0
Monday 2 Jan 2012 21:49

تحریک انصاف کو درپیش چیلنجز

تحریک انصاف کو درپیش چیلنجز
تحریر:زکی عباس

تحریک انصاف کو لاہور میں کیے گئے جلسے سے عوامی حلقوں میں جتنی پذیرائی ملی اس سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ تحریک پاکستان کے لیڈر عمران خان کی پندرہ برس کی سیاسی ناپختگی بہرحال مثبت نتائج کی جانب بڑھنے لگی ہے۔ 1996ء سے اپنا سیاسی کیرئر شروع کرنے والے عمران خان نے جلد ہی نوجوان طبقے کو اپنی جانب مبذول کر لیا تھا جو کہ روایتی سیاسی نظام سے نالاں تھے مگر عمران خان کے لیے سیاسی میدان کارزار بالکل نیا تھا اس لیے کبھی عمران خان نے 2002ء کے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی تو کبھی آمروقت پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں مگن ہو گئے۔ مگر 1996ء سے لے کر 2011ء تک کے اس طویل سیاسی سفر میں انھوں نے کبھی بھی سیاسی پختگی کا مظاہرہ نہ کیا اور ہر مسئلے پر ڈانواڈول ہی رہے مگر خوش قسمتی سے اپنے خوبصورت لب و لہجہ اور دلنشیں شخصیت کے باعث ہمیشہ ٹی وی چینلوں پر نظر آنے لگے اور یہیں سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا مگر بیشتر سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق تھے کہ عمران خان کبھی بھی اہم سیاسی پوزیشن حاصل نہیں کر پائیں گے۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں نے اپنی اس قیاس آرائی کی وجہ عمران خان کے سیاست کے میدان میں گزارے پندرہ سالوں کو قرار دیا۔ جس میں عمران خان اور ان کی پارٹی ایک واضح لائحہ عمل اور حکمت عملی واضح نہیں کر سکے تھے جو کہ قیادت کی کمزوری گردانی جاتی ہے۔ مگر حکومتی ایوانوں سے پے در پے ایفائے عہد نہ پورا کرنے، عوام الناس کے لیے ضروریات زندگی کے ناپید ہونے، انصاف کی عدم فراہمی اور شہریوں کی زندگیوں سے امن و سکون کے غائب ہونے نے عوامی حلقوں کو عمران خان کی جانب مائل کیا۔ یہاں اس بات سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان کو عوام الناس میں مقبول کرنے کے لیے یقیناً کسی نادیدہ قوت کا ہاتھ ضرور ہے۔ 

شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو سب سے پہلے مرکزی پنجاب کے کچھ حصوں میں عوامی حمایت کے مظاہرے کرنے کے مواقع ملے اور وہ لاہور میں تاریخی جلسہ کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ تحریک انصاف کے اس جلسے کے انعقاد کے بعد سے پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی اور تقریبا تمام سیاسی، مذہبی، غیر سیاسی اور پریشر گروپس نے اپنے اپنے طریقہ سے عوامی طاقت کا مظاہرہ کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ 

علمِ سیاست کے ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کے جلسے سے صرف دو روز پہلے پاکستان مسلم لیگ (نواز ) نے وفاقی حکومت ریلی منعقد کر کے تحریک انصاف کے جلسے کی نہ صرف اہمیت بڑھا دی بلکہ تحریک انصاف کے لیے تخت لاہور کے دروازے وا کر دیئے۔ یہ امر واضح ہے کہ تحریک انصاف نے اس جلسے کے ذریعے اپنی انتظامی صلاحیت اور عوامی حمایت کا بہترین مظاہرہ کیا مگر اپنی پندرہ سالہ روایت کو قائم رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان اس دفعہ بھی کوئی واضح اور مدّلل حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہ دیئے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں پٹواری نظام اور تھانہ کلچر کی قباحتوں کا کھل کر تذکرہ کیا جو کہ ہر پاکستانی کو نہ صرف ازبر ہو چکی ہیں بلکہ ہم میں سے بیشتر کسی نہ کسی طرح اس نظام کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عمران خان ایک اچھے، سلجھے اور منجھے ہوئے سیاسی لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی قدغنوں سے پاکستان کو پاک و صاف کرنے کی عملی تدابیر بتاتے نہ کہ موجودہ نظام کی برائیاں دنیا کے سامنے مزید آشکار کر کے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنتے۔ 

عمران خان ہمیشہ سے حکومتی ایوانوں اور سیاست دانوں پر تنقید کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور یہی سب انھوں نے اپنے لاہور میں کیے جانے والے جلسے میں بھی اسی شد و مد سے کیا جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ میری رائے میں خان صاحب جب دوسروں پر انگلی اٹھا رہے ہوتے ہیں تو ان کو وہ چار انگلیوں کی صدا سنائی نہیں دیتی جو ان کے اپنے دامن میں لگے بے شمار الزامات پر استفسار کر رہی ہوتی ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے لاہور کے بعد کراچی میں کیے گئے اپنے خطاب میں بھی سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، آئندہ انتخابات میں کسی امیدوار کو اس وقت تک پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملے گا جب تک وہ امیدوار اپنے اثاثوں کا اعلان نہیں کرے گا۔ 

عمران خان پاکستانی سیاست دانوں کے گوشواروں کے بارے میں ہمیشہ سے متفکر دکھائی دیتے ہیں مگر انہیں اپنے قریبی ساتھیوں کے گوشوارے نظر کیوں نہیں آتے؟ اور تا حال عمران خان نے اپنی پارٹی میں شامل ہونے والے فصلی بٹیروں کے گوشوارے عوام الناس کے سامنے کیوں نہیں رکھے؟ معیشت کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کوئی بھی سیاسی جماعت جو حکومت کرنے کی خواہاں ہو اس کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ایسا معاشی نظام اور لائحہ عمل ترتیب دیں جو تمام طبقہ فکر کے لیے قابل قبول ہو اور کسی طبقے کی حق تلفی نہ کی جائے۔ معیشت کا ادنی و حقیر طالب علم ہونے کے ناتے عمران خان کے لاہور میں کیے گئے خطاب سے یہی سمجھ آیا کہ دلکش نعروں اور ڈھول کی تھاپ کی مدد سے پاکستان تحریک انصاف چیدہ چیدہ معاشی مسائل بجٹ کے خسارے، بیرونی سرمایہ کاری کے فقدان اور کمزور صنعتی شعبے اور تجارتی خسارے جیسے معاشی مسائل حل کرنا چاہتی ہے۔ 

بدقسمتی سے دہشت گردی کے مسئلے پر عمران خان کے خیالات قابل صد تنقید ہیں۔ عمران خان پاکستان کی پارلیمان کی قیادت سنبھالنے کے متمنی ہیں اور تعزیرات پاکستان عمران خان کو اس بات کا پابند کرتی ہیں کہ وہ ملک کا سب سے اہم عہدہ اپنے پاس رکھنے سے پہلے اس بات کا حلف اٹھائیں کہ وہ پاکستان کی بقا، خودداری اور سالمیت کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے مگر خان صاحب عسکریت پسندوں، پاکستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے والوں، ہزاروں بےگناہ اور نہتے پاکستانیوں کو شہید کرنے والوں اور لاکھوں پاکستانی شہریوں کو یرغمال بنانے والوں کے خلاف فوجی کارروائی کے مخالف ہیں۔ عمران خان امریکہ کی مخالفت میں یہ بات بھول رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان خود پاکستان کا ہوا ہے اور تاحال پاکستان اس سماجی و معاشرتی ناسور کے خلاف مسلسل لڑ رہا ہے۔ 

لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے یکے بعد دیگرے پشاور، چکوال اور ملک کے دیگر شہروں میں پرہجوم جلسے منعقد کیے۔ ان جلسوں کے کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر جہاں غیبی ہاتھ مزید مشفق ہوتا دکھائی دیا وہیں جوق در جوق سیاسی کھلاڑی اور فصلی بٹیرے عمران خان کے لشکر میں شامل ہونے لگے کہ اب کی باربام حکومت دو جماعتی نظام سے ایک دفعہ پھر تیسری طاقت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں آنے کی پیشیں گوئیاں ہونے لگیں۔ خود عمران خان نے اپنی صفوں میں گھاگ سیاست دانوں کو جگہ دیتے ہوئے بڑا پرمغز جملہ ادا کیا، لوگ نظریے کو دیکھ کر پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ کامیاب جلسوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے عمران خان اپنے کارکنوں اور فصلی بٹیروں کے ہمراہ 25 دسمبر کو کراچی پہنچے۔ مزار قائد کے قریب بانی پاکستان کے ایک سو چھتیسویں یوم ولادت کے موقع پر سیاسی کھلاڑیوں کی پوری ٹیم کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا، وہ فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے ایک ایسی ٹیم بنا رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں بنی ہو گی اور اس میں کسی کو بھی سفارش پر بھرتی نہیں کیا جائے گا۔ ان کی یہ بات شاہ محمود قریشی، سردار آصف خان، خورشید محمود قصوری ، مخدوم جاوید ہاشمی اور اسی قبیل کے دیگر سیاست دانوں پر صادق آتی ہے۔ 

عمران خان نے لاہور میں کیے اپنے خطاب کی طرح کراچی میں بھی اپنی پارٹی کی جانب سے کوئی غیر روایتی پالیسی نہیں پیش کی ماسوائے پرانی ڈگر کے سیاسی بیان دینے کے، جس کے مطابق ان کی پالیسیاں نوے فیصد عوام کے لیے ہوں گی، تعلیم، صحت، انصاف مفت ہو گا۔ تعلیم ایسی ہو گی کہ غریب کا بیٹا بھی وزیراعظم بن سکے اور کسان کو اس کا حق ملے گا۔ اپنی تقریر میں عمران خان نے تمام سیاست دانوں کی طرح بلوچستان کے مسائل کا بھی ذکر کیا اور پاکستان تحریک انصاف کے اگلے جلسے کے لئے 23 مارچ 2012ء کو کوئٹہ کے مقام کا اعلان کیا۔ 

اگرچہ عمران خان نے اپنی تقریر میں جذباتیت دکھاتے ہوئے یہ اعلان کیا، "میں محمد علی جناح کے مزار پر وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان کے کلمات پر عمل کروں گا، انہوں نے عوام کا ایک پیسہ بھی چوری نہیں کیا تھا اور میں اس کی پیروی کروں گا"۔ یہی نہیں جوش خطابت میں عمران خان نے یہ اعلان بھی کر ڈالا کہ ان کی منتخب حکومت 90 دن کے اندر اندر پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کر دے گی مگر تاحال وہ یہ نہیں بتا سکے کہ ان کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کو استعمال کر کے وہ پاکستانی معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے۔ کراچی میں عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کے دیگر عہدیداروں نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف سے عرصہ دراز سے وابستہ رہنے والے عہدیداران سے زیادہ عمران خان اپنے نئے ساتھیوں کے قریب بیٹھے دکھائی دیئے، اگرچہ مخدوم شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، لغاری برادران اور دیگر سیاسی عمائدین کی تحریک انصاف میں شمولیت سے عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ کو بہت تقویت ملی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے ارد گرد منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑیوں کو دیکھ کر یہ طے نہیں کر پا رہے کہ کس سیاست دان کو پارٹی میں کیا مقام دینا ہے؟ 

تاہم سیاسی حلقے مخدوم جاوید ہاشمی کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کو جہاں عمران خان کی مسلم لیگ نواز پر ایک بہت بڑی سیاسی فتح قرار دے رہے ہیں وہیں جاوید ہاشمی کی "باغیانہ سیاست" عمران خان کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں۔ یہی نہیں عمران خان کے لیے مخدوم شاہ محمود اور جاوید ہاشمی کے درمیان مساوی سلوک کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کہ دونوں سیاسی شخصیات چار مرتبہ ملتان کے ایک ہی انتخابی حلقے سے ایک دوسرے کے روایتی حریف تھے۔ یاد رہے کہ عمران خان کی پارٹی میں خورشید محمود قصوری اور سردار آصف علی خان بھی دو ایسی شخصیات ہیں جو 2008ء کے انتخابات میں مدمقابل رہی ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی شخصیات عمران خان کے بینر تلے اکٹھی ہونے لگی ہیں جو جلد یا بدیر عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کے لیے امتحان ہوں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان صرف کامیاب جلسے، جلوس اور ریلیاں ہی منعقد کرتے ہیں یا اپنی پندرہ سالہ سیاسی جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے بہترین حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان کی پارٹی میں جوق درجوق گھاگ اور تجربہ کار سیاستدانوں کی آمد بھی عمران خان کے لیے کھلا چیلنج ہے کہیں یہ فصلی بٹیرے عمران خان کی پندرہ سالہ کارکردگی کو ہائی جیک نہ کر لیں اور پاکستانی عوام کی تبدیلی کی امیدیں دھری کی دھری رہ جائیں۔
خبر کا کوڈ : 126595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش