0
Thursday 8 Nov 2012 01:10

امن دوست معاشرہ، ایک اہم ضرورت

امن دوست معاشرہ، ایک اہم ضرورت
 تحریر: عمران خان
imranviews@gmail.com
 
پودوں کی تراش خراش ان کی نشو و نما میں اضافے کا سبب بنتی ہے نہ کہ خاتمے کا۔ خودرو اور نقصاندہ پودوں کو کسان جڑ سے اکھاڑتا ہے نہ کہ اس کی تراش خراش میں وقت ضائع کرتا ہے۔ جرائم اور دہشت کے جو پودے آمرانہ ادوار میں بوئے گئے ان کی ٹہنیاں یا کونپلیں کاٹ دینے سے دہشت گردی کے تناور درخت مسمار نہیں ہونگے، بلکہ اور زیادہ پھلتے پھولتے جائیں گے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جائے، جس کے لیے ضروری ہے ہر اس چور راستے کو بند کیا جائے جہاں سے دہشت گردوں کو افرادی، معاشی اور تکنیکی کمک میسر آرہی ہے۔ 

گرچہ یہ حکومت اور پاک عوام کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے مگر آنیوالی نسل کو خودکش حملوں، بم دھماکوں، اغوا و بھتہ خوری، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز سے محفوظ رکھنے کے لیے لامحالہ یہ کرنا ہوگا۔ مسائل کی نشاندہی اور الزام تراشی تک محدود رہنے سے نہ ہی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی حملہ آوروں کو روکا جاسکتا ہے۔ حکومت اور اداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ڈرون حملوں، فرقہ واریت اور طالبانائزیشن کے بانی عالمی دہشت گرد امریکہ کے سامنے بے بس ہیں، کیونکہ جنگی آلات کے سافٹ ویئرز، پرزہ جات، آن لائن بینکنگ سمیت کئی شعبوں میں یہ امریکی چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جس کے باعث حکومت یا اداروں سے یہ توقع خام خیالی ہی ہے کہ وہ کبھی امریکہ سے دہشت گردی کی سرپرستی ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔

دوسری جانب واحد قوت عوام کی نظر آتی ہے جو پاکستان سمیت پورے خطے سے امریکہ اور اس کے بنائے ہوئے دہشت گردوں کو باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر بچارے یہ عوام حالات و واقعات کی چکی میں بری طرح پس جانے کے باجود اسلام اور پاکستان کی بقاء کے لیے سربکف ہیں اور امریکہ دشمنی کا عزم سربلند کئے ہوئے ہیں، مگر یہ عوام بھی آئندہ لائحہ عمل کی امید ایسی نام نہاد ہستیوں سے لگائے بیٹھے ہیں جو خود سفارتخانوں کی محافل میں خودی کے جام پی کے بےخود رہتے ہیں اور نیٹو سپلائی کے آگے لیٹنے کے دعوے کرتے ہیں۔
 
یا پھر ان علماء سے اپنے زخمی دلوں کا مرہم طلب کرتے ہیں جو مختلف توجیہات پیش کرکے اس دہشت گردی کو تحفظ دینے پر کمربستہ ہیں، جس نے لاکھوں پاکستانیوں سے ان کے پیارے چھین لیے۔ ان محترم علماء سے جب اس پالیسی کی وضاحت کی درخواست کی جائے تو وہ فوراً سے پیشتر غدار اور دشمن قرار دینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ ایک طرف ڈرون، دوسری جانب خودکش حملہ آور، سکول جلانے والے، مساجد، امام بارگاہوں، مزارات پر دھماکے اور ملالہ پر ربڑ کی گولیاں چلانے والے دہشت گرد یعنی آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔ 

اب جناب امریکہ اور ایک عزیز اسلامی ملک کے تعاون سے ایک نیا کاغذی مافیا ملک میں پنپ رہا ہے، جس کے مذموم مقاصد اگر خدانخواستہ پورے ہوگئے تو عوامی سطح پر جو محبت، رواداری اور ملنساری کی فضا پائی جا رہی ہے، اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ آگ و تیل سے حاصل کردہ لمبی رقومات کے ذریعے یہ کاغذی مافیا نئے سرے سے نئی اسلامی تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ اس تاریخ میں مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کے درمیان پائے جانیوالے فروعی اختلافات کو انتہائی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حتٰی کہ خلفائے راشدین سے منسلک ایام کی تواریخ میں بھی ردوبدل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس میں سوشل میڈیا کے شوقین نوجوان بناء کسی تحقیق و تصدیق کے اس مافیا کے کارکنوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس حساس مسئلہ پر اگر اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت مذہبی امور اور وفاق المدارس نے توجہ نہ دی تو شائد یہ بھی ناقابل حل مسئلہ بن کے رہ جائے گا۔
 
محرم الحرام کے حوالے سے پنجاب حکومت نے سکیورٹی پلان مرتب کر دیا ہے، جس میں 9136 جلوس اور 37249 مجالس عزا کی سکیورٹی کے لیے 118308 پولیس اہلکار خدمات سرانجام دیں گے۔ جبکہ یوم عاشور حساس علاقوں میں فوج بھی طلب کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے آخر کب تک بندوقوں اور سنگینیوں کے سائے میں اس ملک کے عوام نمازیں اور عزاداری ادا کرتے رہیں گے۔ کیا وجہ ہے کہ ملک میں نہ ہی مساجد میں نمازی محفوظ ہیں نہ ہی عزا خانوں اور مجالس میں عزادار محفوظ ہیں اور نہ ہی مزارات و زائرین۔ 

ایک طرف سکیورٹی پلان مرتب کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب کراچی میں معروف عالم دین علامہ آفتاب حیدر جعفری کو ان کے عزیز شاہد علی کے ہمراہ دن دیہاڑے فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح کوئٹہ میں تین افراد کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں شادی کی تقریب کے دوران دستی بم سے حملہ کیا گیا، جس میں دو افراد جاں بحق اور سات افراد زخمی ہوگئے۔ عوام کو تحفظ دینا سکیورٹی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان اداروں کے اہلکار ذمہ داریاں حاصل کرنے سے قبل عوام اور وطن کی حفاظت کا حلف لیتے ہیں۔ نہ کہ کسی سیاسی یا انتظامی عہدیدار کی خوشنودی کا۔ مگر افسوس ہے کہ ان اداروں میں شامل کچھ کالی بھیڑیں اپنے حلف اور اختیارات کا پاس نہیں رکھ رہیں۔ 

دوسری جانب مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا عدالتوں کا کام ہے، مگر حیرت کی بات ہے نامور دہشت گرد اتنی شفقت سے رہا ہو جاتے ہیں کہ انصاف خود کٹہرے میں ندامت محسوس کرتا ہے۔ دو بڑے اداروں کے چیفس (سربراہوں) کے درمیان گزشتہ دنوں جو خیالات کا تبادلہ ہوا ہے اس پر بھی عوام انگشت بدانداں ہیں۔ اگر عوام کی طرف دونوں چیفس رجوع کریں تو ڈرون حملوں، بم دھماکوں، نیٹو سپلائی اور ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گردوں سے بیزار عوام ایک چیف سے شاکی ہیں جبکہ منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے، دہشت گردوں کی رہائی، سیاسی مقدمات کی سیریز سے ناخوش عوام دوسرے چیف سے خائف ہیں۔ ایک چیف کی توسیع اس کے اپنے ہم نوالہ ہم پیالہ دوستوں کو نہیں بھاتی اور دوسرے چیف کی مطلق العنان روش سے سبھی ناراض لگتے ہیں۔ 

قومی اداروں کے درمیان ہم آہنگی عوام اور ملک کے استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کرپٹ اور متنازعہ ذہنیت پر سیاسی دروازے اداروں کے ذریعے ہی بند کئے جاسکتے ہیں اور پارلیمنٹ کے ذریعے ہی اداروں کو تحفظ اور اختیارات کا تعین ممکن ہے۔ سات سمندر دور کے دوست نما دشمن سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے قرب و جوار میں دوستی کے رشتے زیادہ مفید ہیں۔ نو گو ایریاز میں حکومتی رٹ کا قیام گفت و شنید کے ذریعے ممکن ہے، کیونکہ وطن اب ڈومور کا مزید متحمل نہیں۔ 

کیل کانٹے سے لیس این جی اوز کے متنازعہ افراد کے ویزوں کی منسوخی بہتر اقدام ہے، اسی طریق سے زبردستی کے مہمانوں کو واپس بھیجا جاسکتا ہے۔ ڈی این اے میں ہر خودکش ڈیورنڈ لائن کی پٹی کا ہے تو یتیم خانوں سے بچوں کے سابقہ اور موجود ریکارڈ کی چھان بین نئے بھرتی شدہ سب انسپکٹرز کے ذریعے کرائی جا سکتی ہے جو ابھی تک حلف نہیں بھولے ہونگے۔ شائد اس کاروبار میں ملوث افراد کو دونوں چیفس ملکر نشان عبرت بنا دیں۔ قبائل کو اسلحہ سے دور رکھنے کے لیے انھیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنا ضروری ہے، جس کے لیے انھیں انہی کے علاقوں میں روزگار، تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہونگے۔
 
وطن کے کئی سرحدی ایریاز میں بچوں کے سکول ایسے عناصر نے تباہ کرائے جن کا بنیادی مقصد ان علاقوں میں این جی او ز کے کردار کی توسیع اور وہاں اپنی مرضی کا نصاب متعارف کرانا تھا۔ اگر سیاسی و دینی حلقوں کے اکابرین اختلافات کے باوجود برداشت اور ادارے ایک دوسرے کے اختیارات کو کھلے دل سے تسلیم کرکے تعاون کی پالیسی اپنا لیں تو کوئی شک نہیں کہ اسلام اور وطن کے دشمنوں کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر منہ کی کھانی پڑے اور علاقائی و عالمی سطح پر پاکستان کا تعارف امن دوست معاشرے کے طور پر کرانا نصیب ہو۔ انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 210077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش