0
Monday 13 Aug 2012 18:32

یوم القدس، روزِ اتحادِ امت

یوم القدس، روزِ اتحادِ امت
تحریر: بہلول بلتی

اس حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ 1948ء سے قبل دنیا کے نقشے پر اسرائیل نامی کوئی ملک کبھی اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔ آج جس ملک کو اسرائیل کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے دراصل یہ ارض مقدس فلسطین ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی دھرتی سے بے دخل کرنے اور صیہونی ریاست کے قیام کے اس منصوبے کو پروان چڑھانے کے لیے امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ روس نے بھی بے حد کردار ادا کیا تھا۔ بیسویں صدی کی تاریخ کے نشیب و فراز سے واقف ہر شخص یہ جانتا ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف برطانوی استعمار کی در پردہ پشت پناہی اور سرپرستی میں شروع کی جانے والی قوم پرست تحریکوں کے نتیجہ میں خلافت جیسے ادارے کو کمزوری و انحطاط کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران طے شدہ پلان کے تحت برطانوی استعمار نے ارضِ مقدس فلسطین پر قبضہ کرلیا۔

لارڈ بلفور کا صیہونی سرمایہ کاروں کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے ارض مقدس میں یہودیوں کی آباد کاری اور الگ ریاست کے قیام کا منصوبہ کامیاب ہوچکا تھا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان ہوتے ہی اسے اقوام متحدہ کی رکنیت دے دی گئی، رفتہ رفتہ فلسطینی عوام سے ان کی دھرتی، آزادی اور حقِ خودارادیت بالجبر چھین لیے گئے۔ اس موقع پر روس اور امریکہ نے نسل پرستی کی بنیادوں پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے اور اسے مضبوط کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی، بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کرتے دکھائی دیئے۔ مسلمانوں کے قلب میں خنجر گھونپنے کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ماضی کی دونوں بڑی طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا اور تاحال امریکہ نے اپنی مکمل سرپرستی اور امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

صیہونیوں کے ہر اقدام پر اسے شاباش دینا اور دنیا کی چیخ و پکار اور احتجاج پر کان نہ دھرنا، اس کا وطیرہ ہے۔ آج صورتحال کچھ اس طرح سے ہے کہ فلسطینی اپنے وطن میں غریب الوطن ہوچکے ہیں، ان کی اپنی سرزمین اور دھرتی کے دروازے ان کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں، زندگی کی بنیادی ترین ضروریات اور سہولیات چھینی جا رہی ہیں، ان کی بستیوں کو تاراج کیا جا رہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے، فلسطینیوں کی عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے، شاید ہی کوئی گھر ہو، جس میں کوئی بوڑھا، جوان یا کوئی بچہ شہید نہ ہوا ہو، ہر گھر میں نوحہ و ماتم کی صدائیں گونجتی سنائی دیتی ہیں، ہر آنکھ اشکوں کے سیلاب بہا چکی ہیں، ہر طرف تباہی و بربادی ہے، تاراجی ہے، ظلم کی نت نئی داستانیں رقم ہوتی ہے، درندگی اور سفاکیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔

ایک طرف گن شپ ہیلی کاپٹرز اور ٹینک حملہ آور ہوتے ہیں، ٹیر گیس، سٹیلون، گولیوں، بموں، بارود، جراثیمی اور کیمیائی میزائیلوں کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری طرف کم سن فلسطینی بچے، بچیاں اور نوجوان فلسطین، حماس، حزب اللہ، حسن نصراللہ، خمینی، خامنہ ای، اور شیخ احمد یاسین کی تصاویر کو بلند کئے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، پتھروں سے انتفادہ شروع کرنے والے فلسطینوں نے اب تخت یا تختہ کی شاہراہ پر زندگی کی گاڑی چلا دی ہے۔ غلیلوں، کنکریوں جیسے ہتھیاروں سے مسلح فلسطینی اسرائیل کے اسلحہ کے انبار، جدید ترین جوہری حیاتیاتی اور جراثیمی ہتھیاروں کے گوداموں کو مقابل بس ایک ہی راستہ سے اسرائیل کی درندگی اور سفاکیت کا بدلہ لیتے ہیں، دنیا کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے اور مردہ ضمیروں پر دستک دینے کیلیے انہوں نے نہتے اور خالی ہاتھ ٹینکوں سے جا ٹکرانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

جس کے ذریعے فلسطینی مظلوم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ تہذیب یافتہ اس دنیا میں ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور دنیا، تہذیب و ادب کی دعویدار دنیا خاموش تماشائی بنے انسانوں کی تباہی کا منظر دیکھ رہی ہے۔ جبکہ فلسطینوں کو محدود کرنے کی سازش پر عمل کرتے ہوئے متنازعہ دیوار کو مسلسل تعمیر کیا جا رہا ہے۔ شہری آبادیوں پر F 16 طیاروں گن شپ ہیلی کاپٹروں، میزائیلوں اور دور مار توپوں سے حملہ آور ہونے والے صیہونیوں کے مظالم پر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر حقوق انسانی کے دم بھرنے والی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہیں۔ جب فلسطینوں کی اعلٰی قیادت کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہو تو ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں، ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کو عالمی طاقتیں جائز قرار دے رہی ہوں۔ ستم رسیدہ، مظلوم، بے گھر، بے دخل اور تباہ و برباد ہونے والوں کی فریاد کو سننے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کے پاس اس کے سواء کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ غلیلوں اور پتھروں سے گولیوں، توپوں اور ٹینکوں کا مقابلہ کرے۔

آج فلسطینی نوجوان اور بہنیں اس راستے پر گامزن ہیں۔ موت سے ٹکرانا ان کا شیوہ ہے۔ جب کسی قوم میں اس طرح کا جذبہ پیدا ہو جائے تو اسے زیادہ دیر محکوم رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اسرائیل کو بھی اس بات کی سمجھ آنے لگی ہے، جب 2006ء میں حزب اللہ کے مٹھی بھر نوجوانوں کے ساتھ 33 روزہ جنگ میں شکست ہوئی اور اسی بوکھلاہٹ میں اسرائیل کبھی حماس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو کبھی ایران پر حملے کی دھمکی دیتا ہے اور کبھی غزہ میں محصور مسلمانوں کی امداد پر جانے والے قافلوں پر شب خون کرتا ہے اور ان کی اس حرکت سے چہ جائیکہ دنیا میں اس کا وقار بڑھے، پہلے سے زیادہ ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔

گذشتہ سال CIA کی اسرائیل کے حوالے سے دی گئی رپورٹ میں یہ بات وضاحت سے دی گئی ہے کہ "اسرائیل شرانگیزیوں کے سبب زیادہ دیر دنیا کے نقشے پر قائم نہیں رہ سکتا۔" ایک طرف اسرائیل کی اپنی شرانگیزیاں ان کو لے ڈوبنے کے لیے کافی ہیں تو دوسری طرف دنیا میں ابھرتی اسلامی تحریکیں اور نہضتیں جس میں انقلابِ اسلامی ایران سرفہرست ہیں، اس کے علاوہ حزب اللہ، حماس و دیگر مسلمانانِ عالم اور عالم انسانیت میں اسرائیل کے خلاف نفرت میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ کبھی حماس مقاومت کو اپنے لیے سبیل نجات گردانتی ہے اور کبھی حزب اللہ خیبر خیبر یاصیہون کا شعار بلند کرکے یہودیوں کو جنگ خیبر یاد دلاتی ہے۔ کبھی سید مقاومت سید حسن نصراللہ اسرائیل کو "بیت العنکبوت" قرار دیتے ہیں تو کبھی محمود احمدی نژاد اسرائیل کی تباہی کا مژدہ سنا کر ان کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔

امام خمینی نے صیہونوں کے مظالم اور چیرہ دستیوں کے خلاف امت مسلمہ کو متحد ہونے اور القدس شریف کے مسئلے پر یکساں موقوف اختیار کرنے کی دعوت دی تھی۔ انہوں نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی سطح پر یوم القدس کے طور پر منانے کی روایت ڈالی۔ امام خمینی نے فرمایا تھا یوم القدس یوم اسلام ہے، اسلام کی نجات کا دن ہے، یوم رسول اللہ ہے، اس روز دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے شہر اور ممالک میں عالم اسلام کے قلب میں گھونپے گئے خنجر، ناجائز جرثومے اسرائیل کے خلاف آواز احتجاج بلند کرے اور مظلوم ستم رسیدہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور یگانگت کا اظہار کریں۔ فلسطین کے موجودہ حالت اس بات کی متقاضی ہے کہ عالم اسلام اس مقدس سرزمین کی بازیابی کے لیے ڈٹ جائے اور امت واحدہ ہونے کا ثبوت دے۔ بدقسمتی سے آج ملت کو جس قدر اتحاد و وحدت اور بھائی چارے کی ضرورت ہے، اس قدر بعض عاقبت نااندیش لوگوں کی بدولت ملت اسلامیہ کا تاثر فرقہ وارانہ اور کشیدہ دکھائی دیتا ہے۔

اگر مسئلہ قدس کے لیے مسلمان اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہوتے تو آج امریکہ کی یہ جرات نہ ہوتی کہ عراق کو خاک و خون میں غلطاں کرے، افغانستان کو امریکی چھاؤنی میں تبدیل کرے اور پاکستان کی سرحدوں کی پامالی کرے، صرف یہی نہیں بلکہ ملک میں ہونے والے خودکش دھماکے، فرقہ وارانہ فسادات، کراچی کوئٹہ اور گلگت میں جاری ٹارگٹ کلنگ، کافر کافر کے نعرے، مذہبی اعتقادات پر حملہ وغیرہ یہود و نصٰاری کی سازشوں کا شاخسانہ اور امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا عالم اسلام بلخصوص پاکستان کے سنجیدہ طبقات اور افراد کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔ یوم القدس اس حوالے سے بہترین موقع ہے۔ اس روز امت مسلمہ کے تمام طبقات اور مکاتب فکر کو چاہیے کہ وحدت مسلمین کے لیے جمع ہو کر استعمار اور اس کے نمک خواروں کے ارادوں کو خاک میں ملائیں، تاکہ اسلام کا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 187009
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش