1
0
Wednesday 18 Apr 2012 11:44

امریکی حکمران اپنے عوام پر رحم کریں

امریکی حکمران اپنے عوام پر رحم کریں
تحریر: ہما مرتضٰی 
  
اس وقت امریکی عوام اپنے حکمرانوں سے فریاد کناں ہیں اور اپنے حکمرانوں سے ان کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے رویے کو تبدیل کریں۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک انہی مظلوم امریکی عوام کی نمائندہ تحریک ہے۔ نیویارک ٹائمز اور سی بی سی کے مشترکہ سروے کے مطابق امریکی عوام کے اندر حکومت پر عدم اعتماد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ سروے کے مطابق 50فیصد امریکی شہریوں کا خیال ہے کہ قبضہ کرو تحریک امریکیوں کی اکثریت کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ سروے میں 89فیصد امریکی اپنی حکومت سے مطمئن نہیں۔ 99فیصد امریکیوں کی نمائندگی کی دعویدار اس تحریک نے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کے پاس ملک کے بے روزگار غریب لوگوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہے لیکن اس نے دنیا کے مختلف علاقوں میں سات سو سے زائد فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔
 
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وال اسٹریٹ اس وقت امریکا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے اس تحریک کا آغاز کیا گیا ہے۔ عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں دولت کی تقسیم یکساں طور پر ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں اگر وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے مطالبات کو امریکی افواج کے دنیا میں پھیلاﺅ اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس تحریک کی صداقت سمجھ میں آسکتی ہے۔ ان فوجی اخراجات کا تقابل جب امریکا کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور دن بدن بڑھتے امریکی قرضوں سے کیا جائے تو بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
 
اس وقت داخلی امریکی قرضے 238 ارب ڈالر مزید اضافہ کے بعد جی ڈی پی کے 100فیصد سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کانگرس کی طرف سے قرضوں کی نئی حد بڑھانے کے بعد ملک کے ذمہ قرضے 143 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 145 کھرب ڈالر ہو گئے ہیں۔ اٹلی اور بلجیم کے بعد امریکا دنیا کا مقروض ترین ملک بن گیا ہے۔ اس مرحلے پر امریکی وزارت خزانہ کے پاس ادائیگیوں کے لیے رقم ختم ہو جائے گی، جس کے باعث شرح سود میں اضافہ ہو سکتا اور اس طرح نہ صرف امریکی معیشت بلکہ عالمی معیشت کی بحالی کی کوششوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ 

امریکا تیزی سے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ امریکا اب دیوالیہ ہو رہا ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے فوجیوں کو تنخواہ دینے کے لیے بھی پیسہ نہیں تو وہ عراق کے بعد اب افغانستان سے آبرو کے ساتھ انخلا چاہ رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے بھی امریکی فوج میں 13فیصد کمی، دفاعی بجٹ میں کٹوتی اور کئی فوجی اڈے بند کرنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ امریکی محکمہ دفاع جنگی اخراجات پر 50 امریکی ریاستوں کے صحت، تعلیم، فلاحی امور اور تحفظ کے لیے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس ملک کے مجموعی فوجی اخراجات دنیا بھر کے اخراجات کے 50 فیصد کے برابر ہیں۔
 
عراق جنگ کے دوران امریکا کے سالانہ ”11“ ارب ڈالر ضائع ہو جاتے تھے، عراق میں ایک امریکی فوجی پر جتنا خرچ ہوتا تھا اس سے 50 خاندانوں کو سال بھر کی اشیائے خوردونوش فراہم کی جا سکتی تھیں۔ افغانستان پر اس قدر فوجی اخراجات اٹھ چکے ہیں کہ جن سے آسانی کے ساتھ پینٹاگون جیسے مرکز کو تعمیر کیا جاسکے۔ اس وقت امریکا نے دنیا کے 135 ملکوں میں اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ وہ روزانہ اسی طرح کروڑوں ڈالر ان فوجیوں اور اپنے فوجی اڈوں پر خرچ کرتا ہے۔ امریکا کی فوج اس وقت جرمنی، برطانیہ، جاپان، اٹلی، کوریا، آسٹریلیا، یورپ، سوویت یونین، افریقہ اور ایشیا کے تمام ممالک نیوزی لینڈ سے لے کر الاسکا تک ہر ملک میں موجود ہیں۔
 
ایک برطانوی ویب سائٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عراق میں ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود رہے ہیں۔ افغانستان میں ایک لاکھ 27 ہزار سے زائد، جرمنی میں 52 ہزار جاپان میں 36 ہزار، کوریا میں 90 ہزار، اٹلی میں 10 ہزار جب کہ برطانیہ میں 9 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں اس طرح مشرقی ایشیا کے مختلف ممالک میں امریکی افواج کی تعداد 50،000 کے قریب ہے، شمالی افریقہ میں 4،000 جبکہ افریقی صحرا میں 2000 امریکی موجود ہیں۔ 

امریکی حکومت ان فوجی اڈوں پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر دیتی ہے۔ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ دنیا بھر سے اپنے فوجی اڈے ختم کرے اور اپنے رویے میں بنیادی تبدیلیاں بھی لائے، خود اب امریکی عوام کی اکثریت بھی اپنی حکومت کے ان جنگی اخراجات اور ہر وقت اپنے ملک کو حالت جنگ میں رکھنے کی وجہ سے تنگ آ چکے ہیں۔ عوام کے خیال میں گذشتہ دس سالوں کے دوران امریکا کی معیشت کمزور ہو کر تباہی کے دلدل میں گرنے ہی والی ہے۔ امریکی عوام اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے حق کے لیے خود امریکی جنگوں کے خلاف سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت اب بس کر دے اور بیرونی معاملات میں مداخلت کے بجائے اندرونی معاملات پر توجہ دے، وال اسٹریٹ مظاہرین پر تشدد کی جگہ ان کے مطالبات کو مانے اور عوام کو مزید بے روزگار ہونے سے بچائے۔
 
امریکی ہی نہیں تمام اہل مغرب اپنی حکومتوں کی پالیسیوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ امریکی سیاسی مبصرین اور میڈیا شخصیتوں کا کہنا ہے کہ امریکی عوام اپنے ملک کے اقتصادی اور سیاسی حالات سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ وہ اب بنیادی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ امریکا میں ہونے والے وال اسٹریٹ مظاہروں سے نظر آتا ہے کہ تبدیلی کی اٹھان صرف عرب ممالک میں نہیں بلکہ امریکا اور یورپ میں بھی پہنچ چکی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا سید علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ بیداری کی تحریک مغرب تک بھی پہنچ جائے گی۔ وہاں کے لوگ بھی حق اور حقیقت کی تلاش میں سڑکوں پر نکل آئیں گے۔
 
یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ آئے دن بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں پس امریکا کے ہر وقت حالت جنگ میں رہنے کے شوق نے پوری دنیا کا امن تو برباد کر ہی دیا ہے، ساتھ ہی پوری دنیا کی معیشت بھی تباہی کے آخری سرے پر کھڑی ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ مجموعی طور پر پوری دنیا ظلم و ستم کے راج سے تنگ آ چکی ہے۔ عوام اب نام نہاد جمہوری حکومتوں کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ وہ نظام ظلم کی جگہ اب نظام عدل کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسا حقیقی نظام عدل جو تمام انسان اور تمام قوموں کے لیے خیر کا سرچشمہ بن جائے وہ کون سا ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب آج کے دانشوروں کے ذمے ہے۔ ہماری رائے میں وہ رہبر جو سارے بندوں کو خدا کا بندہ سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں وہ آج کی انسانیت کے درد کا درماں نہیں کر سکتے۔
خبر کا کوڈ : 154378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
I appreciate Huma Murtaza to her great struggle.
ہماری پیشکش