0
Tuesday 5 Jun 2012 19:31

مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور اُس کا منطقی راہِ حل

مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور اُس کا منطقی راہِ حل
تحریر: صادق رضا 
 
 15 مئی 1948ء سے لے کر 2012ء کے مئی تک دنیا ایک منحوس وجود کو برداشت کر رہی ہے، یہ ظلم، زور زبردستی، تجاوز، بربریت، سفاکیت، ظلمت و تاریکی، استحصال، استثمار، حقوق کے بین الاقوامی بے مثل و بےنظیر ڈاکے، جمہوریت کے نام پر ایک جمہوری ملک و قوم کے جائز اور قانونی حقوق کا قتل عام، انسانیت سوز مظالم، لاشوں کے انبار، ظلم و جنایت، اسیری، مفلسی، غربت، غریب الوطنی، جلاوطنی، زندان کی سلاخوں کے پیچھے جوانی کو گزارنے مگر جہد مسلسل، استقامت، شجاعت، انتفاضہ، تا دم مرگ حقوق کی جنگ لڑنے اور ظلم و ظالم سے اظہار برأت کرنے کی ایک طویل داستان ہے کہ جسے ہزاروں گھرانوں کے کئی لاکھ افراد نے اپنے خون سے رقم کیا ہے۔
 
مسئلہ فلسطین کی اہمیت:
آج بعض لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کریں؛ یہ مسئلہ ختم ہوچکا ہے! میں اُن کی خدمت میں کہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ ’’فلسطین کے اصلی مالک‘‘ فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاد اور نئی نسل کے ہمراہ ہمیشہ اپنے ملک و سرزمین سے باہر ہی زندگی گزاریں گے یا فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر غیر ملکی ہمیشہ یونہی قابض رہیں گے؛ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشاءاللہ ضرور ہو کر رہے گا، فلسطین فلسطینی عوام کو مل کر رہے گا۔ لہٰذا مسئلہ ختم نہیں ہوا، بلکہ اس قسم کی فکر کا تصور غلط ہے۔ ہم سب مسلمان سالوں سے مسئلہ فلسطین کو سچے دل سے اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے، یعنی اُمت اسلامی کا مسئلہ سمجھتے رہے ہیں اور آج بھی اس کیلئے دامے درمے سخنے آواز اٹھا رہے ہیں۔
 
مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک غلط فہمی:
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کچھ افراد کو ایک بڑی غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ چونسٹھ سالہ حقیقت رکھنے والے اسرائیل کو اب تسلیم کر لینا ہی عقلمندی ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود حقائق سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ کیا ’’بالکان، قفقاز‘‘ اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک نے 80 سال تک اپنے تشخص سے محرومی اور سابق سویت یونین کا جز رہنے کے بعد کیا اپنی حقیقی شناخت دوبارہ حاصل نہیں کی؟ جبکہ فلسطین جو عالم اسلام کا پارہ تن اور اٹوٹ انگ ہے، اپنا اسلامی اور عربی تشخص دوبارہ کیوں حاصل نہیں کر سکتا۔؟
 
منطقی راہ حل کے خلاف مغرب کا پروپیگنڈا:
 
ا۔ اسرائیل سے مذکرات کر لو!:
دنیا کے سیاسی مبصرین کی نگاہ میں ایک اور بڑا مغالطہ یہ ہے کہ فلسطینی قوم کیلئے واحد راہ نجات، صرف مذاکرات ہیں! ذرا سوچیں تو کہ مذاکرات کس کے ساتھ؟ طاقت کی زبان کے علاوہ کوئی اصولی بات نہ سمجھنے والی غاصب اور شرپسند صیہونی حکومت کے ساتھ! جن لوگوں نے دشمن سے مذاکرات کی یہ راہ اپنائی اور انہوں نے اِس بچگانہ خیال اور فریب سے خود کو مطمئن کر لیا تو انہیں کیا نصیب ہوا؟ صہیونیوں سے خود مختار انتظامیہ کی شکل میں انہیں جو کچھ ملا وہ سوائے ذلت اور توہین آمیز حقیقت کے کچھ اور نہیں تھا! 

دوسری جانب یہ کہا جاتا ہے امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کی راہ جاری رکھی جائے، جنہوں نے اس سرطانی غدے کو وجود بخشنے اور اُس کے تحفظ کے عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے! یہ وہ ممالک ہیں جو ثالثی کے بجائے خود فریق بنے بیٹھے ہیں! امریکی حکومت نے کبھی بھی صیہونی حکومت کے تمام حتٰی سانحہ غزہ جیسے اُس کے آشکار جرائم کی بے دریغ حمایت بند نہیں کی ہے بلکہ آج تک اس کی مکمل حمایت کرتے ہوئے دنیا کے دیگر جمہوری اداروں سمیت اقوام متحدہ اور سلامی کونسل میں اُسے ویٹو کی طاقت سے ہمیشہ محفوظ بنایا ہے!

۲۔ صلح کرلو!:
کون نہیں جانتا کہ اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، قساوت اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہے اور اِسی بنیاد پر وہ اپنے تمام عملی اقدامات انجام دے رہی ہے۔ اِس ظلم و ستم اور تجاوز و زیادتی کے بغیر نہ تو ماضی میں اُس کی پیشرفت ممکن نہیں تھی اورنہ ہی آئندہ بھی ممکن ہو سکے گی! جمہوری ادارے، سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِس حکومت کے ساتھ صلح کرلو؟! کیسی صلح؟! کس کے خلاف صلح ؟! لہٰذا ایسی صلح کا ڈھونڈرا پیٹنے والے سیاسی منادی اور مداری درحقیقت اسرائیل کے بعد والے حملوں کو جائز اور قانونی شکل دیتے ہوئے اس کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ایسی صلح برقرار ہو جائے، جو اسرائیل کے آئندہ حملوں کیلئے مقدمہ قرار پاسکے۔! 

۳۔ فلسطین، عربوں کا مسئلہ نہیں!:
ہم کبھی کبھار یہ بھی سنتے ہیں کہ فلسطین تو ایک عرب مسئلہ ہے! لیکن اگر مراد یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہ فلسطینی عوام کی ’’اے مسلمانو! ہماری مدد کرو‘‘ کی فریاد پر کوئی توجہ نہ دیں، غزہ کے المیے جیسے معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور دوسرے مسلمانوں پر جو اپنی ضمیر کی آواز سن کر ناراض بھی ہوں کہ آپ غزہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں تو پھر اس صورت میں کوئی مسلمان اور غیور و باضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرے گا!۔
 
مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل:
مسئلہ فلسطین کا حل، جھوٹے اور بے بنیاد طریقوں پر کسی صورت میں قابل عمل نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل صرف اور صرف یہ ہے کہ فلسطین کے حقیقی مالک ’’نہ کہ باہر سے آنے والے غاصب اور قابض مہاجرین‘‘ جو فلسطین کے اندر موجود ہیں اور جو فی الحال فلسطین کے باہر زندگی گزار رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک کا حکومتی نظام تشکیل دیں۔ اگر دنیا میں جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے افراد کی یہ بات درست ہے کہ ہر قوم کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے تو فلسطینی قوم بھی دنیا کی دوسری مہذب قوموں کی مانند ایک قوم ہے اور اُسے بھی اپنا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
 
مقبوضہ فلسطین پر قابض و غاصب نظام کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، وہ ایک جعلی، جھوٹ پر مبنی اور ظالم طاقتوں کی بنائی ہوئی حکومت ہے۔ اگر عالم اسلام میں کوئی ملک یا حکمراں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی غلطی کا ارتکاب کرے یا اُس ظالم حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرے تو گویا وہ اپنے لئے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کرتا ہے اور اُس کا یہ کام بھی بے فائدہ ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت دائمی نہیں ہے۔
 
صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کر کے یہ تصور کرلیا ہے کہ وہ فلسطین پر ہمیشہ کیلئے قابض ہوگئے ہیں اور فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُن کی ملکیت بن گیا ہے؛ نہیں، ایسا نہیں ہے! فلسطینیوں کا عزم و فیصلہ یہ ہے کہ وہ ایک دن فلسطین کو غیروں کے پنجوں سے ضرور بالضرور آزاد کرائیں گے۔
مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل موجود ہے جو ایسا راہ حل ہے جس کو دنیا کے تمام بیدار ضمیر لوگ قبول کرنے کیلئے مجبور ہیں، جو دنیا کے آج کے مفاہیم پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ راہ حل خود فلسطینی عوام کے ریفرنڈم سے عبارت ہے اور یہ ایک منطقی امر ہے۔ 

وہ تمام فلسطینی جو اسرائیل کے قبضے کے بعد اپنے وطن سے نکالے گئے ہیں اور لبنان، اردن، مصر، کویت اور دوسرے عرب ممالک میں سرگرداں ہیں، ان لوگوں کو اپنے گھر اور اپنے وطن فلسطین واپس جانے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ 1948ء میں اسرائیل کی جعلی حکومت کی تشکیل سے قبل فلسطین میں موجود مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کے ذریعے ایک عام ریفرنڈم کرایا جائے، تاکہ اس ریفرنڈم کی روشنی میں فلسطین کی سرزمین پر عوامی اور جمہوری حکومت کا نظام عمل میں لائیں۔
 
یہ ایک جمہوری اور آئینی قدم ہے، اگر پوری دنیا کیلئے ڈیموکریسی اور جمہوریت اچھی ہے تو فلسطینی عوام کیلئے کیوں اچھی نہیں ہے؟! اگر دنیا کی تمام قوموں کو اپنی قسمت اور مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے تو پھر فلسطینی عوام کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟! کوئی بھی شخص اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کرے گا کہ فلسطین میں موجود اسرائیلی حکومت کو طاقت اور مکر وفریب کے ذریعے وجود بخشا گیا ہے اور اِس میں بات میں بھی کسی کو کوئی تردید نہیں ہے کہ صہیونی، صلح آمیز طریقے سے نہیں آئے ہیں، بلکہ فریب اور طاقت کے ذریعہ برسراقتدار آئے ہیں۔
 
راہ حل یہ ہے کہ فلسطینی عوام جمع ہو، فلسطینی قوم سے وابستہ ہر مسلمان، عیسائی اور یہودی اپنا اپنا ووٹ ڈالے، فلسطینی حکومت تشکیل دے اور پھر وہ منتخب حکومت تمام فلسطینیوں کے بارے میں فیصلہ کرے جو 1948ء کے بعد فلسطین سے نکالے گئے ہیں اور جو جو باہر سے لا کر آباد کئے گئے ہیں۔ اگر فلسطین کی منتخب عوامی حکومت اُن کے وہاں رہنے کے حق کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ وہاں رہیں اور اگر اُن کے جانے کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ اُس عوامی اور جمہوری حکومت کے فیصلے کو مان کر وہاں سے چلے جائیں۔
 
یہ ایک منطقی راہ حل ہے کہ جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے دنیا کے تمام سیاسی اور جمہوری اداروں کو کوشش کرنی چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ دنیا کا کوئی بھی غاصب و قابض اچھی اور میٹھی زبان سے تو اِیسے منطقی راہ حل کو قبول نہیں کرے گا، اِس مقام پر اِس معاملے سے منسلک تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پورا کریں، عربی اور اسلامی حکومتوں، اُمتِ اسلامیہ اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔
خبر کا کوڈ : 168451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش