشانی جہاں گناہوں کی بخشش، قیامت کے دن حساب کتاب کے آسان ہونے، بلند درجات تک پہنچنے اور انبیائے کرام (ع) کے جوار میں جگہ ملنے کا سبب بنتی ہے، وہیں اس دنیا میں بھی اس کے اچھے اثرات برآمد ہوتے ہیں۔ جن میں سے مشکلات کا آسان ہونا بھی ہے۔ جو شخص مشکلات کے سلسلے میں صبر و تحمل سے کام لیتا ہے اور مشکلات اور دباؤ اس کی بدخلقی کا سبب  نہیں بنتا، عملی طور پر وہ اپنی مشکلات کو حل کر لیتا ہے، یا کم از کم مشکلات اس کے لئے آسان ہو جاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسن سلوک اور خندہ پیشانی مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں انسان کی برداشت کو بڑھا دیتی ہے۔ حضرت علی (ع) نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ "جس کا اخلاق اچھا ہو، زندگی کے راستے اس کے لئے آسان ہو جاتے ہیں۔"

امام خمینی (رہ) کا شمار ان شخصیات میں سے ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے حسن سلوک اور خندہ پیشانی کی بدولت بہت سی انفرادی، اجتماعی اور سیاسی مشکلات حل کرلیں اور ان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ ان میں ایک مشکل مرحلہ آپ کی بیماری اور آپریشن کے لمحات تھے۔ آپ کے معالج، ڈاکٹر معتمدی کا کہنا ہے کہ آپ بیماری اور درد کی شدت میں کبھی بھی ناگواری کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ڈاکٹر معتمدی نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ امام خمینی (رہ) کا اخلاق واقعی محمدی اخلاق تھا۔ امام خمینی (رہ) نے حتی مشکل آپریشن کے دوران ایک بار بھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ امام خمینی (رہ) بیماروں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتے تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس حد تک رضائے الہیٰ کے مقام پر فائز ہوسکتا ہے کہ اسے درد بھی محسوس ہو رہا ہو، لیکن اس کا ایسا اخلاق ہو اور وہ کوئی ایسا اقدام بھی نہ کرے کہ ہمیں اس پر غصہ آئے۔

حسن اخلاق کا دوسرا دنیوی فائدہ دوستی کا استحکام اور پائيداری ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ "حسن سلوک سے دوستی اور محبت میں استحکام آتا ہے۔" پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں ایسے بہت سے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ ان ہستیوں کے حسن سلوک اور خندہ پیشانی کی وجہ سے ان کے دشمن اور مخالفین ان کے عقیدت مند بن گئے اور آپ کے عقیدت مندوں کی دوستی کو تقویت ملی۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کے اچھے اخلاق کی بدولت اسلام کے عقیدت مندوں کے دل آپس میں جڑے ہوئے تھے اور ان میں اختلاف پیدا نہیں ہوتا تھا۔ امام خمینی (رہ) اسی خاندان کے وارث تھے۔ آپ بھی ان اخلاق کے مالک تھے۔ آپ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ امام خمینی (رہ) کی دیکھ بھال کرنے والی میڈیکل ٹیم کے رکن ڈاکٹر محتشمی پور نے بتایا ہے کہ جب بھی میڈیکل ٹیم امام خمینی (رہ) سے ملتی، آپ انتہائي خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ وہ کہتے ہیں کہ امام خمینی (رہ) نے ہمیں یہ اجازت دے رکھی تھی کہ ہم کبھی بھی رات کو ایک بار یا ا۔۔۔ کہہ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکتے تھے۔ جب بھی ہمیں آپ کے پاس جانا ہوتا تھا، ہم ایک بار یا ا۔۔۔ کہتے۔ جب امام خمینی جواب میں بسم ا۔۔۔ کہتے تو ہم کمرے میں داخل ہو جاتے اور چیک اپ کرنے کے بعد واپس آتے۔

میں نے اس ساری مدت میں کبھی بھی نہیں دیکھا کہ امام خمینی کے ماتھے پر شکن آئی ہو یا ہمارے ساتھ کبھی سخت لہجے میں بات کی ہو، بلکہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ اس سے آپ کی بردباری کی نشاندہی ہوتی تھی۔ اچھے اخلاق کا ایک مثبت نتیجہ غصے پر قابو پانے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے متقین کی ایک صفت غصے پر قابو پانے اور عفو و درگزر سے کام لینے کو قرار دیا ہے۔ اچھے اخلاق والا انسان بڑی آسانی کے ساتھ اپنے غصے کو کنٹرول کر لیتا ہے۔ امام خمینی (رہ) اپنی بے مثال شجاعت کے باوجود حسن اخلاق کی صفت کی بدولت اپنے غصے پر قابو پا لیتے تھے۔ محترمہ زہراء مصطفوی نے اس بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ہمارا ایک عزیز ہمارے گھر آیا۔ اسے کسی بات پر اعتراض تھا، لہذا اس نے قدرے بلند آواز میں بات کی اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس زمانے میں امام خمینی (رہ) علیل تھے، لیکن آپ نے بہت مہربانی کے ساتھ فرمایا کہ تم پریشان کیوں ہو رہے ہو، بات چیت سے مسئلہ حل کر لیں گے۔
خبر کا کوڈ : 996098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

غلام محمد صوفی
India
نیٹ کے ذریعے آپ دین اسلام کی بقاء کے لئے کوشش، دین پھیلانا، دین اسلام کی طرف جوانوں کو مایل کرنا، یہ بہت اچھا قدم ہے۔ خداوند متعال ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے۔ آپ لوگوں کی یہ جدوجہد کامیابی کے ہم کنار ہو۔ ہم آپ لوگوں کی اس کام میں مدد کریں گے، ان شاء اللہ
ہماری پیشکش