1
0
Sunday 12 Aug 2012 20:41

یوم القدس، یوم وحدت، یوم بیداری

یوم القدس، یوم وحدت، یوم بیداری
تحریر: ندیم عباس
پی ایچ ڈی اسکالر نمل یونیورسٹی
 
مسجد اقصٰی میں آگ لگنے کا دلخراش واقعہ ہوتا ہے، جس میں مسجد کو جزوی نقصان پہنچتا ہے۔ عالم اسلام میں اضطراب کی لہر دور جاتی ہے، مسلمان اپنے قبلہ اول اور مسکن انبیاء علیھم السلام کی بے حرمتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس واقعہ کے خلاف احتجاجی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہر مسلمان اس بے حرمتی کا بدلہ لینے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مسلمان حکمران متحرک ہوتے نظر آتے ہیں، اس واقعہ کے خلاف بیانات جاری کرتے ہیں، اور تمام اسلامی ممالک ایک سربراہ اجلاس بلاتے ہیں، جس میں او آئی سی کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ تمام مسلمان امید بھری نظروں سے اس ادارے کی طرف دیکھتے ہیں کہ اب یہ ادارہ امت مسلمہ کے مسائل کا حل نکالے گا، چونکہ تمام مسلمان یو این او جیسے اداروں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یو این او نے مسلم مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھا دیا ہے اور ہمیشہ مسلم مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ 

انڈونیشیاء کے علاقے مشرقی تیمور میں کچھ مسائل سامنے آتے ہیں تو راتوں رات ریفرنڈم کے ذریعے اسے انڈونیشیا سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ سوڈان کا تیل پیدا کرنے والا پورا خطہ الگ مملکت بنوا دیا جاتا ہے، مگر کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی قراردادیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی تمام امیدیں او آئی سی سے وابستہ ہو جاتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل نکالے گی۔ مگر افسوس کہ وہی ہوتا ہے جس کا ڈر تھا۔ یہ ادارہ فقط نشستن، گفتن، خوردن، رفتن کا مصداق بن جاتا ہے۔ یعنی بیٹھے، گفتگو کی، کھایا، اور چلے گئے۔ مسلمانوں کے کسی مسئلہ کا کوئی عملی حل پیش نہ کر سکا، فقط مسلم عوام میں آنے والی بیداری کی لہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چند بیانات جاری کئے اور پھر خواب خرگوش میں چلا گیا۔ 

مسجد اقصٰی یہود کے قبضہ میں پکار رہی ہے، مسلمانو! کہاں ہو؟ مجھے کیوں فراموش کر دیا ہے؟ کیا میں وہی مقدس مقام نہیں جہاں سرور کونین (ص) نے انبیاء علیھم السلام کو نماز جماعت کرائی تھی؟ کیا مجھ سے معراج کے سفر کا آغاز نہیں ہوا؟ کیا میں وہی مقدس سرزمین نہیں کہ مسلمان مجھے غیروں کے قبضہ میں دیکھ کر اپنے اوپر مسکرانا حرام کر لیتے تھے؟ مگر آج مسجد اقصٰی کی آواز کون سنے اور آج کون اس کی آواز پر لبیک کہے۔ آج وہ جذبہ ایمان کہاں؟ آج وہ شوق شہادت کہاں جو راتوں کی نیند اور دنوں کا چین ختم کر دیتا تھا۔ 

میں کہوں گا اے مسجد اقصٰی ہمارے پاس افراد کی کمی نہیں، اسلحہ بھی بہت ہے اور دولت کی بھی فراوانی ہے، مگر یہ تمام چیزیں ہم ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، آج دشمن کو ہمارے اوپر حملہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمیں پارہ پارہ کر دیا ہے۔ تیری آواز سننے کے لیے پاکیزہ دل چاہیے، بے لوث جذبہ ایمان چاہیے، مگر یہ اجناس تو کب کی نایاب ہوگئیں۔ آج ہم فقط مال و متاع دنیا پر مر مٹتے ہیں۔ وہ جذبہ ایمان جو متاع جان تھا کب کا کھو چکا ہے۔
 
نبی مکرم (ص) کی حدیث ہے: جو مسلمان اس حالت میں صبح کرے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کے امور کی فکر نہ ہو، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسی طرح آپ (ص) کا فرمان ذیشان ہے: مسلمانوں کی مثال جسد واحد کی طرح ہے، اگر ایک حصہ کو تکلیف ہوگی تو تمام اعضاء کو تکلیف ہوگی۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور اپنی خاموشی و بے حسی کو دیکھیں تو اپنی مسلمانیت کا پتہ چل جائے گا۔ ٹی وی پر اگر اس مظلوم فلسطینی قوم کی خبر آتی ہے تو چینل تبدیل کر دیتے ہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ ہر مسلمان خود کو فلسطینی سمجھتے ہوئے ان ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہوا محسوس کرتا۔ اللہ تعالٰی نے اس قوم سے یہ کام لیا ہے کہ ٹینکوں اور ایف سولہ طیاروں کا مقابلہ غلیل اور پتھر سے کرتے ہیں۔ مسلمان خواتین کو خود کو ان خواتین میں شامل محسوس کرنا چاہیے تھا جو روز کسی جنازے کے ساتھ روتی جا رہی ہوتی ہیں یا اپنے بھائی، شوہر یا باپ کی تصویر اٹھا کر احتجاج کر رہی ہوتی ہیں۔ 

یہ ٹینکوں کے سامنے کھڑے بے کس و لاچار بچے، یہ جنازوں کے ساتھ روتی پیٹتی فلسطینی خواتین، مدتوں سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے جوان جن کی ڈارھیاں سفید ہو گئی ہیں، کل روز محشر ہم سے سوال کریں گے، اے امت ختم رسل (ص) جب ہم دین کی سربلندی اور سرفرازی کے لیے صرف مسلمان ہونے کے جرم میں مارے جا رہے تھے تو آپ نے کیا کیا۔؟ کیا کوئی آواز اٹھائی۔؟ کیا کوئی عملی اقدام کیا؟ تو یقیناًاس وقت ہمارے پاس سوائے ندامت اور شرمندگی کے کوئی جواب نہ ہوگا۔ 

فلسطینیوں کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے۔ ہر قانون، ہر آئین یہ حق دیتا ہے کہ جو قوم جس سرزمین پر بستی ہے، وہ اسی کی ملکیت ہوتی ہے، مگر آج کی نام نہاد مہذب دنیا اس بنیادی حق کو بھی فلسطینیوں کے لیے تسلیم نہیں کرتی اور دنیا بھر کے اسرائیلی وہاں آباد کئے جا رہے ہیں اور پوری فلسطینی قوم کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ 

ان حالات میں خدا بھلا کرے داعی اتحاد و وحدت اور امت مسلمہ کے عظیم رہنما امام خمینی (رہ) کا جنہوں نے ایران میں استعمار کے دانت کھٹے کئے پرچم اسلام کو سر بلند کیا، انہوں نے مسئلہ فلسطین کو عرب اسرائیل مسئلہ کی بجائے انسانی اور اسلامی مسئلہ کے طور پر پیش کیا، فلسطینیوں کی بھرپور اخلاقی، سیاسی، روحانی اور مالی مدد فرمائی۔ امت مسلمہ کو مسئلہ فلسطین سے روشناس کرایا۔ اس حوالے سے ان کا سب سے اہم قدم ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دینا ہے۔ جس میں پوری دنیا کے مسلمان اس مظلوم قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، قبلہ اول کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ 

اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ یوم القدس کا فائدہ کیا ہوگا؟ ہم اپنے ملک کی سڑکوں کو بند کریں گے، اپنے گلی محلوں میں احتجاج کریں گے، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان احتجاجات کا مقصد مسلمانوں میں بیداری کا پیدا کرنا ہے، مسلمانوں کو فلسطین اور بیت المقدس کی اہمیت کے بارے میں بتانا ہے، ان احتجاجات کا ہی اثر ہے کہ آج امت مسلمہ کے جس بچے سے بھی پوچھا جائے کہ عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو اس کا جواب فلسطین ہوتا ہے۔ آزادی قدس کے حوالے سے جس شخصیت نے عملی اقدامات کئے اور شرق و غرب میں بسنے والے مسلمانوں کے ہیرو قرار پائے وہ سید حسن نصر اللہ ہیں، جنہوں نے کئی جنگوں میں اسرائیلیوں کو شکست دی اور اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے مفروضہ کو غلط ثابت کیا۔
 
بھائیو! بیت المقدس کی آزادی کا راز فقط اور فقط وحدت اسلامی میں پوشیدہ ہے۔ اگر تمام مسلمان متحد ہوجائیں تو اسرائیل کی جرأت ہی نہیں کہ وہ بیت المقدس پر قابض رہ سکے۔ امام خمینی (رہ)  نے یہ درست فرمایا تھا اگر دنیا کے تمام مسلمان مل کر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر ڈالیں، تو اتنا بڑا سیلاب آئے گا کہ اسرائیل نیست و نابود ہوجائے گا۔ انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب فلسطین آزاد ہوگا، مسجد اقصٰی آزاد ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 186961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
Mashallah
Its really nice column
ہماری پیشکش