0
Thursday 26 Jul 2012 13:30

آسٹریلیا چلو۔۔۔۔۔۔۔!

آسٹریلیا چلو۔۔۔۔۔۔۔!
 تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
کرم ایجنسی کے عوام جو مسلسل پانچ سال تک مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کا شکار ہو کر پے درپے صدمات اور سانحات کا شکار چلے آ رہے تھے، آج کل ایک نئی آفت سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ آفت اور مصیبت اگرچہ سو ڈیڑھ سو گھرانوں پر آن پڑی ہے مگر مجموعی طور پر اس کے اثرات ہر طرف دیکھے، سنے اور ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ آفت اور مصیبت ہر فرد نے پندرہ سے اٹھارہ لاکھ روپے میں خریدی ہے اور بہ رضا و رغبت، ہنسی خوشی اور بے حد مسرت سے اسے اپنے گلے کا ہار بنایا ہے۔
 
گزشتہ چند سال (تقریباً تین سال) سے یہاں کے جوانوں میں یہ ٹرینڈ (Trend) رفتہ رفتہ زور پکڑ گیا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ بیچ کر یا سود پہ قرض لے کر غیر قانونی راستے سے آسٹریلیا جانے لگے ہیں۔ یہ ٹرینڈ (Trend) دراصل کوئٹہ کے ہزارہ قبیلہ میں بے حد شدت سے پایا جاتا ہے۔ یہاں کے سینکڑوں نوجوان اس راستے میں موت کی وادی کا سفر طے کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی یہ سلسلہ تمام تر خطرات کے باوجود جاری ہے۔ کوئٹہ سے آنیوالا یہ مرض پاراچنار (کرم ایجنسی) میں بہت تیزی سے زور پکڑ چکا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کچھ عرصہ پہلے ایک بہت بڑا سانحہ رونما ہوچکا ہے، جس پر پوری دنیا کا میڈیا اور متعلقہ ممالک کے اربابِ اختیار و انتظام یقیناً متوجہ ہوئے ہیں۔
 
اکیس جون کو پاراچنار سے تعلق رکھنے والے ایک سو چھپن افراد کوئٹہ شہر اور بعض دیگر ممالک کے لوگوں کے ہمراہ انڈونیشیا کے سمندر سے آسٹریلیا کیلئے روانہ ہوئے۔ ان لوگوں نے ابھی ایک سو کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ بلند و بالا، تیز سمندری لہروں نے ان کی کشتی کو آلیا، اوور لوڈنگ کے باعث کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اس پر سوار سنہرے خوابوں کو آنکھوں میں سجانے والوں کو پانی نے دبوچ لیا، تاہم اس کشتی میں سوار بعض لوگوں نے لائف جیکٹس پہن رکھی تھیں، جو ناگہانی صورتحال میں خود کو بچانے کی تگ و دو کرنے لگے۔ 

تقریباً 12 گھنٹے بعد عالمی ریڈ کراس کی ایمرجنسی ٹیم ان کو Rescue کرنے پہنچ گئیں۔ اس وقت تک بہت سارے لوگ گہرے سمندر میں غرق ہوچکے تھے۔ ریڈ کراس کی ٹیم جن لوگوں کو بچانے میں کامیاب ہوئی، ان کو ایمرجنسی طبی امداد دی گئی اور علاج معالجہ کی سہولیات کیساتھ انہیں ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ اطلاعات کے مطابق بعض لاشیں بھی نکالی جاچکی ہیں اور ان کی شناخت بھی ہوچکی ہے۔
 
اس آفت کے اثرات پاراچنار میں دیکھنے ہوں تو ان ورثاء سے ملاقات کریں، جن کے گھروں کے دو دو اور تین تین جوان اس کا شکار ہوئے ہیں اور ان کی تاحال کوئی خبر بھی نہیں، حکومت نے اگرچہ یہ اعلان کیا تھا کہ ہم وزارت خارجہ کے ذریعے انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے مسلسل رابطہ میں ہیں اور وزارت خارجہ میں اس حوالے سے ڈیسک قائم کیا گیا ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ آج والدین اور ورثاء مارے مارے پھرتے ہیں، انہیں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ وہ اپنی آس اور امیدوں، جوان بیٹوں کا دکھ اٹھائے دربدر پھرتے ہیں، مگر ان کے درد کا درماں کرنے والا کوئی نہیں، ان کے دکھوں کا مدوا کرنے والا کوئی نہیں۔

ان کے ہواس کو قابو میں لانے والا کوئی نہیں، بس خداوند کریم کی ذات ہے، جس سے امید اور آس ہے، یہی وجہ ہے کہ ورثاء بارگاہِ خداوندی میں التجائیں کر رہے ہیں، نذریں مان رہے ہیں۔ کرم ایجنسی کے اطراف میں واقع زیارات اور درباروں میں رش لگا ہوا ہے، منتیں مانی جا رہی ہیں، کوئی والد اپنے بیٹے کو پانے کیلئے کروڑوں کی جائیداد راہ خدا میں دینے کی منت مان رہا ہے اور کوئی ماں اپنے جگر پارے کو زندہ دیکھنے کی تمنا میں 5 سال کے روزے رکھنے کی منت مانتی ہے، کوئی بہن اپنے اکلوتے بھائی کو پانے کیلئے ننگے پاؤں زیارات پر جا رہی ہے اور بکرے، گائیں صدقہ کرنے والوں کا تو حساب ہی نہیں۔ 

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آسٹریلیا جانے کے ان خواہش مندوں میں کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل تھے اور انہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ اس کے علاوہ دبئی ابوظہبی میں اچھی تنخواہوں پر کام کرنے والے بھی اس خودکشی کی راہ کے مسافر بنے ہیں۔ بہت سے کم عمر جو میٹرک، انٹر کے طالبعلم تھے، والدین کو ضد سے اپنی خواہشات کے مقابل مجبور کرکے ہمیشہ کیلئے دکھ دے گئے اور رزق آب ہوئے۔

والدین نے کسی بھی طرح ان کیلئے بھاری رقم (اوسطا۱۶۰۰۰ڈالر) جمع کئے اور موت کے سفر پر روانہ کیا۔ یہ پہلو بھی افسوس ناک ہے کہ کئی غریب اور کم آمدن والے والدین نے بہتر مستقبل کی امید میں بنکوں سے سود پر ٹریکٹر نکلوائے اور انہیں خسارے پر فروخت کرکے اس مصیبت کو گلے لگایا، کئی ایک نے سود پر رقم اور قرض اٹھایا تو کسی نے زیور اور زمین فروخت کرکے آفت کا شکار ہونا پسند کیا، کئی اعلٰی تعلیم یافتہ تھے تو کئی بالکل ان پڑھ۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ کرم ایجنسی کے لوگوں کا مؤثر ذریعہ آمدن دبئی ابوظہبی اور امارات میں محنت مزدوری کرنے والے گھر کے افراد ہی ہیں، کچھ عرصہ سے وہاں کی حکومت نے سینکڑوں قبائلیوں کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے، جس کے بعد ان لوگوں کا رجحان غیر قانونی طریقہ اور جان لیوا راستے سے آسٹریلیا جانے کی طرف بڑھ گیا۔ خودکشی اور موت کے اس سفر پر عالمی قوانین کے تحت پابندیاں ہیں، مگر مختلف ممالک کے گروہ اس دھندہ کو بھاری رقوم کے بدلے جاری رکھے ہوئے ہیں اور انسانی جانوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں بھی یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے، ایران کے ذریعے ترکی اور یورپ نکلنے کیلئے سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی ہر دن تفتان بارڈر پر پاکستانی حکام کے سپرد کئے جاتے ہیں، اس رستہ میں بھی کئی ایک سنگین حادثات رونما ہوچکے ہیں مگر سلسلہ رکا نہیں۔ دراصل اس دھندے میں ملوث گروہ متعلقہ اداروں کے ذمہ داروں کو بھاری رقوم دیکر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

پاراچنار میں اس سنگین حادثہ کے بعد بھی یہ دھندہ جاری ہے اور 18 لاکھ روپے دیکر موت خریدنے والوں میں کمی نہیں آئی۔ اس حوالے سے حکومت متعلقہ اداروں اور والدین کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اس آفت کیخلاف اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہر ایک اپنی جگہ اپنے حصے کا کام کرے تو صورتحال کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ناجائز خواہشات کے سامنے تسلیم ہونے کے بجائے قانونی و جائز طریقہ سے رزق کمانے کا اہتمام کریں تو انہیں اس آفت اور مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ 

ملی اور قومی سطح پر معاشرے کے خواص، تنظیموں اور انجمنوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس سازش جو تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے، سے دور رکھنے کیلئے کردار ادا کریں اور دشمن کے جال میں نہ آنے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن منظم سازش کے تحت یہ کام کر رہا ہو اور اس کا ذریعہ اپنے ہی لوگوں کو بنایا ہو۔ نوجوان اگر آسٹریلیا میں پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی تصویریں آنکھوں کے سامنے رکھیں گے تو یہ حالات سامنے آتے رہیں گے اور اگر کشتی حادثہ کا شکار ہونے والوں کی دہائی دیتی تصاویر یا فلم دیکھیں گے تو ان کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح کی مصیبت سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 182304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش