0
Sunday 18 Nov 2012 00:16

گلگت بلتستان کی آزادی سے محرومی کا دن

گلگت بلتستان کی آزادی سے محرومی کا دن
تحریر: منظور حسین پروانہ

گلگت بلتستان کو اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم کئے 66 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ڈوگرہ راج سے نجات حاصل کرنے کے بعدگلگت بلتستان کے باسیوں کی "آزادی سے غلامی کا موجودہ سفر" 16 نومبر1947ء سے شروع ہوتا ہے جب" آزاد جمہوریہ گلگت "پر شب خون مارا گیا۔ ایک سازش کے تحت صدر جمہوریہ گلگت شاہ رئیس خان کو معزول اور کمانڈر انچیف حسن خان مرزا کو برطرف کردیا گیا۔ گلگت میں بیٹھے سامراج کا ایجنٹ میجر ویلیم براؤن نے ہنزہ اور نگر کے راجاؤں (میروں)کی طرف سے جعلی خطوط لکھ کر پاکستان کو گلگت بلتستان انتظامی کنٹرول سنبھالنے مشورہ دیا جسے" الحاق" کا نام دیا جاتا ہے۔

میجر براؤن نے گلگت بلتستان کے عوام کی یکم نومبر کی انقلاب کو بغاوت سے تشبیہ دی ہے اور اپنی خودنوشت ڈائری " بغاوت گلگت " میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے پاکستان کو ریاست گلگت پر قبضہ کرنے کے لئے کئی خطوط لکھے اور ان کی ہی دعوت پر حکومت پاکستان نے اپنے نمائندے نائب تحصیلدارسردارمحمد عالم کو گلگت بھیجا جنہوں نے گلگت آتے ہی نوزائیدہ ریاست" آزاد جمہوریہ گلگت " کو چلتا کردیا اور عبوری حکومت کا خاتمہ کرکے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق اور حق حکمرانی سے محروم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے جمہوریہ گلگت کو دنیا کے نقشے سے مٹانے میں سازشی کردار ادا کرنے کے عوض بعد از مرگ میجر براؤن کو ستارہ امتیاز سے نوازا۔

ڈوگروں کی غلامی سے آزاد ہوتے ہی گلگت بلتستان کے عوام کو دوبارہ طوق غلامی پہنائی گئی۔ گلگت کے ایک بزرگ اسکالر سید یحٰی کے بقول پہلے" ہم پر گورے حکومت کرتے تھے اب کالے حکومت کرتے ہیں" غلامی گوروں کی ہو یا کالوں کی، ہندؤں کی ہو یا مسلمانوں کی، غلامی ہر صورت میں قابل مذمت ہوتی ہے اس لئے گلگت بلتستان کے عوام ہر سال 16 نومبر کو "یوم غلامی"کے طور پر مناتی ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی آزادی ابھی باقی ہے اور یہاں کے باسی اپنی ریاست و حکومت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔

گلگت بلتستان میں حکومت پاکستان کی موجودگی کو اخلاقی اور قانونی طور پر تحفظ فراہم کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے 28 اپریل 1949ء کو کراچی میں کشمیری رہنماؤں سے ایک معاہدہ کیا جو" معاہدہ کراچی" کہلاتا ہے اور " معاہدہ کراچی" کے ذریعے ان علاقوں کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیا۔ معاہدہ کراچی سے ثابت ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان سے کسی بھی قسم کا الحاق نہیں کیا اگر الحاق کیا ہوتا تو حکومت پاکستان کوکسی معاہدے کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ میجر براؤن نے جس چڑیا کو پاکستان کے پنجرے میں قید کردیا تھا جسے پاکستان کے حکمرانوں نے معاہدہ کراچی کے ذریعے دوبارہ ریاست جموں و کشمیر کو لوٹا دیا۔ جس کی وجہ سے گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ بن کر اقوام متحدہ کے قرار دادوں میں داخل دفتر ہوگئے، اگر پاکستان کے حکمران چاہتے تو میجر براؤن کے الحاق پاکستان کے جعلی دستاویزات کو بنیاد بنا کر گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنا سکتے تھے لیکن ایسا کرنے کے بجائے گلگت بلتستان کو دوبارہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ گردانہ گیا۔ 

جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل اس ریاست کے لوگوں سے آزادی چھیننے کے بعد اس خطے کو" تنازعہ کشمیر" کے ساتھ جوڑ کر اقوام متحدہ کے فائلوں میں مقید تو کیا گیا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے یہاں کے لوگوں کو حق حکمرانی دینے کے بجائے عملی طور پر تنازعہ کشمیر سے الگ تھلگ رکھا گیا جس کی وجہ سے یہاں وقوع پذیر ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اقوام عالم کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہی اور یہاں کے لوگوں کی طرف سے اپنی آزادی اور خودمختاری کی بحالی کے لئے اٹھنے والی تحریکوں کو ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دبایا جاتا رہا جو ہنوز جاری و ساری ہے۔

آزادی سے غلامی کی راہ پر گامزن اس" مسلم نوآبادی "میں دن بہ دن معاشی بدحالی، انسانی حقوق کی پامالی، علاقائی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصبات کو فروغ دیا جارہا ہے اور پاکستان کا نو آبادیاتی نظام حکومت تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے 2009ء میں گلگت بلتستان میں ایک نیا انتظامی سیٹ اپ متعارف کرایا جسے"امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آرڈینس 2009ء" کا نام دیا گیا۔ اس انتظامی اصطلاحات کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبائی طرز حکومت سے نوازا گیا۔ گلگت بلتستان پیکیج کی آڑ میں انتخابات کا ڈرامہ رچاکر حکمران جماعت پی پی پی نے بظاہر گلگت بلتستان میں فتح کے جھنڈے گاڑنے، اپنی جماعت کے ایک جیالے کو وزیراعلیٰ بنانے میں کامیابی حاصل کی لیکن اس پیکیج نے گلگت بلتستان کے باسیوں کو مضحکہ خیز صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں دو طرح کے نظام حکومت کام کرتے ہیں۔ ایک طرف سینیٹ کی شکل میں" گلگت بلتستان کونسل" کا قیام عمل میں لاکر اسے ایک ملک کا درجہ دیا گیا ہے تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدوں کے ذریعے اسے صوبہ نما بنایا گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی سینیٹ طرز کا ایوان بالا کا سربراہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں اورکونسل میں غیر ریاستی باشندوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کاانتظامی سیٹ اپ ملک طرز کا ہو یا صوبہ طرز کا یہاں کے عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ یہاں کے عوام حکومت پاکستان کی طرف سے دیئے جانے والے کسی بھی اصطلاحاتی پیکیج کویکم نومبر1947ء کو قائم کی جانے والی آزاد اور خودمختار ریاست  "جمہوریہ گلگت" کا نعم البدل نہیں سمجھتی۔ گلگت بلتستان میں صوبائی طرزحکومت اور وزیراعلیٰ اور گورنر کے عہدوں کو متعارف کروا کر حکومت پاکستان کے پالیسی میکرز اور تھنک ٹینک نے اس خطے کو جموں و کشمیر کے ہم پلہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اقوام عالم کو باور کرایا گیا ہے کہ اگر بھارت سری نگر میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنا سکتا ہے تو پاکستان بھی گلگت بلتستان میں" کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ" بنا سکتی ہے۔

ادھر بھارت نے جموں کشمیر میں حریت پسندوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں مسلح افواج تعین کر رکھی ہے اور ادھر پاکستان نے بھی نقص امن کے نام پر گلگت بلتستان کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا ہے، اور آج سری نگر اور گلگت بلتستان کی سڑکیں گلیاں اور چوک ایک ہی تصویر کی منظر کشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف سری نگر کی صوبائی حکومت کے ہاتھوں انسانی حقوق پامال رہا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان کی صوبائی طرز کی حکومت خطے میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ قوم پرست سیاسی رہنما منظور پروانہ اور بابا جان ہنزائی کی گرفتاری اور ان کو کئی کئی مہینے جیلوں میں رکھے جانے کے واقعات نے گلگت بلتستان میں ریاست کے جبر کو نمایاں کردیا ہے۔
 
12 نومبر2009ء کو وجود میں آنے والی گلگت بلتستان کی صوبائی طرز کی حکومت نے گلگت بلتستان کو "فرقہ وارانہ زون "میں تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت سازی مسلکی بنیادوں پر عمل میں لائی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ، اسپیکر اور وزراء کے تقرری میں قابلیت اہلیت اور میرٹ کے بجائے مسلکی اور علاقائی تعلق کو مدنظر رکھا گیا ہے اور وزارتیں علاقائی اورمسلکی بنیادوں پر تقسیم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کا پرامن معاشرہ آتش فشاں کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جب سے مھدی شاہ سرکار نے حکومت سنبھالی ہے گلگت بلتستان لاقانونیت، اقرباء پروری، کرپشن، انسانی حقوق کی پامالی، بے روزگاری، غربت اور جیالا کلچر کی آماجگاہ اور مسکن بن چکا ہے۔

چلاس میں دیامر بھاشہ ڈیم کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئی اور تین افراد کو پولیس گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ گلگت بلتستان میں ٹیکس کے نفاذ کرکے لوگوں کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔ غیر مقامی لوگوں کو گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر بسایا جارہا ہے سرکاری محکموں میں عام لوگوں پر ملازمت کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ رشوت اور جیالا کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ سرکاری ایجنسیوں کو بےلگام چھوڑا ہوا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری نے غریبوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ قوم پرستوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر اظہار رائے کی آزادی اور جمہوری اقدار کو کچل دیا گیا ہے۔ صحافی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن حکمراں جماعت یہ راگ الاپتے نہیں تھکتی کہ ہم نے گلگت بلتستان کو حقوق دئیے ہیں۔

سال رواں میں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی سے آئینی صوبہ کے لئے منظور ہونے والی قرارداد نے موجودہ صوبائی حکومت کا پول کھول دیا ہے۔ ایک طرف حکومت پاکستان گلگت بلتستان پر اپنی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لئے مختلف پالیسیاں مرتب کر رہی ہیں تو دوسری طرف گلگت بلتستان کی قوم پرست تنظیموں نے اپنی پرامن سیاسی جدوجہد کے دائرہ کار کو بین الاقوامی سطح تک بڑھا دیا ہے اور اب جنیوا سے لے کرنیویارک تک گلگت بلتستان کے مسئلے کو زیربحث لایا جارہا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کے 44 ممبران نے "فرنٹس آف گلگت بلتستان" بنا کر گلگت بلتستان کے محروم عوام کی حقوق کی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جہاں گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے دنیا کے کونے کونے سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں تو وہاں گلگت بلتستان کے سیاسی بصیرت رکھنے والوں نے واشنگٹن میں گلگت بلتستان نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں لا کر گلگت بلتستان میں پہلے سے موجود قومی سیاسی جماعتوں کے منشور کو حق بجانب قرار دیا ہے۔

گلگت بلتستان کی عوام کی خاموش اکثریت آزادی کو ناگزیرسمجھتی ہے اور قوم پرستوں کی جدو جہد کو سپورٹ کرتی ہے۔ بالاورستان نیشنل فرنٹ، گلگت بلتستان یونائیٹڈموؤمنٹ، قراقرم نیشنل موؤمنٹ، بلورستان لیبر پارٹی اور پروگریسیو یوتھ فرنٹ کئی سالوں سے عوامی حمایت کے ساتھ گلگت بلتستان کے حقوق کی مشترکہ جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ(GBUM) گلگت بلتستان کی قومی سیاسی جماعت ہے۔ یہ جماعت کئی سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کی بنیادی اور انسانی حقوق کے لئے پرامن سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ GBUM گلگت بلتستان کے دیگر قوم پرست جماعتوں اور گلگت بلتستان کے 2 ملین عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے 16 نومبر کی سیاہ ترین دن کی مناسبت سے درج ذیل مطالبات حکومت پاکستان اور اقوام عالم کے سامنے رکھنا چاہتی ہے۔
۱۔ گلگت بلتستان کی نام نہاد صوبائی طرز کی اسمبلی کو فی الفور توڑ کر آزاد کشمیر طرز کی" ریاستی اسمبلی" کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کیونکہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے لہذا اس خطے کے عوام کو وہ مراعات حاصل ہونا چاہیئے جو آزاد کشمیر کے لوگوں کو حاصل ہے۔

۲۔ گلگت بلتستان میں غیر مقامی لوگوں کو بساکر مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اسٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کرتے ہوئے گلگت بلتستان سے غیر مقامی لوگوں کو نکال باہر کیا جائے اور مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

۳۔ گلگت بلتستان میں غیر مقامی سول اور ملٹری بیوروکریسی کی تعیناتی کو روک دیا جائے اور تمام غیر مقامی ملازمین کو واپس اسلام آباد بلایا جائے اور انکی جگہ مقامی لوگوں کو ملازمتیں دی جائے۔

۴۔ گلگت بلتستان سے ر ینجرز، FC  اور غیر مقامی فورسس کا انخلا عمل میں لایا جائے اور سرکاری ایجنسیوں کو عوام کے معاملات میں مداخلت سے باز رکھا جائے۔

۵۔ گلگت بلتستان کے لوگوں پر انکم ٹیکس کا نفاذ لوگوں کی معشیت پر خودکش حملہ ہے۔ ٹیکس کے نفاذ کا عوام دشمن فیصلہ فوری واپس لیا جائے۔

۶۔ گلگت بلتستان میں تمام سرکاری محکموں میں رشوت کے عوض کھلے عام ملازمتیں فروخت ہو رہی ہیں اس سلسلے کو روکا جائے اور میرٹ پر بےروزگاروں کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

۷۔ گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کی سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کو ہٹایا جائے اور انہیں اظہار رائے کی آزادی اور اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھنے کا حق دیا جائے۔

۸۔ گلگت بلتستان میں جمہوریت کے قیام، انسانی حقوق کی بحالی اور سیاسی سرگرمیوں کو یقینی بنایا جائے اور متنازعہ خطے میں یہاں کے لوگوں کی مرضی کے برعکس" بھاشہ ڈیم اور بونجی ڈیم" بنانے سے گریزکیاجائے۔

۹۔ گلگت بلتستان کے قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی اور سماجی کارکنوں پر قائم جھوٹے مقدمات واپس لئے جائیں اور انہیں انصاف دیا جائے۔

۱۰۔ گلگت بلتستان میں آزادی اظہار رائے کو ممکن بنانے کے لئے تمام صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

۱۱۔ گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کے خلاف منفی پروپیگنڈوں کو فوری بند کیا جائے اور ان پر قائم مقدمات واپس لئے جائیں۔

۱۲۔گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل اور معدنیات کو اونے پونے غیر ملکی کمپنیوں کو بیچنے سے گریز کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 212731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش