0
Monday 26 Dec 2011 12:43

ایران پر اقتصادی پابندیاں

ایران پر اقتصادی پابندیاں
تحریر:عباس مرتضی

اسرائیل اور امریکہ کیلئے ایران پر ایک عسکری حملہ کرنا یقیناً لاممکنات کی حدود میں داخل ہوچکا ہے، ان دونوں ممالک اور ان کے حواریوں کے دلوں میں موجود شیطانی خواہش ان کے سینوں میں ہی دب کر رہ جائے گی۔ ایران پر حملہ کرنے کی اسرائیلی خواہش کے دباؤ کے باوجود مغرب اور امریکہ ایسی حرکت کا ارتکاب نہ کرسکے۔ البتہ یورپ اور امریکہ نے اسلامیہ جمہوریہ ایران کے متعدد اداروں اور شخصیات پر یکطرفہ اقتصادی پابندیاں لگاتے ہوئے دباؤ ڈالنے کا ایک نیا راستہ نکالا۔ یہ پریشر اور دباؤ پابندیوں کے اصل فلسفہ سے مکمل طور پر لاتعلق ہے جسے عالمی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ممالک کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

وہ ملک جسے عالمی اقتصادی پابندیوں کا سب سے زیادہ مستحق یا حقدار ٹھہرایا جانا چاہیے وہ صیہونی حکومت ہے جس نے انسانی حقوق کی پامالی، انسانیت کے خلاف متعدد جرائم اور بدترین حملوں کا ارتکاب کیا ہے تاہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اثر و نفوذ کے باعث اقوام متحدہ نے اسرائیلیوں کے مظالم پر ہمیشہ آنکھیں بند رکھنے کا مظاہرہ کیا ہے لیکن دوسری طرف کھلی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجائے اس کے کہ اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جس کا جواز اس کے پر امن ایٹمی پروگرام کو بنایا جا رہا ہے۔

ایران ایک ایسا ملک ہے جس نے کبھی بھی دھمکیوں اور امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کیا ہے۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی کی فتح سے لے کر آج تک ایرانی قوم اور حکومت جرأت مندی کے ساتھ بین الاقوامی دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے انقلابی موقف کو عالمی سطح پر پیش کر رہی ہے۔ اسی لئے تسلط پسند قوتیں یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ایران کو دباؤ میں لایا جائے تاکہ امریکہ کے سامنے سر اُٹھانے والے دیگر ممالک کو ایران کی پیروی کرنے کے جرم میں حوصلہ شکنی کر کے اس کی پیروی سے روکا جائے۔

ایران کے خلاف امریکہ و مغرب کی اقتصادی پابندیوں کے بارے میں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ پابندیاں صرف ایرانی حکومت اور چند حکومتی شخصیات کے خلاف ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں بلکہ یہ پابندیاں پوری ایران عوام کے اقتصادی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہران میں برطانوی سفارتخانے کے سامنے اکٹھے ہونے والے طلباء نے ایران کے مرکزی بینک کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جو برطانوی حکومت کی ایرانی قوم کے خلاف معاندانہ پالیسیاں اختیار کرنے پر عوامی عدم اطمینان کا کھلا اظہار ہے۔ برطانیہ اور ان کے اتحادیوں کو اس بات سے اچھی طرح آگاہ رہنا چاہیے کہ ان کی پالیسیوں کے خلاف مقبول احتجاج کی لہر مستقبل میں بھی جاری رہے گی اور ایران کو اس حوالے سے روکا نہیں جا سکے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ دونوں ممالک کے مابین مخاصمت کی یہ لہر اس وقت تک ختم نہ ہو سکے گی جب تک برطانیہ اپنی غلطیوں کی اصلاح اور قوموں کے حقوق کو تسلیم نہیں کر لیتا۔

برطانیہ مخالف ایرانی اقدامات، دیگر یورپی ممالک کیلئے ایک پیغام

پچھلے کچھ سالوں میں برطانیہ کی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مخالفت پر مبنی پالیسیوں، ایران مخالف اقدامات بالخصوص ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف شدت پسندانہ رویہ، یہ تمام اقدامات ایرانی پارلیمنٹ کی طرف سے برطانیہ سے تعلقات کو کم از کم سطح پر لانے کیلئے منظور کیے جانے والے بل کو ایک منصفانہ اور معقول جواز فراہم کرتے ہے۔ لندن سے سفارتی تعلقات کم کرنے سے متعلق تجویز اراکین مجلس نے پچھلے سال پیش کی تھی لیکن اسے مجلس کے پریزائیڈنگ بورڈ نے منظور نہیں کیا تھا۔ اس امید پر کہ شاید برطانوی حکومت اپنے روئیے پر نظرثانی کرے گی تاہم چند دن قبل برطانیہ کی طرف سے ایران کے مرکزی بنک، مختلف اداروں اور اہم شخصیات پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے نے ایرانی قوم کے خلاف، دشمنی پر مبنی پالیسیوں پر عوامی غم و غصے میں مزید اضافہ کر دیا۔ درحقیقت ایرانی پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا بل عوامی توقعات کے عین مطابق رد عمل تھا۔

برطانیہ یورپی یونین کا ایک موثر ترین ملک ہے اور یورپی یونین کی ایران کے بارے میں متعین کردہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پس برطانیہ کے خلاف تہران کا ردعمل دیگر یورپی ممالک اور ان کی مستقبل کی اسلامی جمہوریہ کے بارے میں پالیسیوں پر اثرات مرتب کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں برطانوی فیصلے اور ایرانی ردعمل کے سنجیدہ واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد دیگر یورپی ممالک ایران سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر غور کریں گے۔

توقع ہے برطانیہ بھی ایران سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر ضرور سوچے گا بصورت دیگر اسے ایک تلخ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں تمام خطے سے اسے اپنے آپ کو علیحدہ کرنا پڑے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تمام سفارتی تعلقات کے خاتمے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ دونوں ممالک میں رہنے والے ایک دوسرے کے شہریوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے کیونکہ کم تعلقات کی سطح رکھنے والے ممالک ایک دوسرے کے ہاں انٹرسٹ سیکشن قائم رکھیں گے۔ تاہم اس بات کا بھی کم ترین سطح پر امکان ہے کہ برطانوی حکومت، برطانیہ میں مقیم ایرانی شہریوں پر دباؤ بڑھا سکتی ہے بالخصوص ایرانی طلباء پر، اس صورتحال میں مزید مسائل پیدا ہونگے اور برطانوی حکام کو اس صورتحال کے نتائج سے آگاہ رہنا چاہیے۔

ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام پر یورپی یونین کے ممالک میں حالیہ تنازعہ نے ان ممالک کو ایک موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ خود مختار آزاد ممالک میں یورپی یونین نے ہمیشہ امریکہ اور برطانیہ کی پالیسیوں کی پیروی کی جو حال ہی میں بے حد کوشش کر چکے ہیں کہ ایران کے تیل کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگانے کیلئے عالمی اتفاق رائے پیدا کر سکیں۔ امریکہ و برطانیہ کی اندھی تقلید کے باعث یورپی یونین کے ممالک کے قومی مفادات پر ہمیشہ ضرب پڑتی رہی تاہم ایرانی تیل کی نقل و حرکت پر پابندی مستقبل میں ان ممالک کیلئے سنجیدہ قسم کیے معاشی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ توقع ہے یورپی یونین کے ممالک ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ایک آزادانہ فیصلے تک پہنچ جائیں گے اور ایرانی تیل کی نقل و حرکت پر پابندی کی تجویز کو رد کر کے لندن اور واشنگٹن کی معاندانہ پالیسیوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کر سکتے ہیں۔ یورپی یونین کی حالیہ میٹنگ میں ایرانی تیل پر پابندی کے ایشو پر اتفاق رائے پیدا نہ ہو پانا ثابت کرتا ہے کہ یورپی حکومتیں ایران پر دباؤ ڈالنے کی مہم سے سنجیدگی سے اتفاق نہیں کرتیں۔

بعض یورپی ممالک یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے قبل کہ ان کی اقتصادی صورتحال مزید خوفناک شکل اختیار کر لے، وہ اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے اپنی ترجیحات مرتب کر لیں۔ مغربی عوام اپنے حکمرانوں کی طرف سے امریکہ کی پالیسیوں کی اندھا دھند تقلید کرنے کی پالیسی سے اکتا چکے ہیں۔ اور وہ اپنے ملک کی خودمختاری اور آزادی کے بارے میں سوالات اُٹھانے ہی والے ہیں۔

یورپ کی اہم طاقتیں ایران سے معاملات کرنے کیلئے سیاسی ڈیڈ لائن لے چکی ہیں جبکہ دوسرے بہت سے یورپی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایرانی تیل پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایرانی تیل کی نقل و حرکت پر پابندی ان کے مفاد کی قیمت پر ہی لگائی جا سکتی ہے۔ تیل پر پابندی لگانے کی کوششوں میں عدم اتفاق یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ممالک پابندیوں کی پالیسی اختیار کرنے کے غیر متوقع نتائج کی اہمیت کے بارے میں آگاہ ہیں۔

بہت سے یورپی ممالک اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے پیش نظر ایرانی تیل پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی حالیہ میٹنگ میں ممبران کی طرف سے کی گئی گفتگو کا محور یہی صورتحال تھی۔ اس میٹنگ میں ایران کے تیل پر پابندیاں لگانے کیلئے گفتگو کی گئی تھی تاہم یورپی یونین ایرانی تیل پر پابندیاں لگانے کیلئے یورپی ممالک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکی، ایرانی تیل کی نقل و حرکت پر پابندیوں کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو روکنے کیلئے اس پر دباؤ کو مزید بڑھانا ہے۔ یورپی یونین حالیہ میٹنگ کے دوران کئی ممالک نے تیل پر پابندی کے بہت زیادہ متنازعہ ایشو پر رکن ممالک میں مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ لیکن اتفاق رائے قائم نہ ہونے پر ایران کے خلاف اقدامات اگلی ملاقات میں طے کیے جائیں گے جس میں یورپی یونین کی اہم اور بڑی طاقتیں چھوٹے اور کمزور ممالک پر ایران سے تیل خریدنے سے روکنے کیلئے مقدور بھر کوششیں کریں گے۔

امریکہ اور روس کے یورپی اتحادی سب سے زیادہ برطانیہ پر پابندیوں پر عمل درآمد کرنے کیلئے پہلے سے کئی گنا زیادہ کوششوں میں مصروف ہو گیا ہے اور امریکی کانگریس کی طرف اُٹھائے گئے حالیہ اقدامات کے باعث یورپی ممالک پر دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ بھی اُسی راستے کی پیروی کریں, جس پر امریکہ و برطانیہ چل رہے ہیں۔ ایران کے 180 اعلٰی شخصیات پر پابندی لگانے کی نئی لسٹ دباؤ میں اضافہ کرنے کیلئے مزید ایک اقدام ہے، البتہ اس اقدام کا ایران کے نیوکلئیر پروگرام پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو سکتا۔ ان پابندیوں کا یہ اقدام بے کار اور عبث ثابت ہو گا کیونکہ ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے دھکیلنے کی کوششوں کا انجام ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایران کو اپنے تیل کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے عالمی برادری سے تعلقات قائم کر کے اپنی سفارتی کوششوں کا سلسلہ تیز کر دینا چاہیے، بہتر حکمت عملی اس راستے پر پہلا قدم ہوگا۔ جس سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے روئیے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 125219
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش