0
Friday 4 May 2012 12:18

پاک امریکہ تعلقات میں جمود یا تحرک؟

پاک امریکہ تعلقات میں جمود یا تحرک؟

تحریر: ثاقب اکبر 

صحافت اور سفارت کی اپنی زبان ہے، ممکن ہے اس زبان کی اصطلاحات رائج زبان سے مختلف تاثر دیتی ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا تاثر زمینی اور خارجی حقائق سے مختلف ہو۔ آپ پاک امریکا تعلقات میں استعمال ہونے والی آج کل کی اصطلاح ”جمود“ ہی کو دیکھ لیجیے جسے ان دنوں مغربی میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے گزشتہ ہفتے اپنی اشاعت میں لکھا کہ پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے مارک گروسمین اسلام آباد کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ مارک گروسمین کسی اتفاق رائے کے بغیر جمعہ (27اپریل) کی رات پاکستانی دارالحکومت سے واپس امریکا کے لیے روانہ ہو گئے۔ 

اخبارکے مطابق اپنی روانگی سے پہلے گروسمین نے دو روز تک پاکستان میں مذاکرات کیے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ان کی کوشش تھی کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں وہ تناﺅ دور ہوسکے جو ایک امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث پایا جاتا ہے۔ یہ پاکستانی فوجی گذشتہ برس نومبر کے آخر میں پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب ایک امریکی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اس صورتحال کو نیویارک ٹائمز نے سفارتی جمود قائم رہنے سے تعبیر کیا ہے۔ آئیے ہم جائزہ لیتے ہیں کہ یہ جمود ہے یا تحرک۔
 
سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد پاکستان نے جو نقطہ نظر اختیار کیا وہ پاک امریکا تعلقات کی تمام تر تاریخ سے مختلف تھا۔ پاکستان نے اپنی سرزمین سے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو جاری سپلائی کو مکمل طور پر بند کر دیا اور ان تمام ٹرکوں اور کنٹینرز کو روک لیا گیا جو ان افواج کو ضرورت کی مختلف چیزیں فراہم کر رہے تھے۔ ان افواج کو سپلائی کے لیے سب سے بہتر، سب سے آسان اور سب سے سستا راستہ پاکستان ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے امریکا کو دیا گیا شمسی ایئر بیس خالی کروا لیا، نیز پاکستان نے اعلان کیا کہ آئندہ پاک امریکا تعلقات کا فیصلہ پاکستان کی پارلیمان کرے گی۔
 
سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیر دفاع جنھیں عام طور پر پاکستان میں امریکیوں کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے، نے کہا کہ جب تک امریکا معافی نہیں مانگتا اس کے ٹرکوں اور کنٹینرز کو پاکستان سے نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ معافی مانگی گئی تو اس پر غور کیا جائے گا۔ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی اس واقعے پر اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ اب امریکا سے جو بھی تعاون ہو گا وہ تحریری اور اصولوں کی بنیاد پر ہو گا اور اگر امریکا یا نیٹو نے دوبارہ مہمند جیسے حملے کی کارروائی کی تو ان کے ساتھ ہر سطح پرتعاون پر نظرثانی کی جائے گی۔ 

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے بیان دیتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ خون فوجی کا ہو یا سویلین کا، خون خون ہی ہے اور ہمارے فوجی کا خون بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا نیٹو یا امریکا کے فوجی کا۔ انھوں نے کہا کہ جب تک امریکا ڈرون حملے نہیں روکتا، ہماری خود مختاری اور سلامتی کی ضمانت نہیں دیتا، ہمارے لیے ان کا ساتھ دینا مشکل ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اب بہت ہو گیا یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا۔ نیٹو نے اتحادی ہوتے ہوئے اپنے اتحادی پر آٹھ حملے کیے جن میں 72سکیورٹی اہل کار ہلاک اور257 زخمی ہوئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مہمند ایجنسی کا واقعہ کسی صورت قابل قبول نہیں، ہم اس پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ اسی موقع پر کمیٹی کے سربراہ سلیم سیف اللہ خان نے کہا کہ اس واقعے کے اثرات دور رس ہوں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کے ارکان میں اس حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو سخت ترین موقف برقرار رکھنا چاہیے۔ بعدازاں پاکستان کی پارلیمان نے اس حوالے سے جو قرارداد منظور کی اور جس حکمت عملی سے اتفاق کیا وہ بھی انہی اصولوں پر استوار تھی جن کا ذکر مذکورہ بالا بیانات میں آچکا ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ پاکستان ابھی تک اپنی اس موقف پر مضبوطی سے قائم ہے۔
 
پاک امریکا تعلقات کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کا امریکا کے مقابلے میں موجودہ طرز عمل اور نقطہ نظر بہت مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر ماضی ہی کی طرح پاکستان فقط زبانی احتجاج کر کے اور کوئی چھوٹا موٹا مفاد حاصل کر کے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا تو پھر یہ جمود ہوتا۔ جب کہ پاکستان کی امریکا کے مقابلے میں موجودہ خارجہ پالیسی اور حکمت عملی اس پالیسی میں ایک نئے تحرک، ایک نئے تغیر اور ایک نئی سمت کا پتہ دیتی ہے۔
 
یہی پاکستان ہے جس کے ایک سابق اور آمر صدر نے امریکا سے آنے والی ایک کال پر افغانستان میں اپنی حکمت عملی کو 180 درجے پر موڑ دیا اور”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگانے والے اس آمر نے پاکستان کے مفادات پر لمحہ بھر بھی ارتکاز فکر نہ کیا۔ یہی وہ پاکستان ہے جس کے ایک اور آمر حکمران نے اپنے اقتدار کے تحفظ اور طوالت کے لیے امریکی مفادات کی جنگ کو معرکہ حق و باطل کا عنوان دے دیا۔ پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کا کلچر اسی معرکے کی دین ہے، بلکہ ابھی تک ہم اسی دور میں بوئے گئے کانٹے چن رہے ہیں اور اس ملک و قوم کے ہاتھ اور پاﺅں زخمی ہو رہے ہیں۔

یہی وہ پاکستان ہے کہ جس کے حکمرانوں نے بالعموم وائٹ ہاﺅس ہی کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیے رکھا ہے۔ کیا دنیا انگشت بدنداں نہیں کہ آج وہی پاکستان اپنے مفادات کی بات کر رہا ہے۔ بے پناہ معاشی اور سماجی مشکلات کے باوجود امریکا کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ پاکستان ہے جو امریکا کی کھلے بندوں دھمکیوں کے باوجود ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا اسے جمود کا نام دیا جا سکتا ہے۔
 
سلالہ چیک پوسٹ کے حوالے سے امریکیوں کا پہلا ردعمل کچھ اور تھا دوسرا کچھ اور اور تیسرا کچھ اور، جبکہ پاکستان کا ردعمل جو پہلے دن تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔ پاکستان کا ردعمل درحقیقت قومی افتخار اور غیرت کا راستہ اختیار کرنے سے عبارت تھا اور امریکی ردعمل دراصل اپنی بالادستی کے اظہار اور پھر اپنے مفادات کے لیے لفظوں کے ہیرپھیر اور گاجر اور چھڑی کے مشترکہ استعمال کا مظہر رہا ہے۔ امریکا کی گذشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کے تمام اہم معاملات میں یہی روش رہی ہے۔ اسی کو آسان زبان میں چوہدری کی منافقت کہتے ہیں۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہی جمود ہے اور یہ ایسا جمود ہے جو پوری دنیا کو جامد رکھنے کا آرزو مند ہے، لیکن اگر کوئی قوم جمود شکنی کا راستہ اپنا لے تو دراصل یہ ترقی، افتخار اور کمال کا راستہ ہو گا۔
 
امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد یک طرفہ انکوائری کا جو سلسلہ شروع کیا اس کے بعد پہلی رپورٹ میں کہا گیا کہ جن دو چیک پوسٹوں پر حملہ کیا گیا وہ نیٹو فورسز کے نقشوں میں موجود نہیں تھیں، رپورٹ میں حملے میں ملوث اپنے فوجیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ دوسری انکوائری رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں نے حملہ اپنے دفاع میں کیا۔ گویا ان رپورٹس میں واقعے کی تمام تر ذمہ داری پاکستانی فوجیوں پر ڈال دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے پاکستان سے اس واقعے پر اظہار افسوس کا آغاز کیا۔

سفارتی زبان میں اظہار افسوس اور معذرت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اظہار افسوس مشرق میں بیٹھا کوئی بھی شخص مغرب میں ہونے والے کسی ایسے واقعے پر کر سکتا ہے جس سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ جب کہ معافی مانگنے کا مطلب جرم تسلیم کرنا ہے اور موجودہ زیر بحث واقعے کے حوالے سے جرم تسلیم کرنے کا مطلب اپنے ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دینا ہے۔ امریکا سے بڑھ کر یہ بات کون جانتا ہے۔ بہرحال ایک گول مٹول معافی مانگنے پر امریکا غور بھی کرتا رہا ہے جیسا کہ اپریل کے وسط میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے خبر دی تھی لیکن پھر افغانستان میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیش نظر ضروری سمجھا گیا کہ پاکستان پر کچھ دباﺅ مزید بڑھایا جائے۔
 
ان دنوں امریکا اسی طرز عمل کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے مارک گروسمین کی اسلام آباد کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کا یہی پس منظر ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو سامنے رکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ بہت جلد امریکی حکمرانوں کو بھی نخوت انگیز جمود کا راستہ ترک کرنا ہو گا۔
 
حقیقت یہ ہے کہ یہ جمود امریکی دماغوں میں ہے وہ دنیا کے بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں کہ انھیں مشرق و مغرب میں نئی سے نئی ہزیمتوں کا سامنا ہے اور ابھی ایک ہمہ گیر شکست ان کے انتظار میں ہے۔ یہ ہمہ گیر شکست دراصل اس انسان دشمن سرمایہ داری نظام کو درپیش ہے جو دنیا میں تمام تر آفتوں اور مصیبتو ں کا سرچشمہ بن چکا ہے۔ اسی شکست کے نتیجے میں امریکی حکمرانوں کے عالمی امریکی سلطنت کے قیام کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا اور بالآخر انسانیت اطمینان کا سانس لے گی۔

خبر کا کوڈ : 158814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش