1
0
Friday 13 Jul 2012 13:40

پیپلز پارٹی کے اہل تشیع کیلئے تحفے!

پیپلز پارٹی کے اہل تشیع کیلئے تحفے!

تحریر: ناظر بھٹی

 ایک بار پھر کلیجہ منہ کو آگیا، جب سرگودھا کے دو نو شیعہ نوجوانوں کو دہشتگردوں نے مجلس امام مظلوم کربلا منعقد کروانے کے جرم میں ذبح کر دیا۔ روایتی کارروائیاں تو جاری ہیں، مگر اس سے آگے کچھ نہیں ہوا، اور نہ ہی اب کچھ ہونے کی امید ہے، کیونکہ حکومت کو معلوم ہے کہ شیعہ قتل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ چند دن رو دھو کر چپ کر جائیں گے۔ شیعہ تنظیمیں ایک دو مظاہرے کریں گی۔ شاید کسی حد تک اخبارات میں خبریں اور الیکٹرانک میڈیا میں ٹکرز اور کہیں شاید کوئی خبر بھی مل جائے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
 
میڈیا اس پر انویسٹی گیٹو رپورٹنگ کرے گا تو نہ ہی یہ واقعہ کسی ٹی وی ٹاک شو کا موضوع ہوگا، حتٰی کہ اس کا کہیں ذکر ہوگا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس پر کوئی تحریک التوائے یا توجہ دلاو نوٹس کسی رکن پارلیمنٹ یا جماعت کی طرف سے آئے گا۔ اگر ان کی قسمت میں ہوا تو حکومتی فارمولے کے مطابق مقتولین کے ورثا کو دہشتگردی کے فنڈ میں سے 5 لاکھ روپے فی شہید ادا کر دیئے جائیں گے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں، کاغذی کالعدم تنظیم اس کی ذمہ داری قبول کرکے اپنا فخر سمجھے گی۔ 

نہ تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم اور نہ ہی تحریک انصاف کا یہ مسئلہ ہوگا کہ وہ اس پر کوئی احتجاجی کال دیں یا بیان دیں۔ حتٰی کہ حکومتی عہدیداروں سے بھی کوئی صحافی سوال کرے تو وفاقی حکومت کا طے شدہ جواب ہوتا ہے کہ امن و امان کا مسئلہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔ ہم اگر ضرورت فراہم کرسکتے ہیں اور اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 

پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے شیعہ، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 فیصد اور شیعہ تنظیموں کے مطابق 30 فیصد ہیں۔ اگر سرکاری بات ہی کو مان لیا جائے تو 20 کروڑ میں سے 4 کروڑ آبادی تو اہل تشیع پر مشتمل ہے، جبکہ سی آئی اے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شیعہ آبادی ساڑھے چار کروڑ ہے۔ لیکن یہ آبادی اتنی لاوارث ہے کہ کسی جماعت نے اس پہ توجہ نہیں دی۔ سب سے زیادہ لبرل اور سیکولر جماعت پیپلز پارٹی سمجھی جاتی ہے، مگر اس کی حکومت میں جتنی قتل و غارت اہل تشیع کی ہوئی، اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔
 
یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی میں باقی جماعتون کے مقابلے میں شیعہ زیادہ تعداد میں منتخب ہوتے ہیں، لیکن کیا یہ سب قتل ہونے والے شیعوں کو انسان، پاکستانی یا اپنے ووٹر کا درجہ بھی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم شیعون کے ووٹ لیتی ہے، مگر اس کے لیڈر کی طرف سے بیان بازی سے زیادی کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اے این پی کو تو نیچا دکھانے کے لیے بائیکاٹ اور حکومت سے علیحدگی کی دھمکی تو دیتے ہیں، کیا کسی سیاسی جماعت بشمول ایم کیو ایم نے پارلیمنٹ یا سندھ اسمبلی میں کبھی شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آواز اٹھائی، ایسا کوئی ریکارڈ نظر نہیں آتا۔ اس وقت حکومت میں اہم عہدوں پر بھی شیعہ موجود ہیں، مگر ان کی زبانیں بھی گنگ ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ پر بات ہی کرسکیں۔ 

حال ہی میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام ایک کامیاب قرآن و سنت کانفرنس مینار پاکستان پر منعقد ہوئی، جس میں سیاست میں آنے کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی فیصل رضا عابدی نے دہشتگردی کے خلاف احتجاجاً پیپلز پارٹی کراچی کی صدارت سے استعفٰی دے دیا اور ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران فیصل رضا عابدی نے درست طور پر کہا کہ دہشتگردون کے خلاف عدالتیں کچھ نہیں کر رہیں۔ لیکن خود حکومت نے کیا کیا ہے۔؟ 

پیپلز پارٹی کی سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں حکومتیں قائم ہیں اور یہیں اہل تشیع کو بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ ان صوبائی حکومتوں نے کاغذی کارروائی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ آج تک کسی سانحہ کی رپورٹ منظر عام پر بھی نہیں لائی گئی۔ ہاں جو کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ صدر مملکت نے لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے دو دہشتگردوں کی سزائے موت پر عملدرآمد ستمبر تک رکوا دیا ہے۔ 

عدالتیں تو اتنی لاتعلق ہوچکی ہیں کہ اہل تشیع کو انصاف کے قابل مخلوق ہی نہین سمجھتیں۔ عدلیہ کی طرف سے آج تک ملک میں جاری دہشتگردی اور ہنگامہ آرائی کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہاں جہاں وفاقی حکومت کو ملزم بنانا ممکن ہو تو انہوں نے ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی امیدوار سندھ اسمبلی وحیدہ شاہ نے پولنگ اسٹاف کو تھپڑ مارے، تو فوری نوٹس لے لیا گیا۔ پنجاب میں ٹیچرز پر تشدد کا بھی نوٹس لے لیا گیا، کوہستان میں شادی کی وڈیو ڈانس میں شامل لڑکیوں کے قتل کی غلط خبر کا بھی نوٹس لے لیا گیا۔ چیف جسٹس کے فرزند ارسلان افتخار کا کرپشن کیس میڈیا پر آیا تو اس پر بھی نوٹس لے لیا گیا۔ غرض کوئی un-noticed ہے تو وہ اہل تشیع کا بہنے والا بے گناہ خون ہے، جو دہائیوں سے اس سرزمین مقدس پر بہہ رہا ہے۔ اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی اسکی توقع ہے۔
 
جماعت اسلامی شیعہ تنظیموں کی بڑی دوست سمجھی جاتی ہے، مگر ان کے رہنماوں کو اہل تشیع کے قتل عام پر کبھی اخباری بیان سے ہٹ کر بات کرتے نہیں سنا گیا۔ جماعت اسلامی کو شام میں غیر ملکی مداخلت کی بڑی فکر ہے اور US-Saudi sponsored تبدیلی کے لئے بے تاب ہے۔ لیکن بحرین میں شیعہ اکثریت کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے، اس پر ایک لفط کہنے کو تیار نہیں۔ 

اسی سال اپریل مین منصورہ میں شام میں جاری خلفشار پر سیمینار منعقد کیا گیا، تو ایک صحافی نے امیر جماعت اسلامی سے سوال داغ ڈالا کہ شام میں غیر ملکی مداخلت ہے تو انہیں بحرین میں سعودی مداخلت نظر کیوں نہیں آتی، تو وہ سٹ پٹا گئے اور پھر گویا ہوئے بڑا خطرناک صحافی ہے اور بحرین کے ساتھ عوامی ہمدردی پر ایک لفظ بھی سید منور حسن نے نہیں کہا۔ البتہ ایران اور سعودی عرب کے مقابل میں کہنے لگے کہ ایران شام کے مسئلے کو حل کروا سکتا ہے اور اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یعنی بین الاقوامی سطح پر بھی جہاں شیعہ کا جو حق بنتا ہے اسے تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ 

پاکستان کا میڈیا فرقہ واریت کا لفظ استعمال کرکے اہل تشیع کے خلاف جاری دہشتگردی کو بھول جاتا ہے، حالانکہ فرقہ واریت کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، فرقہ واریت ہوتی تو ہر گلی میں لڑائی ہو رہی ہوتی، مگر معاشرے میں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔ شیعہ سنی کے درمیان رشتہ داریاں ہیں۔ یہاں خاندانی نطام ایسا ہے کہ آدھا خاندان اگر شیعہ ہے تو آدھا خاندان سنی، لیکن اکھٹے رہ رہے ہیں۔ 

مسئلہ اگر ہے تو تکفیری گروہ کا ہے، جس کو بقول علامہ ساجد علی نقوی سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا گیا ہے، لیکن ان کا عسکری گروپ پہلے بھی اور اب بھی اہل تشیع کو قتل کر رہا ہے، جس کے خلاف پاکستان کے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے یا پھر نااہل ہیں اور دہشتگردی کی بیخ کنی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ابھی تک ان دہشتگردوں چاہے وہ لشکر جھنگوی ہو، طالبان یا جنداللہ، کسی کے نیٹ ورک کو نہیں توڑا جا سکا۔ 

یہ تحائف ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت کے شیعیان حیدر کرار (ع) کے لئے، لیکن پھر بھی اس جماعت کی لیڈرشپ کا خیال ہے کہ وہ اہل تشیع کے ووٹ لے گی۔ اب اہل تشیع اس بات کا کتنا احساس کرتے ہیں، اس کا اندازہ آنے والے انتخابات میں ہی ہوگا۔ لیکن قرآن مجید کا واضح حکم موجود ہے اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔

خبر کا کوڈ : 178433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے۔
ہماری پیشکش