0
Thursday 31 May 2012 00:02

امریکی جاسوس کی سزا پر واویلا کیوں؟

امریکی جاسوس کی سزا پر واویلا کیوں؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ہم متعدد مرتبہ اس بات کی تکرار کر چکے ہیں کہ طاقت کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں، باقی سب کچھ کہنے لکھنے کی باتیں، امریکہ کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے دنیا کی سپر طاقت بنایا، دنیا کے اندر یک طاقتی نظام کے قیام کے لیے ہم نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، فتح کے شادیانے بجائے اور ضیائی اسلام کی سیاہ چھتری تلے امریکی اتحاد میں ایسے جتے کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پاک امریکہ تعلقات اتنے سادہ نہیں جتنے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مقصود خارجہ تعلقات کی طویل تاریخ کی سیر کرانا نہیں، اتنا ہی کافی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کبھی بھی اچھے اور مثالی نہیں رہے، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف جہاد کے دنوں میں دنوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ بڑا پائیدار تھا تو اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سانحہ اوجڑی کیمپ کے محرکات کا مطالعہ کر لے۔
 
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ان ہی بداعتمادیوں کا نتیجہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ اپنا یہ حق سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھے، اگرچہ اس جنگ میں جو دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جا رہی ہے، اس میں پاک امریکہ معاہدے میں یہ شامل ہے کہ دنوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کریں گے۔ امریکہ کو یہ شکوہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے نہ صرف اسے دہشتگردوں سے متعلق درست معلومات نہیں دی جا رہی ہیں، بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کر رہا ہے۔
 
رہا سوال اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور اس کے کمپاؤنڈ تک رسائی کا، تو اس حوالے سے نہ صرف امریکی حکام بلکہ پاکستان بھی سرکاری سطح پر تسلیم کر چکا ہے کہ اسامہ کے کمپاؤنڈ تک رسائی کے لیے پاکستان نے امریکہ کی مدد کی۔ اگر ایسا ہے تو پھر امریکہ نے پرائیویٹ جاسوس کی خدمات کیوں حاصل کیں؟ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور پاکستان کے خفیہ اداروں کو بدنام کرنے کے لیے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکی وزیر دفاع نے یہ بیان دیا تھا کہ ڈاکڑ شکیل آفریدی کی فراہم کردہ معلومات امریکہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی ہیں۔ یوں یہ کردار سامنے آگیا۔ 

اس بیان کے ذریعے امریکہ عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا جو الزام لگاتا ہے وہ درست ہے، نیز اگر ڈاکٹر آفریدی کی خدمات امریکہ کو حاصل نہ ہوتی تو پاکستان اسامہ کو پناہ دیے رکھتا۔ بہت سادہ سی بات ہے کہ جب ریاستی سطح پر دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تو پھر سی آئی اے نے ڈاکٹر آفریدی کی خدمات کیوں حاصل کیں۔؟ 

عالمی تعلقات کے ماہرین اور امریکی چالوں پر گہری نظر رکھنے والوں کے لیے اس سوال کا جواب تلاش کرنا بڑا اہم ہے، البتہ ڈاکٹر آفریدی کی سزا پر امریکیوں کا غصہ اور جذباتی پن نئے خدشات کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے اور یہ بات اتنی پریشان کن ہے کہ جس ڈاکٹر نے بدنام ترین دہشتگرد کی تلاش میں مدد کی، اسے 33سال کی سزا کیوں سنائی گئی۔؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے جو کچھ کیا، اس سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے ازسر نو تعین کی کوششوں میں مدد نہیں ملے گی۔ 

امریکی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اپنے لیے خطرہ بننے والوں کا پیچھا کرتا رہے گا اور یہ کہ اتحادی افواج ایک منظم دشمن سے برسرپیکار ہیں، جس کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں موجود ہیں، اس طرح پاکستان پر ایک بار پھر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام لگا دیا گیا۔ اپنے گزشتہ کالم میں بھی ہم نے اس امر کی جانب اشارہ کیا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کی کوششوں کے نئے دور میں، ڈاکٹر آفریدی کی سزا بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ نیٹوں سپلائی کی بحالی پر پاکستان کی خواہش کے مطابق راہ داری کرایہ تو ملنا ممکن نہیں، البتہ ڈاکٹر آفریدی کو امریکہ شہریت سے نواز دیتا ہے تو اسے مزید قید رکھنا پاکستان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ 

ممکن ہے کسی قانونی شق کا سہارا لے کر گورنر خبیر پختونخواہ کے ذریعے اس کی سزا کو معاف کرالیا جائے۔ اب تو جیل میں ڈاکٹر آفریدی کی جان کو خطرے کے حوالے سے بھی خبریں منظر عام پر آنے لگی ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمں بھی سرگرم ہو چکی ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ جس تشویش اور جذباتیت کا مظاہر ہ کر رہا ہے وہ نہ صرف ڈاکٹر آفریدی کو چھڑا لے جائے گا بلکہ امریکہ رویہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے جاسوسوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن رہا ہے۔
 
دوسری طرف ہم ہیں کہ غدار وطن پر ڈہنگ سے مقدمہ بھی نہ چلا سکے۔ انسانی حقوق کے بڑے چیمپن امریکہ کے صدر اوباما کے دور میں ہونے والی قانون سازی اس بات کی گواہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنے ہر اس شہری کو بذریعہ ڈرون حملے واجب القتل قرار دے چکی ہے، جو القاعدہ یا طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف کام کرے۔ جب امریکہ اپنے شہریوں کو جو دوسرے ممالک کے لیے جاسوسی کریں اتنی سخت سزا دے سکتا ہے تو پھر پاکستان کیوں نہیں؟ امریکہ اپنے کئی ایک شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں قیدوبند کی بڑی بڑی سزائیں دے چکا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے امریکی دوہرے رویے کا اظہار بھی کرے طاقت کے زعم میں بوڑھا استمار قوموں کی عزت اور ان کے وقار سے کھیل رہا ہے۔ 

وہ ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، تاکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سی آئی اے کے جاسوں کے حوصلے بلند رکھے جا سکیں۔ پاکستان کو ایسے موقع پر بہتریں سفارتی حکمت عملی کے ذریعے امریکی حربوں کا توڑ کرنا ہوگا۔ امریکہ اس نقطے پر بہت زور دے رہا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی نے پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ القاعدہ اور دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی مدد کی ہے۔ پاکستان اس حوالے سے عالمی برادری کو کیسے مطمئن کرے گا، اس حوالے سے جذباتیت کی بجائے زمینی حقائق کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 166990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش