0
Friday 20 Apr 2012 00:12

دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت

دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت
 تحریر: محمد علی نقوی
  
امریکی صدر باراک اوباما نے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سئول میں جوہری سلامتی کے بین الاقوامی اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر بے بنیاد الزامات کو دہراتے ہوئے ایران سے کہا ہے کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ترک کر دے اور بقول ان کے آمنے سامنے سے پرہیز کرے۔ امریکی صدر نے یہ بیان ایسے عالم میں دیا ہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے حال ہی میں امریکی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ کا تیس ہزار پونڈ وزنی بم خاص طور پر ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گيا ہے۔
 
البتہ وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ یہ بم ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ اس بنا پر امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے اس بم کی طاقت کو بڑھانے کے لیے مزید بجٹ کی درخواست کی ہے۔ پینٹاگون نے اب تک تقریباً تین سو تیس ملین ڈالر اس بم کی تیاری پر صرف کیے ہیں اور چونکہ پینٹاگون کا مقصد اس بم کی تخریبی صلاحیت کو بڑھانا ہے، اس لیے اس کمپنی کے حکام نے تقریباً بیاسی ارب ڈالر کی درخواست کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انیس سو اکانوے میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی امن کے قیام کی امید پیدا ہو گئي تھی اور این پی ٹی جیسے معاہدوں کے نتیجہ خیز ہونے کی امیدوں اور توقعات میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ این پی ٹی جو سرد جنگ کے دوران انیس سو اڑسٹھ میں اسی مقصد کی خاطر وجود میں لایا گيا تھا، زیادہ توجہ کا حامل بنا۔ اسی سلسلے میں امریکہ اور روس کے ایٹمی ہتھیاروں کو کم کرنے کے لیے اسٹارٹ معاہدہ بھی کیا گيا۔ ان تمام باتوں کے باوجود دنیا کی بڑی ایٹمی طاقتوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو کم کرنے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑی ایٹمی طاقتوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کی اسٹریٹجی کے پرفریب نعرے کی آڑ میں اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید ترین اور زیادہ مہلک بنانے پر اربوں ڈالر کی رقم خرچ کر رہے ہیں۔
 
بہرحال امریکہ ایک ایسے وقت میں ایٹمی ہتھیاروں کو جدید سے جدید تر بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے کہ جب اسے این پی ٹی معاہدے کے رو سے ان ہتھیاروں کو کم کر دینا چاہیے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے اپنی صدارت کے دوسرے دور میں ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت، انہیں جدید بنانے اور ان کی تیاری کے لیے تیس ارب ڈالر مختص کیے تھے۔ دو ہزار چار میں بش حکومت کے دوسرے دور میں ایٹمی ہتھیاروں کے منصوبے پر جو رقم خرچ کی گئی وہ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں رونالڈ ریگن کے دور میں خرچ کی گئی رقم کے مساوی تھی۔ بش دوسری حکومتوں، خاص طور پر ایٹمی طاقت کی حامل حکومتوں کو قائل کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی ایٹمی طاقت میں اضافے کی بات کو بھول جائیں جبکہ خود وہ ایٹمی ہتھیاروں کی تجربہ گاہوں کو اتنی رقم فراہم کر رہا تھا کہ گویا سوویت یونین ابھی تک باقی ہے اور سرد جنگ جاری ہے۔
 
امریکہ کے ایک عسکری امور کے تجزیہ نگار کرسٹوفر پین نے امریکہ کے سرکاری بجٹ کے بارے میں ٹھوس اطلاعات اور معلومات کی بنیاد پر دو ہزار چار میں ایک رپورٹ شائع کی تھی اور امریکہ کے فوجی بجٹ کے بارے میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا واقعی ضروری ہے کہ امریکہ ایٹمی ہتھیاروں پر اتنی بڑی رقم خرچ کرے؟ ایٹمی ہتھیار اکیسویں صدی کی فوجی سیاست و پالیسی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ کتنے ایٹمی ہتھیار ڈیٹرنٹ قوت کے لیے ضروری ہیں؟ برسوں سے امریکہ میں کسی بھی عہدیدار نے ان سوالات کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیا ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دونوں ادوار میں انیس سو ترانوے سے لے کر دو ہزار ایک تک ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مختص بجٹ میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ کرسٹوفر پین ایک نیم خود مختار ادارے انرجی ڈیپارٹمنٹ کا بیان نقل کرتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بجٹ میں اس اضافے کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے کارخانوں کی بنیادوں کو مضبوط بنانا ہے۔ اس دعوے کا ثبوت بش کی دفتری انتظامیہ ہے کہ جس نے دو ہزار ایک میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ کی ایٹمی اسٹریٹجک فورس کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف ڈیٹرنٹ کا کام دے بلکہ ہر قسم کے حملے کا منہ توڑ جواب بھی دے سکے۔
 
ایٹمی ہتھیاروں کے میدان میں ایک بہت ہی اہم ایجاد زمین میں نفوذ کرنے والے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ جو ہتھیاروں کے زیرزمین ذخیروں کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ یہ ایٹمی ہتھیار اپنے وارہیڈز کے ساتھ زمین کے اندر گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور اپنے ہدف کو تباہ کر دیتے ہیں۔ امریکی کانگرس سے وابستہ تحقیقاتی ایجنسی کی ایک رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ دو ہزار دو میں زمین کے اندر نفوذ کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ایک تحقیقاتی منصوبہ ہے۔ اس کا بجٹ دو ہزار تین میں چھ اعشاریہ ایک ملین ڈالر اور اس سے اگلے سال سات اعشاریہ ایک ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ لیکن دو ہزار پانچ سے لے کر دو ہزار نو کے درمیان ایک پنجسالہ پروگرام میں یہ اچانک بڑھ کر چار سے پچاسی ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔
 
اس بنا پر اس بجٹ میں چھ سے سات گنا اضافے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک تحقیقاتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ طاقت اور دھمکی کے لیے ایک حقیقی قابل استعمال منصوبہ تھا۔ لیکن اوباما حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے ایٹمی ہتھیار صرف ہنگامی حالات میں استعمال کئے جائیں گے اور امریکہ ایٹمی معاہدوں کی پابندی کو ضروری سمجھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے سرد جنگ کے خاتمے کو دو دہائیوں کا عرصہ گزرنے اور خطرات میں کمی کے باوجود اب بھی امریکہ اور روس کے پاس ہزاروں ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جو کرہ زمین کو کئي بار تباہ کر سکتے ہیں۔ اسی بنا پر عالمی ترک اسلحہ کے لیے ایک عالمی عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ امریکہ اور روس کے ساتھ ساتھ برطانیہ فرانس چین اور صیہونی حکومت کے ایٹمی ہتھیاروں کے گودام عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ تھے اور رہیں گے۔

ایسی صورتحال میں کیا امریکی صدر کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایران سے یہ کہے کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ترک کر دے اور بقول ان کے آمنے سامنے سے پرہیز کرے، حالانکہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن اور آی اے ای اے کی مکمل نگرانی میں انجام پا رہا ہے اور ایران این پی ٹی کا ممبر بھی ہے امریکہ اور اسکے حواریوں کو اگر دنیا کی سلامتی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں تو اسے سب سے پہلے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کی فکر کرنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 154864
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش