0
Wednesday 28 Dec 2011 15:31

عراق، نئی سازشوں کا ہدف

عراق، نئی سازشوں کا ہدف
تحریر:ثاقب اکبر

مارچ 2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر چڑھائی اور فوجی قبضے کے لیے ایک لاکھ ستر ہزار فوجی بھجوائے تو اس کے مقاصد کیا تھے اور آج جب اسے اپنی تمام تر فوج کے ساتھ عراق سے نکلنا پڑا ہے تو اس کے دل میں کون سے ارمان باقی رہ گئے ہیں؟ آئیے اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ عراق کی تازہ صورت حال ملنے میں مدد مل سکے۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق پر چڑھائی کے لیے امریکہ کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل نہ ہو سکی تھی۔ عالمی اداروں اور عالمی برادری کی دہائی دینے والا امریکہ اس وقت ان کی حمایت کے بغیر ہی عراق پر چڑھ دوڑا تھا اور اس نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ اگر سلامتی کونسل نے اس کے احکام کی تعمیل نہ کی تو وہ نئی ”اقوام متحدہ“ تشکیل دے لے گا۔ عراق پر امریکی قبضے کے تین ماہ بعد جب جنرل جی گارنر کو عراقی حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کے ایک نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی کوئی انتہا تصور نہیں کی جاسکتی“۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”عراق کبھی بھی ایسی آرمڈ فورسز تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا جو ایران کی فوجی طاقت کی برابری کر سکیں لہٰذا امریکہ کو چاہیے کہ وہ عراق کو اکیلا نہ چھوڑے اور اس طرح خطے میں طاقت کے توازن کو بگڑنے سے روکے۔“

جنرل جی گارنر کے اس بیان سے عراق پر امریکی قبضے کے بعض بنیادی مقاصد واضح ہو رہے ہیں۔ 2011ء کے اواخر میں جب امریکی فوجی عراق چھوڑ رہے تھے تو ایران عراق تعلقات جدید تاریخ میں اپنی بہترین سطح پر تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہ دو ملک جو آٹھ برس تک باہم برسر پیکار رہے تھے وہ عراق پر پونے نو سال امریکی فوجی تسلط کے بعد خطے میں دوستی کی ایک مثال بن کر ابھریں گے۔ امریکہ کی حالت پر یہ مصرع صادق آتا ہے: 
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔

لیکن کیا امریکہ نے گذشتہ ناکامیوں کے بعد سازشوں سے توبہ کر لی؟ ظالم سرمایہ داری نظام کی حفاظت کے ذمہ دار امریکی حکام سے ایسی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔ جب عراق میں پہلی آئینی حکومت تشکیل پائی تو امریکہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ برسراقتدار آنے والے عوامی نمائندے اس سے تقاضا کر رہے تھے کہ وہ عراق کی داخلی سیکورٹی ان کے حوالے کر دے۔ منتخب عراقی قیادت آنکھیں بند کر کے امریکہ کی غلامی کرنے کو تیار نہ تھی۔ امریکہ کا خیال تھا کہ یہ سب وزیراعظم ابراہیم جعفری کی ضد کے باعث ہے لہٰذا وزیراعظم تبدیل کروا دیا جائے۔ ابراہیم جعفری کی جگہ نوری المالکی وزیراعظم بن گئے لیکن انھوں نے بھی رفتہ رفتہ امریکہ سے ویسے ہی مطالبات شروع کر دیے۔ عراق کی منتخب قیادت نے امریکہ سے مطالبہ کرنا شروع کیا کہ وہ اپنی افواج عراق سے نکالنے کا ٹائم ٹیبل دے۔ امریکہ پہلے تو لیت و لعل کرتا رہا لیکن آخر کار اسے عراقیوں کا یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔

امریکہ میں صدر بش کی حکومت کے آخری سال میں عراقی حکومت اور امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکہ اس بات کا پابند تھا کہ وہ دسمبر 2011ء تک اپنی ساری فوج عراق سے نکال لے اور 2008ء میں عراقی شہروں سے نکل کر داخلی سیکورٹی عراقی اداروں کے حوالے کر دے۔ اب امریکہ کی ساری توقع آئندہ منتخب ہونے والی عراق کی قومی اسمبلی اور حکومت سے وابستہ ہو گئی۔ امریکہ اور علاقے میں اس کی حامی عرب حکومتوں نے ایاد علاوی کی قیادت میں قائم اتحاد سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیں۔ ایاد علاوی کو اردن، قطر، کویت اور سعودی عرب کی خصوصی حمایت حاصل تھی۔ عرب لیگ کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل انھوں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا جہاں سے انھیں انتخابات کے لیے بھاری رقم وصول ہوئی تھی۔ ایاد علاوی کو امریکہ نے کچھ عرصہ عبوری دور کے لیے عراق کا وزیراعظم بھی نامزد کیا تھا۔ ایاد علاوی امریکی افواج کے مزید عراق میں رہنے کی حمایت بھی کرتے رہے تھے لہٰذا پورا زور اس امر پر صرف کر دیا گیا کہ ایاد علاوی کی قیادت میں قائم العراقیہ الائنس کو کامیاب کروایا جائے تاکہ آئندہ کی امریکی منصوبہ بندی کے لیے عراق کی نئی منتخب حکومت کا باقاعدہ تعاون حاصل کیا جاسکے۔ العراقیہ کو انتخابات میں نوری المالکی کی قیادت میں قائم اتحاد سے ایک سیٹ زیادہ مل گئی لیکن وہ عراقی پارلیمنٹ میں مجموعی طور پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ دوسری طرف نوری المالکی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر نئی حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ انھوں نے العراقیہ کو بھی قومی ہم آہنگی کے عنوان سے حکومت میں شریک کر لیا تھا لیکن امریکی منصوبے بہر حال دھرے کے دھرے رہ گئے۔ امریکہ کے تمام تر حربوں اور کوششوں کے باوجود نئی پارلیمنٹ اور حکومت نے امریکی فوجی انخلا کے معاہدے پر نظر ثانی کی حامی نہیں بھری اور ان کا اصرار رہا کہ امریکہ ہر صورت میں معاہدے کے مطابق عراق کی سرزمین سے نکل جائے۔
عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے چند روز بعد العراقیہ کے عراقی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے خم ٹھونک کر سامنے آجانے اور بغداد میں ہونے والے حالیہ خونریز دھماکوں کی وجوہ تلاش کرنے کے لیے اس ساری صورت حال کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

نیا بحران العراقیہ کے راہنما اور عراق کے نائب صدر طارق الہاشمی کے خلاف عدالتی حکم کے بعد سامنے آیا ہے۔ بغداد میں قائم پانچ رکنی عدالتی بنچ نے اپنے ایک متفقہ حکم میں دہشت گردی کے بعض واقعات میں ملوث ہونے کی بنا پر طارق الہاشمی کی گرفتاری کا حکم جاری کیا۔ طارق الہاشمی خود مختار عراقی کردستان کے مرکز اربیل کی طرف فرار ہو گئے اور ہاں انھوں نے عدالتی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی عراق کے اندر اور باہر طارق الہاشمی کے حامی بول اٹھے۔ ذرائع ابلاغ نے مسئلے کو شیعہ سنی رنگ دینا شروع کردیا۔ 22 دسمبر کو بغداد میں لگاتار 16دھماکے ہوئے جن میں 80 کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، سینکڑوں زخمی ہوئے۔ وہ مسئلہ جو سیدھا سیدھا قانونی ہے اسے سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ یاد رہے کہ طارق الہاشمی کے ذاتی محافظوں نے عدالت کے روبرو واضح اعتراف کر لیا ہے کہ طارق الہاشمی دسیوں سیاستدانوں اور فوجیوں کے قتل میں ملوث رہا ہے اور ان کے ذریعے سے دہشت گردوں تک اسلحہ اور پیسہ پہنچاتا رہا ہے۔ عدالتی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ طارق الہاشمی نے وزیراعظم نوری المالکی کو قتل کروانے کی بھی سازش کی تھی۔ پانچ ججوں پر مشتمل اس بنچ میں سنی اور شیعہ جج شامل ہیں۔

ان واقعات کے بعد ایاد علاوی اور طارق الہاشمی نے عرب لیگ اور اقوام متحدہ سے مدد طلب کی ہے اور اس معاملے میں ان سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ خود مختار کردستان کی حکومت کے سربراہ مسعود بارزانی نے طارق الہاشمی کو مرکزی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

وہ معاملہ جو دنیا بھر میں سیدھا سادہ قانونی قرار دیا جاتا ہے اسے فرقہ وارانہ بنائے جانے کے پیچھے جو محرکات کارفرما ہیں وہ رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں۔ معاملے کو عراق کی فرقہ وارانہ تقسیم کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ الانبار، صلاح الدین اور نینوا صوبوں پر مشتمل الگ سنی عراق بنانے کے لیے سرگرمیاں تیز کردی گئی ہیں۔ امریکہ بھی مسئلے کو سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے میں پیش پیش ہے۔ ملزم کو عدالت کی تحویل میں دینے کی بات کرنے کے بجائے امریکی نائب صدر جوف بائیڈن نے عراقی راہنماﺅں سے فون پر بات کرکے ”سیاسی بحران“ کو حل کرنے کی فرمائش کی ہے۔

علاقے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ مسعود بارزانی کے امریکہ کے ساتھ کتنے قریبی تعلقات ہیں۔ ان حالات میں علاقے کی رجعت پسند اور امریکہ نواز قوتوں نے بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس تمام جنجال آفرینی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ ثابت کیا جائے کہ عراق میں امن و امان امریکی فوج کی بدولت قائم تھا اور امریکی افواج کے نکل آنے سے وہاں صورت حال خراب ہو گئی ہے تاکہ عراق کے اندر کسی نہ کسی صورت میں نئی فوجی مداخلت کی راہ ہموار ہو سکے۔

عراق میں قائم وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت سے امریکہ اور عرب لیگ میں موثر دھڑے کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ اس نے شام کے بائیکاٹ میں عرب لیگ کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عراق بھی شام کے بائیکاٹ میں شریک ہو گیا تو شام کا چاروں طرف سے محاصرہ مکمل ہو جائے گا اور وہاں پر سے اسرائیل مخالف حکومت کا خاتمہ آسان ہو جائے گا۔ عراق میں سنی آبادی پر مشتمل صوبوں پر مشتمل الگ ملک یا خود مختار علاقہ قائم کرنے کی صورت میں یہ مقصد پورا کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ نوری المالکی کے حالیہ دورہ واشنگٹن میں بھی امریکی حکام نے نوری المالکی سے اپنا یہ مطالبہ منوانے کی کوشش کی لیکن وزیراعظم نوری المالکی نے انکار کر دیا۔

ان حالات میں یہ سوال فطری ہے کہ عراق کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا موجودہ عراقی قیادت اپنے ملک کو ان مشکلات سے نکال کر روشن مستقبل کی طرف لے جاسکے گی اور کیا عراق کی قومی سالمیت کا تحفظ کر سکے گی اور ملک کی تعمیر نوکے بہت بڑے چیلنج سے عہدہ بر آ ہو سکے گی؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ماضی قریب میں اس حکومت کی کارکردگی کا دقت نظر سے جائزہ لینا ہو گا۔ علاوہ ازیں بعض زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ ہم اختصار سے چند حقائق اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

(1) یہ درست ہے کہ عراق کے بعض صوبوں میں شیعوں کی بھاری اکثریت آباد ہے اور بعض میں اہل سنت کی تاہم بغداد جو مرکزی صوبہ ہے اس میں شیعہ سنی دونوں کی آبادی قابل ذکر ہے۔ مجموعی طور پر عراق میں شیعہ اکثریت میں ہیں۔ اہل تشیع کل آبادی کا کم از کم 60 فیصد ہیں۔ اس تمام تر آبادی کے نمائندے موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔ سنیوں کو عالمی سازشوں کے ذریعے کردوں اور عربوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہ تقسیم اتنی گہری ہے کہ عرب لیگ میں عراقی صدر جلال طالبانی کو نمائندے کے طور پر صرف اس لیے قبول نہیں کیا گیا کہ وہ کرد ہیں۔ خود کردوں کے اندر بھی تقسیم موجود ہے۔ موجودہ خود مختار کردستان میں کرکوک اور بعض دیگر علاقے شامل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرکوک میں عرب اور کرد آبادی نصف نصف ہے۔ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے عراق کا سب سے اہم شہر کرکوک ہی ہے۔ جہاں تک الانبار، صلاح الدین اور نینوا کے صوبوں کی سنی آبادی کا تعلق ہے تو عراق کی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر جب بعض حلقوں نے بائیکات کا اعلان کیا تو صوبہ صلاح الدین اور نینوا کے سنیوں نے اس بائیکاٹ میں حصہ نہ لیا۔ موجودہ حکومتی اتحاد میں اہل سنت کے متعدد نمائندے بھی شامل ہیں جبکہ العراقیہ جو اس وقت سنی حقوق کی علمبردار بن گئی ہے اس میں بھی بعض شیعہ شامل ہیں۔ عراق کا ماضی گواہ ہے کہ وہاں ہمیشہ شیعہ سنی مل کر رہے ہیں۔ امریکہ کے فوجی قبضے کے بعد شیعہ سنی مسائل کو ہوا دی گئی۔ اب بھی توقع کی جانا چاہیے کہ بالآخر عراق کی باشعور قیادت فرقہ وارانہ مسائل پر ماضی کی طرح قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

(2) سنی آبادی پر مشتمل عراقی صوبے اپنے وسائل کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ عراق کے زرخیز خطوں میں شیعہ اکثریت سے آباد ہیں جبکہ تیل کے پیداواری علاقوں میں شیعہ سنی، کرد عرب سب موجود ہیں۔ تمام صوبے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ عراق کے حصے بخرے ہونے کی صورت میں تمام گروہ کمزور ہوجائیں گے اور سب سے زیادہ کمزور مملکت سنی عوام پر مشتمل ہو گی جبکہ کمزور ریاستیں اغیار کے لیے ترنوالہ ثابت ہوتی ہیں۔ عراق کے تمام علاقوں کا متحد رہنا تمام گروہوں کے مفاد میں ہے۔ اس کا احساس عراق کے عوام کو بھی ہے یہی وجہ ہے کہ تقریباً نو سالہ امریکی قبضے کے دوران میں سب نے مل جل کر عراق کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر کامیابی حاصل کرلی۔ اس دوران میں شیعہ سنی اختلافات پیدا کرنے کی بے پناہ کوششیں ہوئیں جو آخر کار دانش مند قیادت کے حوصلے اور تدبر نے ناکام بنا دیں۔

(3) عراق کے اندر حالیہ دھماکوں کا پس منظر ہم سطور بالا میں بیان کر چکے ہیں۔ امریکی افواج کی موجودگی میں عراق کے اندر اس سے کہیں زیادہ دھماکے ہوئے اور خونریز واقعات نے جنم لیا۔ جوں جوں عراق کی داخلی سیکورٹی عراقی حکومت کے ہاتھ میں آتی گئی ان واقعات میں کمی ہوتی گئی۔ عراق کی داخلی سیکورٹی 2008ء میں عراقی اداروں کے سپرد ہوئی۔ عراق کے اندر ہونے والے خونیں واقعات اس سے قبل کہیں زیادہ تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن وامان کے ذمہ دار عراقی ادارے قبل ازیں اپنی اہلیت کا امتحان کامیابی سے دے چکے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی سازشوں کے نتیجے میں دہشت گردی کی پیدا ہونے والی نئی لہر پر بھی وہ قابو پا لیں گے۔

(4) عراق کی اہم ترین ہمسایہ ریاستیں ایران، شام اور ترکی عراق کی تقسیم کی مخالف ہیں۔ وہ اس سلسلے میں مشترکہ طور پر اور علیحدہ علیحدہ بار ہا اس موقف کا اظہار کر چکی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ ممالک عراق کے حصے بخرے کیے جانے کی عالمی سازش کو ناکام بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ اس سلسلے میں عراق کے اندر سب سے زیادہ ایران کو اثرورسوخ حاصل ہے کیونکہ اس نے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر جس طرح سے عراق کی تعمیر نو اور مختلف گروہوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کیا اس کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔ امید ہے وہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرے گا۔

(5) عرب دنیا میں تبدیلی کی جو لہر جاری ہے وہ بھی عراق پر مثبت اثر مرتب کرے گی۔ مصر میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد مصر عراق تعلقات پہلے کی نسبت ضرور بہتر ہوں گے۔ مصر عرب لیگ میں بھی حسنی مبارک کے دور کی نسبت بہتر کردار ادا کرے گا۔ شام میں بھی بیرونی مداخلت کے اثرات کم ہورہے ہیں۔ نئی تبدیلیاں جو ایک ہمہ گیر اسلامی بیداری کا نتیجہ ہیں شیعہ سنی اختلافات کو کم کرنے میں موثر واقع ہوں گی۔

(6) جب امریکہ اور برطانیہ کی سوا دو لاکھ فوج عراق کے اندر پونے نو سال موجود رہ کر استعماری مقاصد حاصل نہیں کر پائی تو عراقی عوام کے اتحاد کی وجہ سے وہاں سے نکلنے کے بعد ان کی ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں۔

مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اس امید کا اظہار کر سکتے ہیں کہ آئندہ کا عراق ایک متحد اور ترقی یافتہ اسلامی عراق ہوگا جو خطے میں مزید مثبت تبدیلیوں کا سرچشمہ ثابت ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 125794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش