0
Monday 26 Dec 2011 23:32

حکومت اپنی توجہ عوامی مسائل حل کرنے پر مرکوز کرے

حکومت اپنی توجہ عوامی مسائل حل کرنے پر مرکوز کرے
تحریر:طاہر یاسین طاہر 

چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا تاثر غلط ہے، جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور افواج پاکستان جمہوریت کی حمایت جاری رکھے گی، فوج اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور پھیلائی جانے والی افواہیں دراصل، حقیقی اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے سربراہ نے گزشتہ دنوں کرم ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے دورے کے وران وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے قومی اسمبلی میں بیان کے تناظر میں کیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے واضح کر دیا ہے کہ مسلح افواج یا کوئی بھی ادارہ جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا اور نہ ہی فوج اقتدار پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم قوم کو درپیش مسائل سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔
 
اس امر میں کلام کی گنجائش نہیں کہ جنرل کیانی کے واضح بیان کے بعد ملک میں افواہیں پھیلانے والوں کو مایوسی ہوئی اور اس حوالے سے صورتحال واضح ہو گئی کہ فوج کسی قسم کا ایڈونچر نہیں کرے گی۔ گرچہ انہوں نے اس بات کو بھی برملا بیان کیا کہ قومی سلامتی کے معاملات کو صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی زیر غور لایا جائے گا اور دیگر معاملات سے قطع نظر قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات بالکل سامنے نظر آرہی ہے کہ حکومت کو میمو گیٹ معاملے پر جس رسوائی اور ہزیمت کا سامنا ہے اس سے بچنے کےلئے ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ”عوامی حکومت“ کو عوامی خواہشات کے برعکس ہٹانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ 

میمو گیٹ سکینڈل پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور روز اس حوالے سے نت نئی باتیں جس طرح سامنے آرہی ہیں اس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کی کیفیت موجود رہے گی کیونکہ اس انتہائی اہم معاملے پر ملک کے دو اہم اداروں کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب حکومت کا اس معاملے سے تعلق نہیں اور اس سکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی بھی اسلام آباد میں موجود ہیں تو تحقیقات میں تعاون سے گریز کیوں؟ پاک فوج کا موقف یہ ہے کہ میمو سکینڈل کے حوالے سے اس کے پاس ثبوت ہیں اور یہ امر واقعی ہے کہ یہی وہ ثبوت ہیں جنھیں وزیراعظم کو پیش کر کے اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ حسین حقانی کو امریکہ سے واپس بلوائیں۔ گاہے دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اداروں کو آپس میں لڑانے کےلئے یہ ایک وسیع پیمانے پر تیار کی گئی سازش ہے، جبکہ امریکہ نے میمو گیٹ سکینڈل کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔ عالمی سیاسی منظرنامے پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکہ جب کسی معاملے کو کسی دوسرے ملک کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے تو وہ اس معاملے کی اندرونی تہوں تک دخیل ہو چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس وقت میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات سے بچنے کےلئے جس طرح کی حکمت عملی تیار کی گئی اور جو واویلا کیا گیا اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 

کیا یہ امر واقعی نہیں ہے کہ اس ہفتے جب عدالت عظمیٰ میں پاک فوج اور حکومت نے میمو گیٹ سکینڈل پر اپنا اپنا جواب داخل کرایا تو یکدم سے اداروں کے درمیان تصادم اور ٹکراﺅ کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔ یہاں میڈیا کا رویہ بھی قدرے غیر ذمہ دارانہ رہا اور بعض بولتے توتے شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پاک فوج پر تنقید کرنے لگے۔ یہ پھبتی بھی کسی گئی کہ ”تارا مسیح“ جمہوریت کو پھندا ڈالنے کےلئے تیار ہے۔ پھر آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات ہوئی اور وزیراعظم نے کہا کہ ملکی و قومی سلامتی کے حوالے سے حکومت اور پاک فوج کا موقف ایک ہے اور یہ کہ حکومت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں، مگر پھر اگلے ہی روز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں فوج کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا اس سے ہر محب وطن کو فکر لاحق ہوگئی۔ اس امر میں بھی کلام نہیں کہ پارلیمنٹ ہی مقتدر ادارہ ہے مگر کیا نیٹو کی سپلائی بحال کرانے کےلئے اس طرح کے بھونڈے طریقے اختیار کئے جائیں گے؟ شہادت بڑی مرتبے والی چیز ہے مگر وزیراعظم صاحب یاد رکھیں کہ جس طرح وہ شہید ہو کر زندہ رہنا چاہتے ہیں ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔ بلکہ پاک فوج کے سالار نے یہ کہہ کر حکومتی رخصتی کی خواہش کو ختم کر دیا کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی جبکہ عدالت عظمیٰ نے بھی کہہ دیا کہ وہ دن گئے جب عدالتیں غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرتی تھی۔ کسی کو بھی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے اور نظام آئین کے مطابق چلتا رہے گا۔ یوں ہم سمجھتے ہیں کہ اب ان افواہوں کی زندگی اختتام کو پہنچی جن کے سہارے میمو گیٹ سکینڈل سے لے کر عوام کے اصل مسائل سے توجہ کو ہٹایا جا رہا تھا۔ ایک تسلسل کے ساتھ یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ عوامی حکومت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں؟ تمام ادارے جوابدہ ہیں؟ جمہوری حکومت کا ایک رویہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کی توقیر کرتی ہے۔ 

حکومتی ہیجان اور قومی سلامتی کے اداروں پر الزامات کا جواب جنرل کیانی نے بڑے مدبرانہ انداز میں دیا ہے اور ساتھ ہی اس امر کی جانب بھی اشارہ کر دیا کہ قومی سلامتی کے معاملات پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ میمو گیٹ سکینڈل کسی ایک شخص یا فرد کی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق ملکی سلامتی کے ساتھ ہے اور اسکی تحقیقات ضروری ہیں۔ بالکل واضح امر تو یہ ہے حکومت جانا چاہتی ہے مگر اسکے شدید ناقد بھی کسی غیر آئینی اقدات کی حمایت کرتے نظر نہیں آ رہے۔ مظلومیت کی چادر اوڑھ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا موسم گزر گیا۔ عوامی حکومت کے پاس زندہ رہنے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ وہ رخصتی کی خواہش کو دفن کر کے اپنی تمام تر صلاحیتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں لگا دے۔ توانائی بحران، بیروزگاری، مہنگائی اور کرپشن کے ناسور کا خاتمہ کرکے ہی حکومت اپنی ساکھ بحال کرسکتی ہے۔ ورنہ اپنے ہی اداروں پر تنقید کرکے اسے سوائے امریکی داشتہ کے اور کچھ بھی نہ کیا جائے گا۔ حکومت اپنی چار سالہ خراب کارکردگی کو دیکھتے ہوئے فرار کے تمام آئینی و غیر آئینی راستوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
مصنف :
خبر کا کوڈ : 125379
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش