0
Sunday 2 Sep 2012 11:19

بلوچستان میں فرقہ واریت کی سازش....

بلوچستان میں فرقہ واریت کی سازش....
تحریر: احمد جمال نظامی 

اور اب کوئٹہ میں سیشن جج کو گن مین اور ڈرائیور سمیت قتل کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ کے سیشن جج ذوالفقار نقوی اپنے گھر سے عدالت جا رہے تھے کہ راستے میں گھات لگائے نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجہ میں ذوالفقار نقوی، ڈرائیور اور گن مین موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ بلوچستان کے حالات کے بارے میں جتنا سپریم کورٹ آف پاکستان نے کردار ادا کرتے ہوئے حکومت وقت کو ہدایات جاری کی ہیں اور اسی طرح ایف سی و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جتنا متنبہ کیا جاتا رہا ہے، اگر حکومت اور تمام ذمہ داران بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کا درد دل رکھے ہوئے ہوتے تو بلوچستان کے حالات بہتری کی طرف کم از کم گامزن ہو چکے ہوتے، مگر افسوس حکومت نے اپنی روایتی روش کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچستان کے مسئلے پر بھی کوئی سنجیدہ اقدامات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی صرف اور صرف روایتی انداز میں ناراض بلوچ رہنماوں کو منانے کی باتیں کی جاتی رہیں۔ 

ان کے مقدمات ختم کئے جانے کے نعرے سامنے آتے رہے اور کہا جاتا رہا کہ حکومت بلوچستان کے حالات و واقعات کو بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوششیں کرے گی، مگر بلوچستان کے جو حالات ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت نے اب تک بلوچستان اور بلوچ عوام کے لئے کیا کیا ہے۔ کہاں گیا حکومت کا وہ بلوچستان ریلیف پیکج جس کے تحت حکومت نے بہت دعوے کئے تھے۔ کم از کم گذشتہ چھ ماہ سے بلوچستان کے سلگتے حالات پر ہر محب وطن پاکستانی تڑپ رہا ہے۔ بلوچستان کے اندر شورش برپا ہوتی چلی جا رہی ہے اور بلوچ نوجوانوں کی ناراضگی حد سے زیادہ تجاوز ہو چکی ہے، اس کے باوجود جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنے ایک مرتبہ ریمارکس میں کہا تھا کہ بلوچستان کے حالات اس قدر گھمبیر ہیں کوئی شخص اپنے گھر پر پاکستانی پرچم نہیں لہرا سکتا۔ 14 اگست نہیں منائی جا سکتی۔ 

حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہے اور عملی طور پر کچھ کر ہی نہیں رہی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی ایجنڈا اور سازش جس کے تحت بلوچستان کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور سازشیں کی جا رہی ہیں کہ بلوچستان کو کسی نہ کسی طرح پاکستان سے الگ کر دیا جائے اس میں حکومت وقت اپنا مکمل حصہ ڈالے ہوئے ہے۔ بلوچستان کو امریکہ اور عالمی مسلم دشمن صیہونی لابی نیوورلڈآرڈر کے تحت پاکستان کے نقشے سے باہر پیش کرتی ہے اور مستقبل کے حوالے سے ان کا گریٹر پاکستان کے حوالے سے یہ نقشہ سامنے آ چکا ہے، جس میں پاکستان کو صرف پنجاب تک محدود رکھا گیا ہے اور پنجاب کو بھی کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا، لہٰذا اسی سازش کے تحت بلوچستان میں حکومتی رٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دی گئی۔
 
ہر حکومتی فیصلے کو بلوچستان میں چیلنج کیا جاتا ہے، جس کی بہت حد تک ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے، جیسے سپریم کورٹ بلوچستان کے مسئلے پر کہہ چکا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد میں ایف سی ملوث ہے اور سرکٹی لاشیں ہر اس شخص کی برآمد ہوتی ہے جس کی بازیابی کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بلوچستان جو معدنیات سے مالامال صوبہ ہونے کے علاوہ رقبے کے لحاظ سے وطن عزیز کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس کو ماضی کی تمام حکومتوں نے تو نظرانداز کیا ہی تھا، موجودہ حکومت نے جو بار بار جمہوریت کا راگ الاپتی ہے اس نے بلوچستان میں اصلاحات لانے کے لئے اپنا کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا۔ 

کیوں بلوچستان میں ترقیاتی و تعمیراتی منصوبہ جات کا جال نہیں بچھایا گیا اور کیوں بلوچ عوام کی حالت زار سنوارنے کے لئے بنیادی اقدامات نہیں کیے گئے۔ بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کی وجہ سے اسرائیلی موساد، امریکی سی آئی اے اور بھارتی را بہت زیادہ متحرک ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح بلوچستان کے اندر شورش برپا رہے اور اسے پاکستان سے الگ کرکے گوادر بندرگاہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا جائے۔ گوادر بندرگاہ اس وقت ملک کے لئے روح کی حیثیت رکھتی ہے اسے ہر حال میں آپریشنل کرنے کے لئے اقدامات شروع ہونے چاہئیں۔ بلوچستان کے ساتھ ملک کا مستقبل وابستہ ہے اور بلوچ عوام محب وطن ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں لاپتہ افراد کو لاپتہ کرنے کا کھیل ترک کر دیں۔
 
ان کی مداخلت کی وجہ سے بے چینی میں اضافہ اور لاپتہ افراد کی فہرست طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کوئٹہ میں سیشن جج ذوالفقار نقوی کا گن مین اور ڈرائیور سمیت ہونے والا قتل انتہائی المناک واقعہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے کر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی سازشیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 192007
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش