4
0
Sunday 29 Jul 2012 17:10

رمضان اور چشمہ

رمضان اور چشمہ
تحریر: محمد علی انجم

آج کل یہ بات سننے میں آرہی ہے کہ سائنس دانوں نے ایسا چشمہ ایجاد کرلیا ہے کہ جس کی مدد سے ہم اپنی کمپوٹر اسکرین کو ہمیشہ جہاں چاہے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اسمارٹ فون کے ذریعے ہم انپے موبائل فون کے تمام اپلکیشز بھی باآسانی اس میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس اسمارٹ چشمے میں بیلو ٹوٹھ نصب کیا گیا ہے۔ سائنس نے بلاشبہ بہت ترقی کی ہے ہم باآسانی ہر کام کرسکتے ہیں ناممکنات ممکن بنتی جارہی ہیں، لیکن ہماری اخلاقی اقدار ترقی کے بجائے دن بہ دن پستی کی طرف جا رہی ہیں۔ معاشرتی برائیاں دن نہ دن بڑھتی جارہی ہیں ہم ان معاشرتی برائیوں کو بغیر کسی چشمے کے باآسانی دیکھ سکتے ہیں لیکن ہر شخص معاشرتی برائیوں کو دیکھ کر ان دیکھی کردیتا ہے گویا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔

ہمیں ہر طرف تعصب، پارٹی بازی، ظلم، کرپشن، اقرباء پروری کے واقعات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کاش سائنس کوئی ایسی چیز دریافت کرلیتی کہ جس سے اچھے اور برے، کھر ے اور کھوٹے کی تمیز ہوجاتی۔ لیکن بدقسمتی سے آج تک سائنس ایسی کوئی چیز ایجاد نہیں کر پائی لیکن اگر کرتی بھی تو شاید وہ ہمارے معاشرے میں ناکام ہو جاتی کیونکہ ہم ہر اس چیز کو حرام گردانتے ہیں جو ہماری برائیاں ہم پر واضح کر دیتی ہیں۔ ہم تو اس دوست سے بھی واسطہ ختم کردیتے ہیں جو ہمیں اچھائی کی راہ دکھاتا ہو اور اور ہماری برائیاں کھل کر ہمارے سامنے بتاتا ہو۔

ماہ مبارک رمضان اپنے جو بن پر ہے ہر طرف رحمتوں کا نزول ہے، ہر کوئی اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی کے لیے دعاگو ہے، ہر افطاری پر طرح طر ح کے پکوان دسترخوان کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ سحر و افطار کے لمحات رحمت خداوندی کی یاد تازہ کرا رہے ہیں، ہر کوئی خوش ہے لیکن بے چارے رستم کی حالت انتہائی خراب ہے وہ بھی روزے بڑے اہتمام سے رکھتا ہے۔ رستم پیشے کے اعتبار سے مزدوری کا کام کرتا ہے اور اپنے گھر کا واحد کفیل ہے۔ خیر رستم یوں تو پورے سال روزے رکھتا ہے کیونکہ اس کی آمدن اتنی زیادہ نہیں کہ وہ تین وقت کی روٹی آرام سے کھا سکے۔ رستم ہر شام گھر لوٹتا ہے تو افطاری کے وقت خالی دسترخوان اور غربت کے ہاتھوں سہمے ہوئے اس کے بچے اور اس کی بیوی اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ رستم بچوں کے سوکھے ہوئے ہونٹ اور سکڑے ہوئے دسترخوان کو دیکھتا ہے تو اس کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور نم بھی ہوجاتی ہیں۔ رستم اپنے نام کی طرح انتہائی بہادر ہے، اس نے ہمیشہ اپنے پیٹ پر پتھر رکھا لیکن کبھی حرام کا لقمہ اپنے بچوں کے پیٹ میں داخل ہونے نہ دیا۔

رستم آٹے اور دیگر ضررویات زندگی کے نرخ سے ناآشنا تھا، آج رستم کام پر نکلا تو اسے یاد آیا کہ اس کے بیٹے نے پہلا روزہ رکھا ہے اس کی روزہ کشائی ہے۔ اس نے سوچا کیوں نہ آج بچے کے لئے کچھ لے لے، مدت ہوئی تھی کہ رستم نے بازار سے کوئی چیز نہیں خریدی تھی، وہ سیدھے پکوڑے والے کے پاس گیا اور 40 روپے کے پکوڑے خرید لئے اور 40 کے ہی سموسے، وہ آگے بڑھا اور گوشت خریدا پھر افطاری کے لئے پھل خریدے۔ ان چیزوں کی خریداری میں اس کی جیب خالی ہوگئی وہ انتہائی پریشان ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ خدایا اتنے میں تو اس کے گھر کے پورا مہینے کا خرچہ آجاتا تھا لیکن سارا ایک افطاری پہ خرچ ہوگیا اب پورا مہینہ کیا کروں گا۔ عید کیسے گزرے گی وہ انہی خیالات میں مگن گھر پہنچا تو بچوں کی مسکراہٹ دیکھ کر وہ سارے غم بھول گیا اس کے بچے آج پہلی بار اچھا کھانا کھا رہے تھے۔

وہ خوش تو تھا لیکن اسے یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اگلے روز کے لئے کیا کیا جائے، پورے مہینے کے اخراجات وہ کہاں سے برابر کرے گا، آج صرف رستم کی ہی نہیں لگ بھگ ہر گھرانے کی یہی صورت حال ہے۔ سوائے چند لوگوں کے مہنگائی نے غریب کی زندگی اجیرن کردی ہے اور ماہ مبارک ان کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بنتا جارہا ہے، ہر سال ماہ مبارک رمضان آتے ہی نہ جانے مہنگائی کا جن کیسے بوتل سے باہر آتا ہے، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے گندے کیڑے نہ جانے کس گندی گلی سے باہر آجاتے ہیں، کرپشن کرنے والوں کو اس ماہ مبارک میں بھی چین نہیں آتا۔

سنا ہے کہ شیطانوں کو ماہ مبارک کے دوران بند کر دیا جاتاہے لیکن نہ جانے یہ شیطان کہاں سے آجاتے ہیں جو لوگوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں، کیا رستم کے بچوں کو اچھی افطاری کرنے کا حق نہیں؟ کیا رستم کے بچے کبھی اچھی افطاری نہیں کر پائیں گے؟ عزیز دوستو ماہ مبارک رمضان کے دوران کرپشن، اقرباء پروری، لوٹ کھسوٹ، بلیک مارکیٹنگ، منافع خوری سر عام ہو رہی ہے لیکن نہ جانے ہمارے مسلمان حکمران کہاں ہیں اور پتہ نہیں انہوں نے کون سا چشمہ لگایا ہوا ہے جو انہیں یہ چیزیں نظر نہیں آتیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کو شیطانوں نے غفلت کا چشمہ پہنا دیا ہے جو ہر قسم کی مہنگائی، غربت، منافع خوری، کرپشن اور بیلک مارکیٹنگ دیکھنے سے انہیں عاجز کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 182667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
boht khoub bhot acha lekha ha
Pakistan
very Good Brother Iam Proud Of Writers like you keep it up and me a voice of Gilgit Baltistan People.... Love u..
Pakistan
boht khoub mara bahi ap ka lekhna ka andaz boht nerala or acotah ha bas lektha rahya khososan gb ka halt par plz
United States
Zbrdst Ali bhai I proud of u koi to ha jo ghareebo k liay lik raha hy
ہماری پیشکش