0
Saturday 17 Dec 2011 14:57

عراق سے امریکہ کا نکلنا

عراق سے امریکہ کا نکلنا
تحریر:ثاقب اکبر

عراق سے امریکہ کے نکلنے کا خیال ذہن میں آتا ہے تو بے ساختہ مرزا غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
جب امریکی بیٹھ کر سنجیدگی سے حساب کریں گے تو خدا جانے کس نتیجے پر پہنچیں گے۔ کیا کھویا اور کیا پایا کا جواب شاید درست طور پر نہ دیا جا سکے۔ مالی جمع تفریق بھی اتنی آسان نہیں چہ جائیکہ امریکہ کی رسوائیوں کا حساب لگایا جا سکے، ایک ملین سے زیادہ انسانوں کے خون کی قیمت کا اندازہ کیا جا سکے اور پیچھے رہ جانے والے زخمیوں، معذوروں، بیواﺅں اور یتیموں کی سسکیوں اور آہوں کا حساب کیا جا سکے۔ تو کہ سوداگر دنیا ہے تو ایک سودا کر
میرے اشکوں کی تری جیب میں قیمت کیا ہے
 سوداگرانہ ذہنیت کب اخلاقی پیمانوں کی طرف منعطف ہو سکتی ہے۔
 
بہرحال امریکہ نے 2011ء کے آخر تک بلاواسطہ اس جنگ پر آٹھ سو دو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور اس کے علاوہ سات سو سنتالیس اشاریہ چھ ارب ڈالر مختص کر چکا ہے، جبکہ برطانیہ نے سوا نو ارب پاﺅنڈ اس جنگ میں جھونکے۔ یہ رقم امریکی اور برطانوی سرکاری اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہے، لیکن نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات جوزف سٹگلٹز اور ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کو یہ جنگ تین کھرب ڈالر میں پڑی ہے۔
 
ظاہر ہے معاشیات کے یہ ماہرین علم معاشیات کے سرمایہ دارانہ گورکھ دھندوں پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ نے پورے سرمایہ دارانہ نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔ تیل اور اسلحے کے سوداگروں کی تجوریاں تو مزید بھرگئی ہیں لیکن عوام کی بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور مغربی یورپ کے نہایت اہم ممالک کے سینکڑوں بینک دیوالیہ ہو گئے ہیں۔ اس بینکنگ سسٹم کو بچانے کے لیے جو داخلی قرضے لیے گئے ہیں انھوں نے مقروض معیشتوں کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے نئی قانون سازی کا سہارا لیا گیا ہے، تاکہ حکومت مزید داخلی قرضے لے سکے۔ بے رحم سرمایہ داروں نے اپنے اموال میں اضافہ کیا ہے، لیکن حکومت اور عوام کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
 
اس جنگ کے دوران میں عراق میں جو تباہی آئی ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کی نظر تو فقط اپنے پانچ ہزار فوجیوں کی لاشوں پر ہے، عراقیوں کی لاشیں تو گنی بھی نہیں جا سکتیں۔ اللہ جانتا ہے کہ کتنی لاشوں کے چیتھڑے گننے کے قابل بھی نہیں رہے اور بعض خاندانوں میں سے کوئی ایسا فرد ہی نہیں بچا جو بتا سکتا کہ اُن پر کیا گزری ہے۔ 

بعض اداروں کے اندازے کے مطابق بربادی کے اس وحشت ناک دور میں دس لاکھ عراقی مارے گئے۔ دی لانسٹ نامی جریدے نے مارچ 2003ء اور جون 2006ء سے دسمبر2011ء کے درمیان عراقیوں کی ہلاکتوں کا اندازہ ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ لگایا تھا۔ جون 2006ء سے دسمبر2011ء کے درمیان جو ہلاکتیں ہوئیں ان کی اصل رپورٹ شاید سامنے نہ آسکے۔ ان میں عراقی عوام کے نجات دہندہ راہنماﺅں اور علماء کی ہلاکتیں اور شہادتیں بھی شامل ہیں جو استعماری مقاصد کے لیے سرگرم عسکریت پسندوں کی وارداتوں کا نشانہ بن گئے۔
 
انہی میں آیت اللہ باقر الحکیم جیسے محبوب راہنما بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے صدامی آمریت سے عراقی عوام کی نجات کے لیے سالہا سال جلا وطنی میں تحریک چلائی تھی اور جنھیں عراقی عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ انسانی جانوں پر ہی کیا بس ہے۔ دینی مراکز، مساجد اور مقابر پر جو کچھ بیتی اس نے بھی انسانی تاریخ کے دردناک سانحات میں اضافہ کر دیا ہے۔ کربلا و نجف اس وحشت گری کی زد میں آئے، کاظمین اور سامرہ نے بھی بربریت کے مظاہر دیکھے۔
 
امریکی مسلط کردہ جنگ کے دوران میں دربدر ہونے والے عراقیوں کی تعداد سولہ لاکھ بتائی جاتی ہے، جو ابھی تک اپنے گھر میں بے گھر ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے ایران میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان سب تباہیوں میں صدام کے دور حکومت میں آنے والی گذشتہ تباہیوں اور ہولناکیوں کے نتائج کو بھی شامل کر لیا جائے تو عراقیوں کی مصیبتیں کئی گنا ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب صدام امریکہ کو بہت محبوب تھا اور امریکی اسلحے اور حمایت کے زور پر وہ ہر طرف درندگی کرتا پھرتا تھا۔
 
آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کے چیمپئن یہ تحفے دے کر آخر کار عراق سے رخصت ہو گئے ہیں، لیکن وہ جانا کب چاہتے تھے۔؟ وہ تو جا کر بھی اپنی فوجی گرفت عراق پر رکھنا چاہتے تھے، لیکن عراقی عوام کی منتخب قیادت کی اکثریت اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ تمام تر فوجی اور اقتصادی پہلوﺅں کے لحاظ سے امریکہ نے کس حد تک عراق پر سے اپنا دست شفقت اٹھا لیا ہے اس کی اصل صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہو گی، لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ امریکی فوجی تسلط کی موجودگی میں منتخب ہونے والی عراق کی سیاسی قیادت نے جس ہوشمندی کا ثبوت دیا ہے اور امریکہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے وہ نہایت قابل قدر اور مثالی ہے۔
 
عراق پر قبضے کے امریکی استعماری مقاصد کی مجموعی طور پر جس انداز اور جس پیمانے پر شکست ہوئی ہے، وہ بھی امریکہ کے لیے رسوا کن ہے۔ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ انہی مقاصد میں سے ایک تھا۔ یہ منصوبہ عراق کی سیاسی و مذہبی قیادت کی دانشمندی اور ہمسایہ ممالک کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہو گیا اور آج عراق ایک متفقہ آئین کے مطابق منتخب ہونے والی حکومت کے تحت تباہیوں اور بربادیوں کی تاریخ کو پیچھے چھوڑنے کے لیے متحد ہے۔ توقع کی جانا چاہیے کہ عراقی قیادت پیش نظر امتحان میں بھی سرخرو ہو کر نکلے گی۔
 
امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے شیعہ سنی فسادات اور نفرتوں کو ابھارنے کی بھی بہت اندوہناک کوششیں کیں۔ آئمہ اہل بیت ع کے مزارات کی تباہی اور سید باقرالحکیم جیسے اکابر علماء کا قتل انہی کوششوں کا حصہ تھا۔ افسوس ان کوششوں میں اُسے سعودی عرب اور بعض دیگر ملکوں کی کوتاہ اندیش حکومتوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ عراق کی مذہبی اور سیاسی قیادت نے اپنی بصیرت سے اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا۔ 

شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ فرقہ وارانہ منافرتوں کو روکنے میں سب سے نمایاں کردار آیة اللہ سیستانی کا ہے، جو عراق کی سب سے قدآور مذہبی شخصیت ہیں۔ انھوں نے شیعوں پر حملوں اور اہل بیت ع کے مزارات کی تباہی کے ہر واقعے کے بعد مشتعل شیعوں کے سنی عوام کے خلاف ہر قسم کے ردعمل کو روکنے کے لیے نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں۔
عراق میں شیعہ سنی فسادات کی سازش بہت پہلو دار تھی۔ اس کا ایک مقصد عراق کی فرقہ وارانہ تقسیم تھا اور دوسرا اس علاقے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کو روکنا بھی تھا۔
 
پہلے مرحلے میں امریکہ کا خیال تھا کہ وہ اپنے فوجی غلبے کی بنیاد پر عراق کو صدام سے نجات دلانے کے اعزاز کے ساتھ ایسی عراقی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے گا، جو ایران کے گرد امریکی محاصرہ مکمل کرنے کے مقصد میں معاون ہو سکے، لیکن شاید امریکہ کو سب سے بڑی شکست اسی محاذ پر ہوئی ہے۔ عراق کی منتخب حکومت کے ایران کے ساتھ مسلسل اچھے روابط رہے ہیں۔ ایران نے اس دوران میں عراق کے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ عراقی عوام کو واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔
 
امریکہ نے بہت کوشش کی کہ عراق کے اندر بعض واقعات کو ایرانی مداخلت کا نام دے کر عراق کو ایران کے خلاف کھڑا کر سکے، لیکن عراقی قیادت نے ایسے ہر الزام کو ہمیشہ مسترد کر دیا۔ آج جبکہ عراق کی منتخب حکومت کے دباﺅ اور اصرار پر امریکی افواج عراق چھوڑ کر جا چکی ہیں، ایران عراق تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں، جن کے مستقبل میں مزید بہتر ہونے کے امکانات نہایت واضح ہیں۔
 
ادھر امریکی افواج ظلم و بربریت اور اپنی نامرادی کا داغ لیے عراق سے نکلی ہیں، اور ادھر مشرق وسطٰی میں آزادی کا نیا سورج طلوع کر رہا ہے۔ مصر کے میدان تحریر میں حریت پسندوں کے جذبوں کی تازگی ابھی باقی ہے۔ ان کے اثرات پورے خطے میں ہی نہیں پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اپنے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ سے زیادہ فکر مند ہے۔ علاقے کی خاندانی بادشاہتیں اپنے استبداد کے آخری ہتھکنڈے آزمارہی ہیں۔ 

ایسے میں عراق کی قیادت کو ابھی کچھ اور امتحان درپیش ہیں۔ سب سے بڑا امتحان عراقی عوام کو متحد و منظم کر کے عراق کی تعمیر نو کے لیے ایک انقلابی روح کا پیدا کرنا ہے۔ اگر اس مرحلے کو کامیابی سے عبور کر لیتی ہے، تو اس خطے میں آئندہ کی شکل گیری میں وہ ایک نہایت اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو گی۔ ابھی تو اسے بہت سے زخم بھرنے ہیں، ابھی تو ”پنبہ کجا کجا نہم، ہمہ تن داغ داغ است“ کی صورت درپیش ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ عراق اس صورتحال سے نکل کر استقامت اور حوصلے کے معجز آسا نتائج دنیا کے سامنے پیش کرے گا اورخطے میں مثبت تبدیلیوں کے لیے ایک سرچشمہ ثابت ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 122904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش